اس وقت پاکستان کا حصہ مختلف خطے دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا مسکن رہے ہیں۔ یہاں کی وادیِ سندھ کی تہذیب ساڑھے چار ہزار سے پانچ ہزار سال تک پرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اُس زمانے میں دنیا کی دس فی صد آبادی دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ رہتی تھی۔ قدیم دور کی انہی آبادیوں میں ’موئن جو دڑو‘ اور ’ہڑپہ‘ جیسے عظیم شہر بھی شامل تھے
لیکن بدقسمتی سے موہن جو دڑو کی قدیم تہذیب پر بقیہ تہذیبوں کے مقابلے میں بہت کم تحقیق کی گئی ہے اور اس ترقی یافتہ قدیم تہذیب کے بارے میں لوگ بہت کم جان سکے ہیں۔ موہن جو دڑو تہذیب کو ہڑپہ تہذیب بھی کہا جاتا ہے جس کے صرف 10 فیصد آثار ہی دریافت ہوئے ہیں
لندن کے ایک مصنف اور ہڑپہ اور موہن جو دڑو تہذیب کے لسانیاتی ماہر اینڈریو رابنسن بین الاقوامی تحقیقی جریدے ’’نیچر‘‘ میں لکھتے ہیں ”قدیم وادی سندھ 10 لاکھ مربع میل تک وسیع تھی جو دریائے سندھ سے لے کر گنگا اور بحیرہ عرب تک پھیلی ہوئی تھی اور اسے دنیا کی پہلی آبادی کہا جاسکتا ہے جہاں ناپ تول کے لیے پتھر کے وزن استعمال ہوتے تھے، دنیا کے اولین بیت الخلا ( ٹوائلٹ) بھی یہی ملتے ہیں اور اس تہذیب میں باضابطہ فوج نہیں تھی“
اس تہذیب کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وادی سندھ کی اس تہذیب کا اسکرپٹ اب تک نہیں پڑھا جا سکا، کیونکہ وہ باضابطہ شکل میں موجود نہیں اور دوسری جانب مہروں پر موجود تصاویر دیکھ کر ہی کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے
کیونکہ آج تک اُن کا تحریری نظام (writing system) یا اسکرپٹ سمجھا ہی نہیں جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ ’انڈس ویلی اسکرپٹ‘ آج بھی دنیا بھر کے سائنسدانوں اور ماہرین کے لیے ایک راز بنا ہوا ہے
دنیا بھر کے ماہرین کئی دہائیوں سے تحقیق کر رہے ہیں لیکن اب تک انڈس اسکرپٹ کو پڑھ نہیں پائے اور اب اس کام میں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) یعنی اے آئی کی مدد لی جا رہی ہے
واضح رہے کہ چیٹ جی پی ٹی بہت بڑا لینگویج ماڈل ہے، یہی وجہ ہے کہ ماہرین کو امید کہ انڈس اسکرپٹ کو پڑھنے اور اس کی تفہیم کے لیے اس کی مدد لی جا سکتی ہے
وادیِ سندھ کی تہذیب 1920 کی دہائی میں دریافت ہوئی تھی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ 1999 تک یہ تک معلوم نہیں تھا کہ اس کے اسکرپٹ کے ابتدائی نمونے کون سے ہیں؟ مختلف برتنوں، مہروں اور ہڈیوں پر بھی جانوروں کی مختلف اور عجیب شکلیں تھیں اور یہی پیچیدہ نقوش اس دریافت کو اور بھی دلچسپ بنا رہی ہیں۔ لیکن لکھا کیا ہے؟ یہ آج بھی کوئی نہیں جانتا
مائکروسافٹ میں اپلائیڈ مشین لرننگ کے سائنسدان ستیش پالیانی اپن کا کہنا ہے کہ یہ اسکرپٹ ہمیں اِس قدیم تہذیب کے طرز زندگی کے بارے میں بہت مدد دے گا
ستیش پالیانی ان بہت سے سائنسدانوں میں سے ایک ہیں، جو مصنوعی ذہانت سے کام کرنے والے الگورتھمز کی مدد سے انڈس اسکرپٹ کو decode کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
انہوں نے ایک ایسا الگورتھم بنایا ہے، جو اس ٹیکسٹ کے مختلف patterns کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مختلف شکلوں کی فریکوئنسی کی مدد سے وہ چاہتے ہیں کہ وہ کوئی key بنا سکیں
واضح رہے کہ مصری تہذیب کی زبان بھی ایک multilingual key کی مدد سے ڈی کوڈ کی گئی تھی، جسے Rosetta Stone کہتے ہیں۔ اس کی مدد سے پہلے سے ڈی کوڈ شدہ زبان کی مدد سے ایک نامعلوم زبان ڈی کوڈ ہوئی، لیکن کیونکہ وادیِ سندھ سے ایسی کوئی multilingual key نہیں ملی، اس لیے ستیش پالیانی اپن جیسے سائنسدان محض اپنی تخلیقی سوچ کے ذریعے انڈس اسکرپٹ اور دوسری زبانوں کے درمیان تعلق کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں
ستیش پالیانی کہتے ہیں ”نیچرل لینگوئج پروسیسسنگ میں حال ہی میں جو ترقی ہوئی ہے، خاص طور پر چیٹ جی پی ٹی جیسے لارج لینگوئج ماڈلز کی آمد سے ہم انڈس اسکرپٹ کے بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ جنریٹو ماڈلز کچھ علامات کو سمجھ پائیں اور ہمیں بتا سکیں کہ یہ کسی زبان کے ڈھانچے میں کس طرح فٹ ہو سکتے ہیں“
اسی طرح یونیورسٹی آف نیبراسکا لنکن میں کمپیوٹنگ کے پروفیسر پیٹر ریویز بھی انڈس اسکرپٹ کو دوسری زبانوں سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں
ستیش اور پیٹر ایک طالبہ شروتی داگومتی کے ساتھ مل کر برہمی اسکرپٹ اور فونیقی حروف (Phoenician alphabet) کے درمیان تعلق کے ذریعے انڈس ویلی اسکرپٹ کا جائزہ لے رہے ہیں اور ان کا تقابل کر رہے ہیں۔ 2018ع میں پیٹر اور داگومتی نے پتہ چلایا تھا کہ انڈس اسکرپٹ کے کچھ حروف فونیقی حروف سے ملتے جلتے ہیں۔ انہوں نے تب بھی اے آئی الگورتھم کا استعمال کیا تھا
انڈس اسکرپٹ تاریخ کی پیچیدہ ترین پہیلیوں میں سے ایک ہے۔ کیا مصنوعی ذہانت انسان کے ساتھ مل کر اس راز کا پتہ چلا پائے گی؟ اگر ایسا ہوا تو جو کام دہائیوں سے نہیں ہو پا رہا تھا، وہ ہو جائے گا اور شاید یہ سائنس کے میدان میں مصنوعی ذہانت کی ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی
اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے سندھو اسکرپٹ پڑھنے کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں ہوگی۔ لگ بھگ آٹھ سال قبل موہن جو دڑو تہذیب کے لسانیاتی ماہر اینڈریو رابنسن ’نیچر‘ میں شائع اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ 2600 قبل مسیح سے 1900 قبل مسیح تک قائم رہنے والی اس تہذیب کا اسکرپٹ معلوم کرنے کے لیے اب ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا سہارا لیا جارہا ہے اور توقع ہے کہ اس ضمن میں اہم کامیابی ملے گی
اینڈریو کے مطابق وادی سندھ کی اس تہذیب میں 400 سے600 اہم علامات ہیں جو مختلف مہروں اور دیگر جگہوں پر ثبت ہیں اور وہی مل کر موہن جو دڑو کا اسکرپٹ بناتی ہیں۔ اس سے قبل موہن جو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں کا اسکرپٹ پڑھنے کی بیسیوں مختلف کوششیں کی جا چکی ہیں
ایک دہائی قبل ٹیکنیکل یونیورسٹی آف برلن نے انڈس اسکرپٹ ٹیکسٹ کا مکمل احوال آن لائن شائع کیا تھا، جب کہ واشنگٹن یونیورسٹی کے ایک ماہر راجیش راؤ ڈجیٹل تصاویر میں چھپے مختلف پیٹرن دریافت کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق وادی سندھ کی تمام علامات کو ڈجیٹل روپ دینے کے بعد اسے کمپیوٹر پراسیسنگ سے گزار کر اس معمے کا حل معلوم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔