عہدِ وسطیٰ کے یورپ میں اشرافیہ کا کلچر (ہائی کلچر) اور مقبول عام کلچر (پاپولر کلچر) دونوں کا ارتقاء علیحدہ علیحدہ ہوا تھا۔ ابتدائی دور میں اشرافیہ مذہبی تہواروں اور سماجی میلوں میں شرکت تو کرتی تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ دونوں میں علیدگی ہو گئی تھی۔ اشرافیہ کا رویہ عوامی کلچر کے خلاف حقارت آمیز تھا، کیونکہ اس میں جو رقص ہوتا تھا، گانے گائے جاتے تھے، انہیں وہ تہذیب کے معیار سے گرا ہوا سمجھتے تھے۔ چرچ نے بھی مذہبی نقطہ نظر سے عوامی تہواروں اور میلوں کو فحاشی قرار دیا اور ان کی مذمت کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کا معاشرہ کلچر کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا
اشرافیہ نے اپنے کلچر کو جن خطوط پر تشکیل دیا تھا اور جو اعلیٰ معیار قائم کیے تھے، ان تک عوام کی پہنچ نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ اشرافیہ نہ صرف سیاسی طور پر طاقتور تھی، بلکہ مالی وسائل پر بھی اس کا قبضہ تھا۔ اس لیے اشرافیہ کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ ادب، آرٹ، موسیقی، مجسمہ تراشی، تعمیرات، نئے فیشن کے ملبوسات اور ان کی خواتین ہیرے، جواہرات اور سونے کے زیورات کو استعمال کرکے اور فنون لطیف کی سرپرستی کرکے اپنے طبقے کو مہذب یافتہ ثابت کریں۔ دولت کا اظہار دعوتوں سے بھی ہوتا تھا۔ جہاں مہمانوں کی تواضع مختلف اقسام کے کھانوں سے کرتے تھے۔ اس کلچر کی وجہ سے اشرافیہ کو امتیازی خصوصیت حاصل تھی، کیونکہ یہ کلچر ان کے طبقے میں محدود تھا اس لیے عام لوگ اس سے محروم تھے
یورپ کی تاریخ میں اس وقت تبدیلی آنی شروع ہوئی جب اس کے معاشرے میں متوسط طبقے کا ابھار ہوا۔ یہ متوسط طبقہ نہ صرف تعلیم یافتہ تھا، بلکہ تجارت کی وجہ سے معاشی طور پر خوشحال بھی تھا۔ اس لیے متوسط طبقے اور عوام کے درمیان محرومی احساس تھا۔ اس کی وجہ سے یورپ میں سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلیاں آئیں۔ اس کی ابتداء فرانسیسی انقلاب سے ہوئی جس نے اشرافیہ کے کلچر کو الٹ کر رکھ دیا۔ انقلاب کی یہ لہریں دوسرے یورپی ملکوں میں بھی گئیں اور اس کے نتیجے میں قومی ریاست کا ادارہ وجود میں آیا۔ اس ادارے کے وجود میں آنے کے بعد عوام کی جانب سے بنیادی حقوق کی تحریکیں اٹھائی گئیں۔ خاص طور سے ان تحریکوں میں اس بات کی جانب زور دیا گیا کہ ریاست کا اپنا ایک دستور ہونا چاہیے اور اسمبلیوں میں نمائندوں کا انتخاب عوام کے ووٹوں سے ہونا چاہیے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں فرانس میں 1830ء میں ایک انقلاب آیا اور پھر 1848ء میں پورے یورپ میں انقلابی تحریکیں اٹھیں۔ ان سیاسی تحریکوں کی وجہ سے حکومتیں مجبور ہوئیں کہ وہ جمہوریت میں عوام کو ان کا حصہ دیں۔ چنانچہ انگلینڈ میں 1830ء میں Great Reform Bill منظور ہوا، جس سے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اس کے بعد سے برطانوی پارلیمنٹ مجبور ہوئی کہ وہ زیادہ سے زیادہ عوام کو ووٹ کا حق دے۔ 1871ء میں متحدہ جرمنی میں بھی حق رائے دہی میں اضافہ کیا گیا۔ اس رائے دہی کے حق کی وجہ سے عوام کا دبائو سیاسی جماعتوں پر ہوا اور اسمبلیوں میں ان کے حق کو تسلیم کیا گیا اور اس کی وجہ سے ریاست کا کردار بھی بدل گیا اور کلچر کی وہ مراعات جو اب تک اشرافیہ کے پاس تھیں ان میں عوام کی شرکت بڑھنے لگیں
قومی ریاست میں کلچر کے جو ادارے قائم ہوئے ان کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ عام لوگوں کے لیے بھی تعلیم کا حصول عام ہو گیا، جس کی وجہ سے خواندگی کی شرح بڑھ گئی اور عوام میں یہ شعور آیا کہ وہ تبدیل ہوتے ہوئے کلچر میں شرکت کر سکے۔ کلچر کے ان اداروں میں میوزیم آرٹ گیلریز، موسیقی اور رقص کے مراکز، ادبی محفلیں شامل تھیں جس نے ایک مشترکہ کلچر کو جنم دیا۔ اس میں خصوصیت سے کافی ہائوس کابڑا حصہ تھا۔ مثلاً لندن ہی میں کئی سو کافی ہائوس تھے۔ یہاں ادیب، شاعر، آرٹسٹ، سائنسدان، صحافی، تاجر، اساتذہ اور طالب علم آپس میں مل کر بیٹھتے تھے اور بحث و مباحثہ کرتے تھے۔ لندن کی طرح پیرس کے کافی ہائوس بھی ادیبوں، شاعروں اور آرٹسٹوں کے مراکز ہوگئے تھے۔ پرنٹنگ پریس کی وجہ سے اخباروں، رسالوں اور کتابوں کی اشاعت نے علم کے فروغ میں حصہ لیا۔ ان سرگرمیوں کی وجہ سے اشرافیہ کے کلچر کی امتیازی خصوصیت آہستہ آہستہ ختم ہوتی گئی اور سوسائٹی میں ایک مشترکہ کلچر کی تشکیل ہوئی جسے قومی کلچر کہا جا سکتا ہے۔ قومی کلچر کی وجہ سے لوگوں میں ایک قوم ہونے کا احساس پیدا ہوا اور قومی کردار کے ساتھ ساتھ قومی علامتیں بھی قوم پرستی کے اظہار کا ذریعہ بنیں جیسے قومی زبان، قومی لباس، قومی پرچم اور قومی ترانہ وغیرہ
اس تناظر میں جب ہم پاکستانی معاشرے کا تجزیہ کرتے ہیں تو نہ تو یہاں ہمیں قومی ریاست کا ادارہ نظر آتا ہے اور نہ ہی قومی کلچر۔ پاکستانی سوسائٹی میں اب تک اشرافیہ اور عوامی کلچر کے درمیان بہت دوری ہے۔ اشرافیہ نے اپنے کلچر کی بنیاد پر خود کو مہذب تعلیم یافتہ بنانے کی کوشش ضرور کی ہے، مگر ان کے کلچر کی بنیادیں بہت کمزور ہیں۔ ان کے ادب، آرٹ، موسیقی، تعمیرات، ان سب کی جڑیں مغربی کلچر میں پھنسی ہوئی ہیں اور یہ خود بھی قوم کا ایک حصہ بننے پر تیار نہیں ہیں۔ اس کے برعکس عوامی کلچر بھی جاگیردارانہ اور سجادہ نشینوں کی گرفت میں ہے جو عوام کو جاہل رکھ کر تعصبات اور توہمات میں گرفتار کرکے اپنے زیر اثر رکھنا چاہتے ہیں۔ یہاں وہ کلچر کے ادارے بھی نہیں جن کی مدد سے عام لوگوں میں جمالیات احساس پیدا ہو۔ تھیٹر اور ڈرامے جو عوام کے لیے اسٹیج کئے جاتے ہیں وہ ذہنی پسماندگی کی علامت ہیں، جس قسم کی فلمیں بنائی جاتی ہیں ان سے بھی کوئی سیاسی اور سماجی شعور پیدا نہیں ہوتا ہے۔ جب معاشرے میں معیاری مشترکہ کلچر نہیں ہو گا تو قومی کلچر بھی تشکیل نہ ہو پائے گا
پاکستانی معاشرے کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ قومی کلچرل کی غیر موجودگی میں چاروں صوبوں کے لوگ، صوبائی اور علاقائی کلچر میں پناہ لے رہے ہیں۔ اس علاقائی کلچر کی بنیاد بھی پسماندہ اور قدامت پرست روایات پر ہے۔ یہاں بھی ہمیں وہ آثار نظر نہیں آتے ہیں جو لوگوں کو باشعور بنا کر مشترکہ کلچر کی طرف لے جائیں جس کی بنیاد جمہوری ادارے اور ریاست کا مذہبی معاملات میں غیر جانبدار ہونا ضروری ہے۔ اگر ریاست قومی نہ ہو گی اور اقلیتوں کو قوم سے خارج کر دیا جائے گا تو اس صورت میں قومی کلچر کی تشکیل ناممکن ہوگی۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)