مقبوضہ کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ میں گذشتہ ہفتے مبینہ طور پر بھارتی فوج پر ہوئے ایک حملے کی تحقیقات نے جمعرات کو ایک نیا موڑ اُس وقت لیا، جب مختار احمد نامی پچاس سالہ شہری کی مبینہ خودکشی کے بعد اُن کی ایک وڈیو وائرل ہوئی
لگ بھگ دس منٹ کی اس وڈیو میں مختار احمد کہتے ہیں ”جب گھر فون کرتا ہوں تو بچے روتے ہیں، خوف ہے۔۔ مجھے بتائیں کیا کریں ہم۔۔۔ مجھے معلوم ہے یہ راستہ (خودکشی) غلط ہے، اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔۔ لیکن میری وجہ سے میرا خاندان، میرے بھائی اور گاؤں کے دوسرے لوگ پریشان ہیں۔ اس لیے میں یہ قدم سچائی کے لیے اُٹھا رہا ہوں“
’اگر میں سچ کہہ رہا ہوں تو کوئی اس کو سچ نہیں سمجھ رہا۔۔ میرے خاندان اور مجھ پر بہت ٹارچر ہو رہا ہے۔ اگر میں نے کسی کی مدد کی تو میں نے خدا کو حاظر ناظر جان کر سچائی اور حق پر کی لیکن جو چیز میرے علم میں نہیں یا میرے خاندان پر جو پریشر ڈالا جا رہا ہے، وہ بالکل غلط ہے۔ میں اپنے بھائیوں کو کہتا ہوں کہ میرے بیوی، بچوں کا خیال رکھیں۔ میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، سمجھو وہ بھی مر رہے ہیں۔ کوئی فکر نہ کرے میری زندگی ہی اتنی تھی“
خود کو اور اپنے خاندان کو ’وطن پرست‘ کہتے ہوئے مختار مزید کہتے سنائی دیتے ہیں ”چند لوگوں کی غلطی کی وجہ سے ہم پر ظلم ہو رہا ہے، ان لوگوں کو بے نقاب کریں اور امن و سکون سے رہیں، کیونکہ ہمیں فوج، پولیس یا حکومت سے کوئی شکایت نہیں۔۔۔ اگر کسی ایک کی غلطی ہے تو اس کی بنیاد پر میرے گاؤں والے اٹھائے جا رہے ہیں اور مارے جا رہے ہیں۔۔۔“
ان کا کہنا تھا ”میں پانچ وقت کی نماز ادا کرتا ہوں مگر آج تین دن ہو چکے ہیں میں کوئی نماز ادا نہیں کر سکا۔ میرے والد دل کے مریض ہیں، میرے بچے اور میری ماں الگ پریشان ہیں۔ جب گھر فون کرتا ہوں تو بچے روتے ہیں، خوف ہے۔ مجھے بتائیں کیا کریں ہم۔۔۔ میرے خاندان نے ہمیشہ ہندوستان کا ساتھ دیا مگر آج میرے پورت خاندان پر ٹارچر ہو رہا ہے“
وڈیو میں وہ اپنے ہاتھ میں پلاسٹک کی ایک بوتل پکڑے ہوئے ہیں، جس میں ان کے مطابق زہریلی گولیاں موجود ہیں اور وہ اپنے بھائیوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ ان کے بعد وہ ان کی تین بچیوں اور ایک بیٹے کا خیال رکھیں
اطلاعات کے مطابق مختار نے منگل کے روز مبینہ طور پر زہریلی شے کھائی، جس کے بعد انہیں مقامی ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا، جہاں جمعرات کو ان کی موت ہو گئی
ان کے جنازے میں سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی اور چند گھنٹوں کے لیے پونچھ، راجوری شاہراہ پر لوگوں نے مظاہرہ بھی کیا
مقامی رہائشی محمد انصار کا کہنا ہے ”سوال یہ ہے کہ یہ وڈیو بنائی کس نے ہے؟ پولیس کو اُسے گرفتار کرنا چاہیے کیونکہ کسی کے سامنے زہر کھا لے تو وہ کھڑا ہو کر تماشا نہیں دیکھ سکتا“
سینیئر پولیس افسروں کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور انہیں وڈیو ریکارڈ کرنے والے شخص کی تلاش ہے
یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ میں گذشتہ ہفتے ہونے والے ایک مسلح حملے میں پانچ بھارتی فوجی اہلکار مارے گئے تھے، جس کے بعد اندھا دھند پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا اور کم از کم پچاس سے زائد افراد کو تفتیش کی غرض سے اٹھا لیا گیا تھا، پچاس سالہ مختار احمد بھی ان میں سے ایک تھے۔ اگرچہ تفتیش کے بعد ان کی رہائی عمل میں آئی، مگر ریاستی اداروں کی جانب سے مسلسل ذہنی اذیت کا نشانہ بننے کی وجہ سے انہوں نے رہائی کے بعد مبینہ طور پر خودکشی کر لی
گذشتہ ایک ہفتے سے پونچھ کے بھاٹا دُوریاں، جہاں یہ حملہ ہوا تھا، اور ملحقہ بستیوں میں تلاشی مہم جاری ہے
اس دوران پولیس نے ناصر احمد نامی شخص کو گرفتار کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ناصر نے حملے سے دو ماہ قبل حملہ آوروں کو گھر میں پناہ دی اور یہ کارروائی کرنے کے لیے اُن کی مدد بھی کی
راجوری اور پونچھ رینج کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل حسیب مغل نے حملہ کی تحقیقات اور گرفتاریوں پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم فوجی ذرائع اس معاملے میں ’پیپلز اینٹی فاشسٹ فورس‘ نام کے عسکریت پسند گروہ کی جانب اشارہ کیا
یاد رہے کہ پونچھ میں ہونے والے حملے کے بعد بھارتی حکام نے ’متحدہ جہاد کونسل‘ کے سربراہ محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین کے اہل خانہ کے کشمیر میں واقع گھروں کو سیل کر دیا گیا، ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے رشتہ داروں کو نوکریوں سے برطرف کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا۔