حکومت پاکستان نے رواں مالی سال میں 7 ارب 76 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا قرضہ لیا ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی عبادات میں دن دگنا اور رات چو گنا اضافہ کر دیں، کیونکہ بعد انتقال جو قرض دار مرے گا، اس سے سختی سے حساب لیا جائے گا۔۔ مانا کہ اپنے مسلمان بھائیوں سے کم، گوروں سے زیادہ قرضہ لیا ہے، بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ممالک ہم پر رحم کرتے ہوئے ہمارے قرضے معاف کر دیں، تاکہ 50 فیصد تو اوپر قرضے سے نجات مل جائے گی
اب رہا معاملہ 50 فیصد کا تو وہ تو گوروں کا قرضہ ہے، اس کے لیے بعد انتقال معاف ہوگا یا نہیں، اس حوالے سے کسی مولوی سے فتویٰ لے لیں کہ ہمارا بنے گا کیا؟ مرنے کے بعد دفن کرنے سے قبل قبر پر اعلان ہوتا ہے کہ مرحوم نے اگر کسی سے کچھ قرض لیا ہو تو ابھی بتا دیں،تاکہ ان کا قرض اتار دیا جائے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوم برسر اقتدار ان تمام افراد کو ایک خط لکھا جائے، جو ’’دوزخ سے نجات‘‘ تنظیم کے حوالے سے لکھیں کہ حکومتی ادارے قوم کو ایک این او سی جاری کریں کہ اس قرض کے ہم ذمے دار ہیں، قوم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔۔ کیونکہ اس قرض سے قوم کو کیا مراعات دی گئی ہیں، اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، تب ہی یہاں اور اوپر آپ کا قرضہ معاف ہوگا
جہاں قرض کی بات نہ ہو، وہاں رعایت کی بات کی جاتی ہے کہ روس پاکستان کو رعایتی تیل دے گا۔۔ ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ قرض پر مراعات لیتے ہیں، رعایتیں تیل پر۔۔ خوب مراعاتیں لیتے ہیں، کتنے شاہ خرچ ہیں ہم لوگ۔۔ بادام بہت مہنگے ہو گئے ہیں کہ سیاسی طور پر کچھ سیاستدان دماغی کمزوری کا شکار ہوگئے ہیں، وہ اب تک منوں ٹنوں بادام کھا چکے مگر دماغ ہے کہ کام ہی نہیں کرتا
خان صاحب کی حکومت میں جو یہ کہتے تھے کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے رات کے اندھیرے میں، اب دن کے اجالے میں قوم کو پٹرول 282 روپے 77 پیسے دیا جا رہا ہے۔۔ رات کو تو آپ کو اندھیرے میں پٹرول کی قیمتیں نظر آ گئیں، مگر دن کے اجالے میں نہ آسکیں اور اس معیشت دان کو سلام، جو پیٹرول کی قیمت میں پیسوں کا اضافہ ضرور کرتے ہیں۔۔ پٹرول پمپ والے 282 کے حساب سے قوم کو پٹرول دے رہے ہیں77 پیسے پٹرول والے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں، کبھی کسی ذمے دار نے یہ سوچا ہے کہ یہ 23 پیسے کیوں لیے جا رہے ہیں اربوں روپے کا پٹرول خریدا جاتا ہے
ان میں 23 پیسے اگر آپ جمع کرلیں تو کیا جواب آئے گا!؟ کیلکولیٹر نے بھی جواب دے دیا ہے کہ اس مد میں قوم کی کتنی رقم جا رہی ہے اب تو یوٹیوب پر پی ڈی ایم سے وابستہ سلجھے ہوئے سیاستدان اپنی ہی حکومت پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ کھیل آخر کب تک ہوگا 16 جنوری 2022 میں 3 روپے فی لیٹر پٹرول پر بڑھانے پر اسے معاشی قتل قرار دیا گیا تھا، کیا انہیں احساس نہیں کہ ہم ماضی میں کیا بیانات دیتے رہے ہیں مگر صاحب، اقتدار کا نشہ بہت ظالم ہے یہ بن پیسے بھی لہراتا ہے
مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے۔۔سیاسی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ’قوم کے وسیع تر مفاد‘ کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے وہ وسیع تر مفاد اندھیرے مٹکے میں قید ہے، جو آج تک نظر ہی نہیں آیا۔۔ کچھ سیاستدانوں نے بیانات کی طوفان بدتمیزی کی پتنگ اڑا دی ہے ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور قوم یہ تماشا شب و روز دیکھتی ہے ایک دوسرے کو دہشت گرد کے لقب دیے جاتے ہیں، ہے ناں عجیب سی بات، قوم تو بے چاری تہی دامن ہے ، تنقید کو اصلاح کے طور پر لیا جائے آج کی سیاست پچیس سال پہلے والی سیاست نہیں ہے قوم سوشل میڈیا کے توسط سے باخبر ہے ،ایک شاعر نے خوب کہا ہے۔
اپنی تحریر میں اپنا خون جگر دے دو
اپنی سوچ و فکر میں نیا رنگ دے دو
شاعر سے راقم کو تھوڑا اختلاف ہے کہ اب تو خون جگر ہی نہیں ہے تو احساس کا خون کہاں سے دیں
ماہرین نے کہا تھا کہ شہری عید پر کھانے میں اعتدال سے کام لیں۔ اب نہ جانے انہوں نے مراعات یافتہ طبقے کے لیے یہ کہا تھا یا عام آدمی کے لیے، غریب تو مہنگائی تلے دب کے رہ گیا ہے، وہ اعتدال سے کیا خاک عمل کرے گا۔۔ اس کے پاس تو کھانے کو نہیں ہے، شاید انہوں نے مراعات یافتہ طبقے کو یہ بیان دیا ہو، لیکن وہ اعتدال سے کب کام لیتے ہیں
عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، آئی ایم ایف، سعودی عرب، کمرشل بینکوں سمیت پاکستان کو نوے کروڑ ڈالر کا قرض ملا ہمارے سیاسی افراد کو چاہیے کہ قوم کو بتائیں کہ اس قرض کو کس مد میں خرچ کیا جائے گا کیونکہ قوم کے مسائل تو جوں کے توں ہیں یہ لسٹ اخبارات میں پرنٹ ہوئی ہے
ان سیاسی حضرات کو تیکھے موضوعات کو خیرباد کہنا ہوگا کہ ان کے ماضی کے بیانات سوشل میڈیا پر آن ایئر ہوتے رہے ہیں ، ان کو سیاسی بیانات پر ثابت قدمی کا ثبوت دینا ہوگا اگر یہ سیاسی لوگ ایسا نہ کر سکے تو یقین کریں آنے والے الیکشن ووٹ کے حوالے سے ان سیاسی حضرات کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک جائیں گے قابل مذمت بات تو یہ ہے کسی کی کارکردگی پر توجہ نہیں دی جاتی
ابھی ایک سال پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو آن ایئر ہوئی اس میں ایک نوجوان نے گاڑی میں پٹرول کے بجائے پانی ڈالا اور نہ جانے کیا حربہ استعمال کیا کہ گاڑی پٹرول کے بجائے پانی پر چلا کر دکھائی اب اس بچے کا ماتھا چوم کر اس کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا اور پھر اس بچے کی صلاحیت کو نظرانداز کر دیا گیا اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا
بس ان سیاسی لوگوں کو الیکشن اور اپنی عزت و بقا کا خیال ہے یہ سیاسی لوگ اور ان کے لوگ مثبت باتوں پر اس لیے توجہ نہیں دیتے کہ یہ سلسلہ جوں کا توں چلتا رہے اور ان کی بقا و سلامتی بھی برقرار رہے اور قوم خاموشی کی بانسری بجاتی رہے۔
تیرے لکھے کو جو نہ سمجھے اس سے نہ الجھو،
بس اپنی سانسوں کی کاغذ کو مہک دے دو۔۔
بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)