کئی معاشروں میں کسی کی عمر کے بارے میں پوچھنا معیوب، لیکن جنوبی کوریا میں ایسا نہیں ہے!

ویب ڈیسک

بہت سے معاشروں میں پہلی ملاقات کے ابتدائی کلمات میں عمر پوچھنا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جنوبی کوریا میں لوگ ملتے ہیں تو ان کے ابتدائی سوالات میں عمر پوچھنا بھی شامل ہوتا ہے۔۔ مگر ایسا کیوں؟

یوں تو عمر کے بارے میں سوال کرنے پر اکثر پوچھنے والے کو جواب ملتا ہے کہ ’صاحب، عمر تو صرف ایک ہندسہ ہے‘، لیکن جنوبی کوریا میں یہ ہندسے سے بڑھ کر ہے

آپ جنوبی کوریا میں کسی شخص سے ملیں گے، تو ممکن ہے ابتدائی کلمات میں سے یہ آپ کی عمر سے متعلق سوال بھی ہو۔ جنوبی کوریا میں لوگوں کے لیے کسی کی عمر جاننا اتنا ضروری کیوں ہے؟

کوریائی معاشرہ کنفیوشس ازم سے بڑے پیمانے پر متاثر ہوا ہے، جو تعلقات کے درمیان ہم آہنگی پر زور دیتا ہے۔ کنفیوشس ازم، جس کی بنیاد ایک چینی فلسفی کنفیوشس نے رکھی تھی، معاشرے کو چلانے کے لیے سماجی اخلاقیات، اخلاقیات اور اقدار کی وضاحت کرتا ہے۔ احترام اور اطاعت ایک ہم آہنگ معاشرے کو چلانے کے لیے اہم سماجی محرکات ہیں

روایتی کوریائی اخلاقیات اپنے سے بڑے عمر کی خدمت اور ان کا احترام کرنا سکھاتی ہے

اگرچہ مغربی ثقافت کے اثرات سے روایتی صنفی کردار یا صنفی فرق آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے، لیکن کوریائی معاشرہ اب بھی روایتی صنفی کرداروں پر قائم ہے۔ جو چیز خاص طور پر مضبوط رہتی ہے وہ یہ توقع ہے کہ نوجوان اپنے بڑوں کا احترام اور فرمانبردار ہوں گے۔ مثال کے طور پر، کورین زبان بڑے اور چھوٹے سے بات کرتے وقت استعمال ہونے والے الفاظ میں فرق کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، عمر کسی فرد کے لقب میں فرق کرتی ہے، اور بوڑھے لوگوں کے نام ان کے عنوان کے بغیر پکارنا کافی بدتمیز سمجھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، کم عمر خواتین بڑی عمر کے مردوں کو "اوپا” کے نام سے پکارتی ہیں، جوان خواتین بڑی عمر کی خواتین کو "اُنی” کہتی ہیں، چھوٹے مرد بوڑھے مردوں کو "ہیونگ” کہتے ہیں اور نوجوان مرد بڑی عمر کی خواتین کو "نونا” کہتے ہیں

کوریا میں عمر پوچھنے کی وجہ یہی ہے کہ کسی دوسرے کی عمر کے بارے میں پوچھ کر، کوریائی باشندے یہ معلوم کرتے ہیں کہ آیا وہ نسبتاً کم عمر، ہم عمر یا بڑے ہیں تاکہ وہ متوقع آداب کی پابندی کریں۔

جنوبی کوریا میں لوگ عمر کے معاملے میں نہایت متجسس ہیں۔ جنوبی کوریائی روایتی نظام کے مطابق پیدائش کے وقت ہی جنوبی کوریائی بچہ ایک برس کا ہوتا ہے اور کسی کی سالگرہ کسی بھی دن کیوں نہ ہو، اجتماعی طور پر سب کے سب باشندوں کی عمر نئے سال کے موقع پر ایک برس بڑھ جاتی ہے

واضح رہے کہ موجودہ نظام کے تحت جنوبی کوریا میں پیدا ہونے والے ہر بچے کی عمر پیدائش کے ساتھ ہی ایک سال شمار کی جاتی ہے، جبکہ زیادہ تر ممالک میں کسی بھی بچے کی پیدائش کی تاریخ کے ایک سال بعد اس کی عمر کا حساب لگایا جاتا ہے

اس نظام کے تحت جنوبی کوریا کے شہری نئے سال کے آغاز پر اپنی حقیقی عمر سے ایک سال بڑے ہو جاتے ہیں، لہٰذا 31 دسمبر کو پیدا ہونے والے بچے دنیا میں آنے کے ایک روز بعد ہی یعنی یکم جنوری کو دو سال کے ہو جاتے ہیں

شمالی کوریا 1980ع کی دہائی میں بچوں کی عمر کے حوالے سے عالمی معیار پر منتقل ہو گیا تھا، تاہم جنوبی کوریا میں اب بھی وہی قدیم نظام استعمال کیا جا رہا ہے

حکومتی سروے کے مطابق عوام نے قدیم نظام میں تبدیلی کے لیے بھرپور حمایت کی ہے۔ تقریباً 80 فی صد لوگ ’کورین ایج سسٹم‘ کو ختم کرنا چاہتے ہیں

حکومتی قانون سازی کی وزارت کے ترجمان لی جی جنگ کے مطابق ”اس نظام کی ابتدا کب ہوئی تھی یہ معلوم کرنا مشکل ہو گا تاہم جنوبی کوریا ہی واحد ملک ہے جو معاشرے کی وجہ سے اس نظام کو اب تک برقرار رکھے ہوئے تھا“

بہت سے قانونی اور انتظامی امور کی وجہ سے سن 1962ع سے جنوبی کوریائی باشندے عمر کا بین الاقوامی نظام اپنائے ہوئے ہیں،
لیکن جب بات ہو شراب یا تمباکو نوشی یا فوجی خدمات کی قانونی عمر کی تو وہ ’کیلینڈر سال‘ کا استعمال کرتے ہیں، جس کے تحت پیدائش کا سال موجودہ برس سے منہا کر دیا جاتا ہے

ایک ہی ملک میں عمر سے متعلق مختلف نظاموں کی موجودگی بعض اوقات ایسی صورتحال پیدا کر دیتی ہے، جس سے ابہام جنم لیتا ہے۔ مثال کے طور پر کورونا وائرس کی وبا کے موقع پر ویکسین کے لیے عمر نے جنوبی کوریا میں معاملات غیر واضح رکھے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ یہ تمام غیریقینی معاملات جون 2023 سے ختم ہو جائیں گے، کیوں کہ یہ ملک تمام دفتری معاملات میں فقط عمر کا بین الاقوامی نظام استعمال کیا کرے گا

جنوبی کوریا میں کئی افراد اس تبدیلی پر خوش ہیں، کیوں کہ یوں ان میں سے کئی ایک کی عمریں ایک یا دو برس کم جائیں گی جب کہ بہت سے لوگوں نے اس خبر پر سکون کا سانس لیا

جنوبی کوریائی شہری سوفی چوئی کہتی ہیں ”عمر کا کوریائی نظام بہت پیچیدہ ہے، حتیٰ کہ خود کورئین شہریوں کے لیے بھی مبہم ہے‘‘

اس لیے بہت سے لوگوں کے لیے یقیناً عمر محض ایک ہندسہ ہو سکتی ہے، لیکن کوریا میں یہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ چوئی جو خود تھائی ہیں، مگر شادی کے بعد کورئین خاندان کا حصہ بنی ہیں، بتاتی ہیں ”ایک بار انہوں نے اپنے بیٹی سے کہا کہ باہر اپنی ’دوست‘ کے ساتھ جا کر کھیلو، تو ایسے میں میری ساس نے میری تصحیح کی کہ وہ بچی تمہاری بچی سے بڑی ہے۔ یہ معاملہ اتنا حساس ہے کہ جنوبی کوریا میں آپ جڑواں بہن بھائیوں تک میں یہ بحث سن سکتے ہیں کہ کس کی عمر زیادہ ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close