ملیر کی مختصر تاریخ (دوسرا حصہ)

سید علی عمران

ملیر نام کے خطے

دنیا میں پانچ ایسے خطے ہیں، جن کا نام ملیر ہے. پہلا انڈیا کے صوبے راجھستان میں ایک علاقہ "ملیر کوٹلہ” کے نام سے ہے. دوسرا صوبہ سندھ کے ضلع تھر پارکر کے علاقے ننگرپارکر میں ایک علاقہ ملیر کے نام سے ہے. اسی طرح سے صوبہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کا ایک ساحلی علاقہ "کنڈ ملیر” کے نام سے ہے. اس کے علاوہ ضلع جامشورو میں ایک ندی ہے اور اس کے کنارے پر انگریزوں کی تعمیر کردہ چھوٹی سی عمارت "ملیری لانڈھی” کے نام سے بھی ہے، جس کے قریب اسی نام سے ماضی میں کوئی گاؤں بھی آباد تھا. پانچواں کراچی کا "ضلع ملیر” ہے.

ملیر سندھی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی سرسبز اور شاداب کے ہیں. مگر شاہ جو رسالو میں شاہ عبداللطیف بھٹائی نے ماروی/مارئی کے حوالے سے جس ملیر کا ذکر کیا ہے، وہ ضلع تھرپارکر کے تعلقہ ننگرپارکر کے ایک گوٹھ کا نام ہے. جہاں ماروی کا کنواں بھی موجود ہے۔
بعض محقیقین کی نظر میں یہ مالور، مالَیر، ملّیر، مالیر وغیرہ میں سے کسی ایک کی بگڑی ہوئی شکل ہو سکتی ہے.

تھر والے ملیر اور کراچی والے ملیر میں مماثلت دراصل بارشوں کی وجہ سے ہونے والی سرسبزی اور شادابی ہے.

اس کے علاوہ ملیر کے نام پر ایک تحقیق اور بھی ہے، جس کے مطابق یہ لفظ ملّیر ہے. یہاں لام پر تشدید ہے۔ یہ لفظ بلوچی زبان کا ہے، جس کے معنی "سر کی چوٹی” یا "چٹیا” کے ہیں. اگر ملیر ندی کے نقشے پر غور کیا جائے تو کاٹھور کی طرف سے آنے والی دو ندیاں ’کَھدَیجی‘ اور ’مَول‘ سپر ہائی وے پر انصاری پل کے پاس ایک دوسرے سے مل کر ایک ہو جاتی ہیں اور اسے ملیر ندی کا نام دیا جاتا ہے. ندیوں کے اس ملاپ کو نقشے میں دیکھا جائے تو دونوں ندیاں آپس میں اس طرح باہم مل کر ایک ہوتی ہیں، جیسے عورتوں کے بالوں کی چٹیا بنتی ہے اور اسے بلوچی زبان میں ملّیر کہتے ہیں. مقامی بلوچی زبان میں یہ لفظ اب متروک ہو چکا ہے، تاہم بلوچستان اور ایران کی بلوچی زبان میں اب بھی یہ لفظ رائج ہے اور استعمال کیا جاتا ہے.

کچھ ذکر ملیر کی تاریخ کا

جدید کراچی شہر کی بنیاد سے بہت پہلے ملیر میں آبادی کے آثار موجود تھے. یہاں ہر دور کے آثار ملتے ہیں۔ جن سے وادی کی قدامت کا پتہ چلتا ہے. دریائے سندھ کے سمندر میں گرنے کی جگہ سے قریب ہونے کی وجہ سے کشمیر سے سمندر تک اور دیگر ملکوں کی جانب گزرگاہوں کا راستہ بھی یہاں سے زیادہ دور نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ وادی ملیر ہمیشہ آباد رہی ہے اور اسے سندھ کی ثقافت کا شمال مغربی ستون سمجھا گیا ہے

ملیر ندی کے کنارے پر کئی مقامات ایسے ہیں، جہاں ہڑپہ تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں. ضلع ملیر کے گڈاپ ٹاؤن کے علاقے کونکر کی بلند پہاڑی کی گھاٹیوں اور لانڈھی کے قریب واقع چٹان کے قرب و جوار میں کچھ اوزار برآمد ہوئے ہیں، جو قدیم پتھر کے زمانے کے آخری دور کے ہیں جبکہ جدید پتھر کے دور کے اوزار بھی ملیر ندی اور اس کی معاون ندیوں کے قریب سے ملے ہیں. اس کی قدامت تقریبا آٹھ ہزار سال پرانی ہے. اسی طرح سے گوٹھ اللہ ڈنو میں ایک ٹیلے کی کھدائی کے دوران تانبے کے دور کے نوادرات بڑے پیمانے پر حاصل ہوئے ہیں.

اکثر محققین کراچی کے علاقے ملیر، لانڈھی اور منگوپیر کو کو زبردست تاریخی حیثیت دیتے ہیں اور ان علاقوں کو ہڑپہ اور ’موہن جو دڑو‘ کی تہذیبوں کا ہم عصر بتاتے ہیں اور عرب کے دور سے جوڑتے نظر آتے ہیں لیکن ابھی تک کراچی کی تاریخ پر عملی طور پر کوئی کام نہیں ہوا.

کچھ ذکر ملیر ندی اور ڈملوٹی کے کنووں کا

بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ملیر ندی خود سے اپنا وجود نہیں رکھتی بلکہ 2100 فٹ بلند مول پہاڑ سے آنے والی مول ندی اور جامشورو ضلع کی 1000 فٹ بلند پہاڑیوں سے نکلنے والی کھدیجی ندی 30 میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد جپ سپر ہائی وے کے پاس انصاری پل کے سامنے آپس میں مل کر ایک ہو جاتی ہیں تو اپنا وجود کھو کر ملیر ندی بناتی ہیں. پھر اس ندی میں مزید تھدو ندی، بازار ندی، آبدار ندی، سکھن ندی اور کونکر ندی بھی شامل ہو جاتی ہیں. یوں انصاری پل سے لے کر سمندر کے کنارے گذری کے مقام تک یہ ندی ملیر ندی کہلاتی ہے. ان ندیوں کی مخصوص زمین (جذب کرنے کی صلاحیت رکھنے والی ریت) کی وجہ سے ندی میں آنے والا برساتی پانی زیر زمین ذخیرہ ہو جاتا ہے اور دراصل یہی ذخیرہ ملیر کے پورے علاقے میں زراعت کو فروغ بخشتا ہے.

ملیر ندی اور اس میں شامل ہونے والی تمام معاون ندیوں میں مسامدار زمین اور پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے جب بہت زیادہ برسات میں زیرزمین پانی کا بہاؤ اتنا بلند ہو جاتا ہے کہ کئی جگہ سے واپس زمین سے باہر نکل جاتا ہے. اسی لئے برسات کے بعد بھی کافی عرصے تک ندی میں مختلف جگہوں سے پانی رواں رہتا ہے. جسے مقامی زبان میں "نئَیں” کہتے ہیں۔ کھدیجی ندی میں ایسے معاملات بہت زیادہ ہیں اور زیر زمین پانی بہت وافر مقدار میں موجود رہتا ہے۔ اس لئے اس ندی میں سے اکثر جگہ سے پانی باہر آجاتا ہے اور پورے سال بہتا رہتا ہے. ایک خاص ٹیلے سے جو پانی باہر آتا ہے تو وہ آبشار کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جسے کھدیجی آبشار کہتے ہیں۔ یہ آبشار انتہائی خوبصورت ہے اور پورے سال ہی بہتا رہتا ہے.

اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے انگریز انجینئروں نے ایک اسکیم تیار کی، جس میں ملیر ندی پر ڈملوٹی کے مقام پر کنویں کھود کر زیر زمین قدرتی پانی کے بہاؤ کو استعمال کر کے کراچی کو پانی سپلائی کا منصوبہ تیار کیا. اس کا سنگ بنیاد اس وقت کے صوبہ بمبئی کے گورنر سر رچرڈ ٹیمپل نے 1881ء میں رکھا جبکہ اپریل 1883ء میں اس کا باقاعدہ افتتاح ہوا.

مسام دار زمین کے باعث زیر زمین بہاؤ سے خود بخود پانی کنویں میں آتا جہاں اس کے پیندے میں 2 فٹ قطر کی پائپ لائن سے پانی نکال کر کراچی شہر کو فراہم کیا جاتا. ڈملوٹی کے مقام پر کراچی کو پانی سپلائی کرنے کے لیے 10 کنویں کھودے گئے اور 20 میل طویل زمین دوز راستوں کے ذریعے پچاس لاکھ گیلن پانی روزانہ کراچی شہر کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہاں سے فراہم کیا جاتا تھا. قیام پاکستان کے بعد جب آبادی میں اضافہ ہوا تو اس کے علاوہ بھی دیگر ذرائع سے پانی حاصل کیا جانے لگا تاہم آج بھی ان کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے.

ڈملوٹی کے قریب قائد اعظم کے لیے ایک رہائشگاہ بھی بنوائی گئی تھی مگر قائد اعظم رحلت فرما گئے اور اس میں رہائش اختیار نہ کر سکے.

کچھ ذکر ملیر میں آباد قبائل کا

ملیر میں جوکھیہ قبیلے کے علاوہ ٹھٹہ سے میمن اور سید، بلوچستان سے بلوچ اور سندھ کے کوہستان سے پالاری، برفت اور خاصخیلی قبیلے صدیوں پہلے سے ملیر آ کر آباد ہوتے رہے ہیں. جب کہ قیام پاکستان کے بعد بہت بڑی تعداد میں ہندوستان سے مہاجرین یہاں آکر قیام پذیر ہوئے.

ملیر میں سید، جوکھیا، خاصخیلی، پالاری، برفت، میمن، باریجہ، باپڑا، سرہندی، جاموٹ، جبکہ بلوچ قبائل میں کلمتی، جدگال/ واڈیلا گورگیج، ھوت، واشکی، لاشاری، لغاری، کھوسو، رند اور بروھی وغیرہ شامل ہیں.

جب دنیا میں غلاموں کی خرید و فروخت ہوتی تھی تو افریقہ کے گھونگریالے بالوں والے شیدی اس کا سب سے زیادہ شکار تھے. دنیا سے غلامی کے خاتمے پر یہ لوگ مسقط کے اطرافی علاقے یعنی ایران اور پاکستان کی ساحلی پٹیوں پر آباد ہوتے چلے گئے۔ اس کے علاوہ برٹش دور میں بڑے پیمانے پر ایرانی بلوچ بھی ہجرت کر کے کراچی میں سکونت پذیر ہوئے اور ان کی اکثریت لیاری اور ملیر کے علاقوں میں رہائش پذیر ہے.

ملیر 15 سے لے کر سپر ہائی وے تک کی تمام زمینیں زیادہ تر جوکھیہ، بلوچ، میمن، خاصخیلی اور ہندو بنیوں کی تھیں. انگریزوں کے زمانے میں جب یہاں گجرات سے خواجہ(اسماعیلی) آئے تو ان لوگوں نے بھی یہاں پر زمینوں کو خریدا. آج بھی ان کے پاس کافی زرعی زمین موجود ہے. ہندو بنیے قرض کے بدلے زمین رہن کے طور پر رکھ لیتے تھے اور رقم نا ملنے پر زمین اپنے نام کروا لیتے تھے. یہ یہاں کا عام رواج تھا.

ملیر کے مختلف ادوار

وادیِ ملیر میں پختہ عمارتوں کی تعمیر کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ چودھویں سے سترہویں صدی عیسوی جو چوکنڈی کی قبروں کی تعمیر کا دور ہے. چوکنڈی طرز کی قبریں ملیر میں کافی جگہ پر موجود ہیں مگر بڑے قبرستان ملیر میں دو جگہ پر ہیں ایک قبرستان ڈملوٹی روڈ پر واقع ہے، جو قدامت کے لحاظ سے لانڈھی کے چوکنڈی کے قبرستان سے پرانا ہے اور تقریباً چودھویں صدی عیسوی کا ہے. جب کہ لانڈھی والے چوکنڈی کا قبرستان سولہویں صدی عیسوی کا ہے. ان قبرستانوں میں قبائلی تصادم کے نتیجے میں مرنے والوں کی قبریں بھی موجود ہیں.

دوسرا دور 1885 کا جب ڈملوٹی پر انگریزوں نے کنویں بنائے اور مختلف تعمیرات کی.
تیسرے دور میں ہندوؤں نے اس پرفضا مقام کا رخ کیا اور اپنی بڑی بڑی حویلیاں بنوائیں، جن کی تعمیر زیادہ تر 1910 کے بعد سے شروع ہوئی، جن میں ملیر مندر اور اس سے ملحقہ صحت گاہ اور ملیر مندر سے ملحقہ دیگر تعمیرات بھی اسی علاقے میں شروع ہوئیں.

چوتھے دور میں ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کے لیے شیڈ اور کوارٹر بنے، جن کا ذکر پچھلے مضمون اربن ملیر کی مختصر تاریخ میں بیان کیا جا چکا ہے

ملیر 15 سے سپر ہائی وے تک کی مشہور آبادیاں

1۔ جام گوٹھ:

جام دراصل جوکھیہ قبیلے کے سردار کا لقب ہے. کیوں کہ جام گوٹھ میں جوکھیا قبیلے کے سردار رہتے ہیں لہٰذا اسی مناسبت سے اس علاقے کا نام جام گوٹھ پڑ گیا.

جوکھیو قبیلہ سمہ قوم میں شامل کیا جاتا ہے یہ راجپوت نسل سے ہیں. یہ لوگ بارہویں صدی عیسوی میں وسطی سندھ سے مختلف وجوہات کی بنا پر ہجرت کر کے سندھ اور قلات کی سرحد د پر واقع علاقے گنگھورا میں رہائش پذیر ہوئے، جو شاہ بلاول نورانی کے مزار سے کوئی 3 میل کے فاصلے پر ہے. پھر یہ آہستہ آہستہ حبب ندی سے گھارو کے درمیان آباد ہونا شروع ہو گئے۔ چودھویں صدی عیسوی میں جوکھیا قبیلے نے اپنا ایک سردار میرن جی حاجی کو چنا، جس نے پہلی بار جام کا لقب اختیار کیا. میاں غلام شاہ کلہوڑو نے جام بجار جوکیہ کو جاگیر عطا کی اس طرح جوکھیا قبیلہ جو اس علاقے میں پہلے سے آباد تھا انتہائی طاقتور بھی ہوگیا. 1757ء میں جب غلام شاہ کلہوڑو نے کراچی پر دوبارہ اپنی عمل داری حاصل کی تو جوکھیہ قبیلے اور دیگر قبائل کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ تمام تجارتی قافلوں کی کراچی سے سہون تک حفاظت کریں گے.

2۔ اولڈ تھانہ

اٹھارویں صدی کے شروع میں خاصخیلی قبیلے کے لوگ اس وقت کے کراچی اور ٹھٹہ ضلع کی سرحد پر واقع گھگھر کے علاقے سے موجودہ اولڈ تھانے میں آکر رہائش پذیر ہوئے جہاں اس کا پہلا نام گھار (gharh) پڑا. خاصخیلیوں کی آبادی کے بعد اس علاقے میں بلوچوں نے بھی رہائش اختیار کرنا شروع کی. محرم کے حوالے سے "حشر پڑ” بن جانے کے بعد اٹھارہویں صدی کے آخر میں اس علاقے کا اسی مناسبت سے نیا نام حشر پڑ ہو گیا. انگریزوں کے زمانے میں اس علاقے میں ایک پولیس کی چوکی بن گئی، جس کی مناسبت سے قیام پاکستان کے بعد اس علاقے کا نیا نام اولڈ تھانہ ہو گیا.

3. میمن گوٹھ

پندرہویں صدی عیسوی میں ٹھٹہ شہر میں پیر سید یوسف الدین کے ہاتھ پر ہندو لوہانہ قبیلے کے 700 خاندانوں نے بیعت کی اور مسلمان ہو گئے. پیر صاحب نے ان نومسلم خاندانوں کو مومن کا لقب دیا، جو وقت کے ساتھ ساتھ میمن بن گیا. اس کے علاوہ ایک اور تحقیق کے مطابق محمد بن قاسم کی فتح سندھ کے بعد اس کا خیر مقدم کرنے والے بدھ مت کے لوگوں میں سے جو لوگ مسلمان ہوئے، وہ سما کہلائے انہی میں مامون خاندان بھی تھا جو آگے جاکر میمن ہو گیا. ان کی اکثریت ٹھٹہ شہر اور اس کے قرب و جوار میں صدیوں سے رہتی تھی. 1840 سے 1850 کے دوران میمن قبیلے کے اکثر خاندان مختلف وجوہات کی بنا پر ٹھٹہ سے حیدرآباد، سہون اور کراچی میں منتقل ہونا شروع ہو گئے. کراچی میں میمن خاندان کے لوگ ملیر کے ایک مخصوص علاقے میں منتقل ہوتے رہے۔ بعد میں میمنوں کے علاوہ اور بھی بہت سارے لوگ اس علاقے میں منتقل ہوئے مگر کیوں کہ میمنوں کی اکثریت تھی اس لیے یہ علاقہ میمن گوٹھ کے نام سے مشہور ہو گیا. یہ علاقہ کراچی شہر میں دیہی اور شہری زندگی کا مرکب ہے. پورے گڈاپ ٹاؤن کے لوگ جو دیہی کراچی سے تعلق رکھتے ہیں خریداری کرنے کے لئے میمن گوٹھ کا ہی رخ کرتے ہیں.

4. درسانو چھنو

پرانے زمانے میں ٹھٹہ اور بمبھور اہم شہر تصور کیے جاتے تھے اور یہاں سے بلوچستان کے شہروں میں جانے کے لیے تجارتی قافلوں کی سب سے اہم گزرگاہ درسانو چھنو سے ہی گزرتی تھی، جو ایک قدیم آبادی ہے. حضرت یوسف شاہ، جن کا مزار درسانو چھنو میں ہے، ان کے مزار کے پاس درس قبیلے کے ایک فرد نے جھونپڑی، جسے مقامی زبان میں ’چھنہ‘ کہتے ہیں، بنوائی. تھوڑے عرصے بعد یہ جھوپڑی یعنی چھنہ ’درس جو چھنو‘ کے نام سے مشہور ہو گئی. جو کثرتِ استعمال سے ’درسانو چھنو‘ ہو گیا اور سرکاری کاغذات میں بھی یہی نام درسانو چھنو کے نام پر ریکارڈ ہو گیا.

5. سومار کنڈانی اور سومار اسماعیل

1765ع میں تھدو نالہ کے قریب ہریالی کو دیکھتے ہوئے منڈو خاصخیلی جوناگڑھ سے لسبیلہ اور پھر گڈاپ سے ہوتا ہوا اس علاقے میں رہائش پذیر ہوا. اور تھوڑے ہی عرصے میں اس علاقے میں خاصخیلیوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر ہو گئی. سومار اس علاقے کا بہت معزز شخص تھا، جبکہ اس علاقے میں کنڈا کا بہت بڑا درخت تھا، جو ابھی دس سال پہلے ختم ہوا ہے. سومار کی شخصیت کی وجہ سے یہ پورا علاقہ سومار کہلانے لگا. 1970ع میں جب اس علاقے میں روڈ پڑی تو یہ علاقہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا، جس کی وجہ سے آپس میں لڑائی شروع ہوگئی اور یہ لوگ فیصلے کے لیے جام کے پاس پہنچے. جام نے دونوں علاقوں کا الگ الگ نام دے دیا لیکن کیونکہ سرکاری دستاویز میں اس علاقے کا نام سومار تھا، اس لئے روڈ کے ایک طرف والے علاقے میں مشہور درخت کنڈا تھا، جس کی مناسبت سے یہ علاقہ سومار کنڈانی کے نام سے مشہور ہو گیا. اور روڈ کے دوسری طرف مشہور شخصیت اسماعیل تھے اس لیے اس علاقے کو ان کے نام پر سومار اسماعیل گوٹھ کھا جانے لگا.

6. ملا عیسیٰ گوٹھ

واجہ ملا عیسیٰ انیسویں صدی عیسوی میں ملیر کے ولی صفت روحانی شخصیت تھے۔ ان کے قلبی اور روحانی پہلو کے متعلق روایات مشہور ہیں. آپ ہی کے نام پر اس علاقے کو ملا عیسی گوٹھ کہا جاتا ہے، جب کہ آپ کے پوتوں میں واجہ رحیم بخش، واجہ محمد بخش اور واجہ اکرم شامل ہیں

7. آسو گوٹھ

آسو گوٹھ دراصل اس علاقے کے بہت مشہور حلوائی آسومل کے نام پر ہے، جو قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے ہندوستان کے شہر بمبئی چلا گیا تھا. بمبئی میں اس کا آج بھی مٹھائی کا بہت بڑا کاروبار ہے. جس جگہ آج بکرا پیڑی ہے، وہاں کبھی آسومل کا خالص دودھ حاصل کرنے کے واسطے بہت بڑا بھینسوں کا باڑا تھا، جو اس کے جانے کے بعد بکرا پیڑی میں تبدیل ہو گیا. نیشنل ہائی وے پر جہاں آج گوشت مارکیٹ ہے، وہاں آسومل کی مٹھائیوں کی بہت بڑی دوکان تھی، جہاں سے مٹھائیاں شہر کی جانب بھجوائی جاتی تھیں.

8. کوہی گوٹھ

بلوچستان سے ہجرت کرکے آنے والے زکری زیادہ تر ایک خاص جگہ پر رہائش پذیر ہوئے. یہ لوگ کیوں کہ زیادہ تر پہاڑی علاقوں سے آئے تھے اور بلوچی زبان میں پہاڑ کو ’کَوہ‘ کہتے ہیں، اسی نسبت سے پہاڑی علاقوں سے آنے والے ذکریوں کے اس گوٹھ کا نام کوہ کی نسبت سے ’کوہی گوٹھ‘ ہو گیا

9. ملیر کینٹ

ملیر میں دوسری جنگ عظیم کے دوران نیو ملیر کے نام سے ایک فوجی پڑاؤ ڈالا گیا تھا. 1941ء میں اس پڑاؤ کو چھاؤنی کی حیثیت دینے کے لیے کنٹونمنٹ ایکٹ کے تحت حکومت ہندوستان نے نیو ملیر کے فوجی پڑاؤ کو مستقل چھاونی کی حیثیت دے دی. یوں 1941 میں ملیر کینٹ مستقل فوجی چھاؤنی بنا

10. بِھرُو گوٹھ

اولڈ تھانہ آنے سے پہلے ایک گاؤں بھرو جوکھیو کے نام سے بھرو گوٹھ ہے. اسی طرح سے ملیر بھر میں بہت سارے گاؤں اور گوٹھ یا تو وہاں کے زمینداروں کے نام سے ہیں یا پھر خاص قبیلے کی اکثریت ہونے کی وجہ سے اس قبیلے کے نام سے بنائے گئے ہیں.

اس مضمون میں اگر کوئی غلطی نظر آئے تو اس کی اصلاح ضرور کر دیجئے گا۔

(نوٹ: کسی بھی بلاگ یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

یہ بھی پڑھیے:


قیام پاکستان کے بعد ملیر (اربن) کی مختصر تاریخ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close