زبیر جوکھیو کا قتل اور اہل ملیر کی ذمہ داری

حفیظ بلوچ

ملیر، ایک خوبصورت احساس، جنت نظیر سرزمین۔۔ ملیر، جس کی تاریخ کراچی پورٹ سٹی سے بھی پرانی ہے۔ ملیر ندی کے اطراف کھیرتھر رینج کے پہاڑوں کے دامن میں چراگاہوں، چشموں، آبشاروں اور ندیوں کے گلدستے سے سجی ملیر کی سرزمین، جہاں انسانی ابتدائی دور کے نشانات ملتے ہیں, ہڑپا دور کے مجسمے ملتے ہیں، بدھا دور کے قبریں، چودہویں صدی سے لیکر اٹھارہویں صدی کی چوکنڈی کی قبریں اس بات کی گواہی دییے ہیں کہ ملیر ایک تہذیب کا نام ہے۔ اسی ملیر تہذیب ملیر کی زمین میں سسی پنو اور لَلّہُُ گراناز کے پیار کی خوبشو بستی ہے۔ اسی ملیر کی زمین میں شاہ عبدالطیف بھٹائی کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ اسی ملیر کی سرزمین میں گوہر جت کی ہنسی گونجتی ہے۔ اسی ملیر کی سرزمین میں آباد مختلف قبائل میں مختلف زبانوں میں ماؤں کی لوریاں گونجتی ہیں۔ اسی ملیر کی سرزمین میں مختلف رسم و رواج کے رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن ملیر کی تہذیب کسی ایک قوم کسی ایک قبیلے ذات یا زبان کا نام نہیں، ملیر کی تہذیب یہاں آباد قوموں قبیلوں ان کی زبانوں رسم و رواجوں کا نام ہے ـ

پچھلے پچھتر سالوں سے اسی ملیر کا استحصال جاری ہے، پچھلے پچھتر سالوں سے کراچی شہر ملیر کو نگلتا جا رہا ہے، پچھلے پچھتر سالوں سے ملیر کی حیثیت کو تباہ کیا جا رہا ہے ـ ان پچھتر سالوں میں ایسا کون سا ظلم ہے، جو ملیر کے باسیوں پہ روا نہ رکھا گیا ہو ـ

سب کچھ ہو رہا ہے، اگر کسی چیز کی کمی ہے تو ملیر میں بسنے والے لوگوں میں ملیری تہذیب کی، ہاں ملیر جس تہذیب کے لیئے اس کی سرزمین کے لیئے ملیر کے لوگوں نے بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ کیا، تاریخ گواہ ہے مغلوں سے لے کر انگریزوں تک ملیر کے بہادر لوگوں نے کبھی بھی کسی بھی طاقت کے سامنے سر نہیں جھکایا، لڑے اور اپنی اہمیت کو منوایا اور ثابت کیا کہ ملیر کے لوگ ملیر کے بقا کے ضامن ہیں۔ وہ صرف مالک نہیں، اس کے محافظ بھی ہیں۔۔ وہ آپس میں ضرور لڑتے تھے مگر جب بھی ملیر کی سرزمین پر باہر سے کوئی طاقت حملہ آور ہوتا تو وہ متحد ہو کر لڑتے ـ تو پھر آج ملیر میں اتنی بےبسی کیوں ہے؟

ہم پچھلے دس سالوں سے چیخ رہے ہیں کہ جاگو ملیر کے لوگو باہر کے طاقتور ریاست کے ایما پر ملیر پر حملہ آور ہیں، اٹھو ان کا مقابلہ کرو مگر ملیر کے لوگ کلمتی جوکھیہ برفت چھٹہ بکک گبول اور نہ جانے کون سے حصار میں قید تھے کہ ہماری آواز سن نہیں پا رہے تھے، ہم کہتے رہے روتے رہے مگر سب اپنی اپنی برادریوں کے چھوٹے سے دائرے میں قید رہے، ہم چیختے رہے مگر سب اپنے اپنے ذاتی مفادات کے تابع ہو کر یہ کہہ کر سو جاتے کہ یہ گبولوں کا مسئلہ ہے، یہ جوکھیوں کا مسئلہ ہے، یہ کلمتیوں کا مسئلہ ہے یہ برفتوں کا مسئلہ ہے، یہ چھٹہ اور جدگالوں مسئلہ ہے۔۔ اجتماعیت کہیں نہیں تھی اور نہ آج ہے

اب تو عالم یہ ہے کہ زمین کے ساتھ انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے، ملیر کے نوجوانوں کا قتل ہو رہا ہے ـ کیا اب بھی ہم خاموش رہیں گے، اور اسی طرح مرتے اور مٹتے رہیں گے؟

کل بحریہ اور ڈی ایچ اے کے بلڈوزر صدیوں سے آباد لوگوں کی زمینوں کو تاراج کرتے تھے ملیر کی اکثریت چپ تھی، ایجوکیشن سٹی کے نام پر ملیر کی زمینوں کا سودا نہ جانے کہاں ہوتا ہے اور زمینیں طاقتور سرمایہ داروں کے حوالے کیئے جاتے سب چپ، ملیر ایکسپریس وے کے نام پر ملیر کے وجود کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہم سب چپ، اب ایک سرمایہ دار کے بیٹے نے شراب کے نشے میں ملیر کے ایک نوجوان زبیر جوکھیو کو قتل کر دیا۔۔ تو کیا اب بھی ہم خاموش رہیں گے!؟

کیا کل وہ سرمایہ دار اپنے سرمائے کی طاقت سے اداروں کے ساتھ مل کر زبیر کے خون کا سودا کریں، تب بھی ہم چپ رہیں گے؟

اب ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا ہم محض ایک قبیلے ایک زبان ایک برادری کے سے وابستگی سے نام نہاد فکر کا چورن کھاتے رہیں گے یا ایک ملیر تہذیب کے دامن میں جمع ہو کر ملیر کی اجتماعیت کا پرچم بلند کر کے ملیر کی بقا کے لیئے بڑی طاقتوں سے لڑ جائیں گے

فیصلہ ملیر کے لوگوں کو کرنا ہے ـ آج ملیر کے ایک بےگناہ نوجوان زبیر جوکھیو کے گھر میں اس بے وقت شہادت کا ماتم ہے، یہی وقت ہے ملیر کے سب لوگ زبیر جوکھیو کے خاندان کے ساتھ کھڑے ہو کر یہ اعلان کریں کہ ہم سب ایک ہیں، ایک جسم ایک جان ہیں، ہم ملیر ہیں۔۔ اگر جسم کے کسی بھی حصے میں زخم لگے گا، درد ہوگا تو وہ درد کی ٹیسیں پورے بدن کو تکلیف دیں گی ـ

آؤ۔۔ صرف زبیر جوکھیو کے پرسہ کے لیے نہیں، اس کے والد صاحب کو یقین دلانے کے لیئے اس کے گاؤں جمع ہوں کہ زبیر ہمارا بچہ تھا ،ہم سب اس کے وارث ہیں ـ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close