حیدرآباد سندھ: بنگلے میں قائم بمبئی بیکری، جہاں بننے والے کیک کی ترکیب ایک صدی بعد بھی راز ہے!

ویب ڈیسک

پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد کے علاقے صدر میں مخصوص اوقات کے دوران سرخ رنگ کی ایک عمارت کے باہر اور اندر لوگوں کی قطار لگی نظر آتی ہے

قطار میں کھڑے افراد اپنی باری آنے پر لکڑی کے فریم سے بنا دروازہ کھلنے کے بعد ایک ایک کر کے اندر کمرے میں داخل ہوتے ہیں، جہاں مزید قطاریں بھی موجود ہیں۔ وہاں ایک طرف رقم دی جا رہی ہے تو دوسری طرف ٹوکن دے کر کیک خریدے جا رہے ہیں

یہاں ہر کوئی اپنی باری کا انتظار کرتا اور واپسی میں اپنے مطلوبہ کیک کے ڈبے اٹھائے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ باہر نکلتا ہے

یہ تذکرہ ہے ’بمبئی بیکری‘ کی عمارت کا، جس پر قیام کا سال 1911 لکھا ہے۔ اس بیکری اور اس سے وابستہ گھرانے کی کہانی تقریباً سوا صدی پرانی ہے

بنگلے میں قائم بمبئی بیکری
پہلاج رائے گنگا رام تھدانی نے سنہ 1911ع میں حیدر آباد کے علاقے صدر میں بمبئی بیکری قائم کی تھی۔ ایک بنگلے میں قائم اس بیکری میں رہائش گاہ بھی بنائی گئی۔ پہلاج رائے اپنے تینوں بیٹوں شیام داس، کشن چند اور گوپی چند کے ہمراہ یہاں رہتے تھے

بمبئی بیکری میں چاکلیٹ سے تیار کردہ بریڈ، بسکٹ اور کیک بنائے جاتے تھے اور ان میں خالص مرکبات شامل کیے جاتے تھے

پہلاج رائے کی وفات سنہ 1948ع میں ہوئی، جس کے بعد ان کے بیٹے کشن چند نے کیک اور بسکٹ کے ذائقے میں اضافہ کیا جبکہ سنہ 1960ع میں کشن چند کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے کمار نے چچا کے ساتھ خاندانی کاروبار کو سنبھالا۔ ان کا انتقال جون 2010ع میں حیدرآباد میں ہی ہوا

انگریزی روزنامہ ڈان نے کمار تھدانی کے انتقال کی خبر میں لکھا تھا کہ کمار کے دادا یعنی بیکری کے بانی پہلاج رائے نے ایک سوئس خاتون سے شادی کی تھی، جو اپنے گھر میں بیکری مصنوعات بناتی تھیں، ان کی مقبولیت کے بعد انہوں نے بیکری کا کاروبار شروع کیا تھا

جب کلہوڑا حکمرانوں نے حیدرآباد کو اپنا تخت گاہ بنایا تو تھدانی خاندان بھی سابق تخت گاہ خدا آباد دادو سے نقل مکانی کر کے یہاں آباد ہوئے۔ حیدر آباد کے گدو مل سے بھی ان کا خاندانی تعلق تھا، جن کے نام سے گدو بندر موجود ہے

گذشتہ سوا صدی سے بمبئی بیکری کا کیک قدیم طریقے سے ہی تیار کیا جاتا ہے، جس میں کسی مشین کا استعمال نہیں ہوتا بلکہ ہاتھوں کا کمال ہوتا ہے، مشین صرف بادام پیسنے کے لیے استعمال ہوتی ہے جبکہ مکسنگ وغیرہ روایتی طریقے سے کی جاتی ہے

کمار تھدانی گوشہ نشین شخصیت تھے اور انہوں نے زندگی میں صرف ایک بار ہی انٹرویو دیا

انہوں نے ریڈیو پاکستان حیدر آباد کے سابق اسٹیشن مینجر نصیر مرزا کو اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ چاکلیٹ، کافی اور میکرون کیک کے نسخے ان کے والد کے ہی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی وفات کے بعد انیوں نے انگریزی کتابوں میں شائع ہونے والے کیک اور بسکٹوں کی تراکیب کو آزمایا جن کو پسند بھی کیا گیا

کمار تھدانی کے دوست ایڈووکیٹ ایم پرکاش کا کہنا تھا کہ اب چوتھی نسل نے اس کاروبار کو جاری رکھا ہوا ہے

بمبئی بیکری کا کیک سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد کی اہم سوکھڑی (سوغات) سمجھا جاتا ہے، اور پورے ملک میں مشہور ہے

سندھ کے نامور ادیب اور محقق مدد علی سندھی بتاتے ہیں ”جب اس بیکری کا قیام ہوا اس وقت کنفیکشنری کا رجحان نیا نیا تھا، بمبئی بیکری نے نئے فلیور (ذائقے) متعارف کرائے اور مختلف کیک بنائے۔ ان کی بریڈ اور پیسٹریز بھی ہوا کرتی تھیں“

وہ کہتے ہیں ”اس کیک کی تیاری کا فارمولا صیغہِ راز میں رکھا جاتا تھا، یہ بات عام تھی کہ گھر کی کسی بزرگ خاتون کے پاس اس کی ترکیب ہے“

اس بیکری کے قیام کے ابتدائی دنوں میں روزانہ صرف بیس کیک ہی بنتے تھے، لیکن اس تعداد میں اب سو گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ یہاں کیک خریدنے کے لیے وقت مقرر ہے کیونکہ ہر وقت کیک دستیاب نہیں ہوتا۔ بیکری صبح آٹھ بجے کھلتی ہے لیکن گاہکوں کی قطار اس سے پہلے لگ جاتی ہے پھر بھی ہر کسی کے حصے میں یہ کیک نہیں آتا

آغاز میں بیکری میں دوپہر دو بجے اور شام سات بجے کیک دستیاب ہوتے تھے، دو بجے چاکلیٹ اور کافی کیک اور شام سات بجے کریم اور میکرون موجود ہوتے تھے

بیکری انتظامیہ کے مطابق شکایت آنے لگیں کہ ایک وقت پر آ رہے ہیں تو ایک فلیور مل رہا ہے دوسرے فلیور کے لیے دوبارہ آنا پڑ رہا ہے، جس کے بعد اس کا ازالہ کیا گیا اور چاروں فلیورز کی دستیابی کو یقینی بنایا گیا

آج کل تین مختلف اوقات پر کیک دستیاب ہوتے ہیں، جن میں صبح آٹھ بجے، دوپہر تین اور شام چھ بجے کا وقت مقرر ہے جبکہ بیکری تیرہ گھنٹے کھلتی ہے

کمار تھدانی کی طرح ان کے بیٹے سونو عرف ’سلمان شیخ‘ جن کو انہوں نے گود لیا اور بعد میں وہ مسلمان ہوئے، میڈیا اور تشہیر سے دور رہتے ہیں

سلمان شیخ نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی درخواست پر ملاقات کی، لیکن رسمی انٹرویو سے معذرت کی

کمار تھدانی کے دوست ایم پرکاش بتاتے ہیں ”کمار کہتے تھے کہ فیملی نے جو سکھایا، وہی لوگوں کو فراہم کروں تاکہ معیار اور اعتماد میں کوئی فرق نہ آئے۔ وہ پیسے کا لالچ نہیں کرتے تھے۔ ان کو متعدد بار پیشکش کی گئی کہ کراچی، لاہور یا اسلام آباد میں اپنی بیکری کی برانچ کھولیں لیکن انہوں نے کبھی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ وہ کہتے تھے کہ محدود کام کروں گا لیکن معیار برقرار رکھوں گا“

کمار تھدانی کے بعد بھی ان کا خاندان ان کی اس پالیسی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ کیک کی پیدواری تعداد میں اضافہ تو کیا گیا لیکن محدود سطح پر، جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ کیک کی تیاری بغیر مشین کے ہاتھوں سے کی جاتی ہے۔ لوگوں کی تعداد بڑھائی جائے تو جگہ بھی درکار ہوگی لیکن وہ اس تعداد سے ہی خوش ہیں

بمبئی بیکری کے کئی خریدار بچپن سے بزرگی تک یہاں کے ہی کیک پسند کرتے آئے ہیں اور آج بھی کہیں اور جانے کے لیے تیار نہیں

انہی افراد میں سول ہسپتال حیدر آباد کے سابق ایم ایس ڈاکٹر ہادی بخش جتوئی بھی شامل ہیں۔ بیکری کے باہر ہاتھ میں کیک کے دو ڈبے اٹھائے ہوئے انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے نمائندے ریاض سہیل سے بات کرتے ہوئے بتایا وہ گزشتہ ساٹھ پینسٹھ برس سے یہیں سے کیک لے رہے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے زندگی میں کیک کھانا شروع کیا تھا تو یہاں سے ہی خریدا تھا، آج بھی اس کا وہی دہائیوں پرانا ذائقہ ہے۔ اس خاندان کی چوتھی نسل نے بھی اس ذائقے کو برقرار رکھا ہوا ہے

ڈاکٹر ہادی بخش جتوئی کے ہمراہ موجود اعظم لغاری نے بتایا کہ ان کی عمر اس وقت تہتر برس ہے، جبکہ انہیں بچپن سے یہ کیک پسند رہا ہے

وہ بتاتے ہیں ”میری بہو آسٹریلیا کے شہر سڈنی سے آئی تھیں۔ انہوں نے یہاں کے بسکٹ خاص کر جنجنر بسکٹ کھائے تو ان کو اس قدر پسند آئے کہ وہ واپسی پر نہ صرف پانچ کلو اپنے ساتھ لے کر گئیں بلکہ وہاں سے دوبارہ بھی منگوائے“

یہاں کیک لینے والوں کی قطار میں موجود عمار بن مالک کراچی سے آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ بچے تھے تو بمبئی بیکری کا کیک مانگتے تھے اور اب ان کے بچے یہ فرمائش کرتے ہیں ”عید ہو، شب برات ہو، برتھ ڈے یا کوئی اور تہوار، کیک یہاں سے ہی لے کر جانا پڑتا ہے“

ان کے بقول ایسا بھی نہیں کہ یہ صرف بچوں کی ضد ہے بلکہ بمبئی بیکری کا ذائقہ بڑا منفرد ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کراچی میں بہت سی بیکریاں ہیں جہاں اس سے کہیں زیادہ قیمتیں ہیں لیکن ہم ان کے معیار سے مطمئن نہیں ہوتے

بلال اکبر نے یہاں سے کیک کے دو ڈبے لیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کراچی سے فیصل آباد جا رہے ہیں۔ انہوں نے بمبئی بیکری کے کیک کی شہرت سنی تھی، اس لیے یہاں آ گئے

محمد عمران قطار میں پینتیس منٹ کے انتظار کے بعد کیک کاؤنٹر پر پہنچے۔ محمد عمران نے کہا کہ جب سے ہوش سنبھالا، یہاں کے ہی کیک کھائے ہیں کہیں اور بیکری کے قریب تو پھٹکتے بھی نہیں

بمبئی بیکری میں چاکلیٹ، کافی، لیمن کیک کے علاوہ میکرون، فروٹ کیک اور بسکٹ تیار کیے جاتے ہیں۔ ان پر نہ تو ڈیزائن بنے ہوتے ہیں اور نہ ہی کسٹمرز کی فرمائش پر کیک پر بنائے جاتے ہیں۔ کیک کی طرح پیکنگ کا ڈبہ بھی سادہ ہے سفید رنگ کے ڈبے پر سرخ اور سبز چھپائی ہے، جس پر ’شاپ ان دے بینگلو‘ (بنگلے میں قائم دکان) تحریر ہے

تقسیمِ ہند سے قبل حیدر آباد میں زیادہ تر ہندو برادری تجارت کرتی تھی۔ تقسیم کے بعد یہاں سے کئی خاندان ہجرت کر گئے لیکن بمبئی بیکری واحد کاروبار ہے، جو جاری رہا

اس کے بانی پہلاج رائے کا انتقال بھی قیام پاکستان کے ایک سال بعد حیدر آباد میں ہی ہوا تھا

پہلاج رائے کے پوتے اور بمبئی بیکری کے مالک کمار تھدانی نے براڈ کاسٹر نصیر مرزا کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ انھیں نقل مکانی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کیونکہ جب سندھ میں خون اور فساد ہوا تھا اس وقت حیدرآباد میں فسادات کم رہے۔ انھوں نے حیدر آباد کے اس علاقے میں ایک لاش بھی گرتے نہیں دیکھی تھی اس لیے انھوں نے اپنی دھرتی نہیں چھوڑی تھی

کمار تھدانی ہندو مذہبی کتابوں، گرو گرنتھ کے ساتھ ساتھ قرآن کا بھی مطالعہ کرتے تھے۔ وہ خود کو گرونانک اور سندھ کے صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کا چیلا قرار دیتے تھے

پاکستان میں بمبئی بیکری کی شناخت اس کا کیک ہے لیکن حیدر آباد کے شہریوں کے لیے اس کی ایک شناخت اس کے مالکان کی درویشی اور سخاوت بھی ہے

کمار تھدانی کی زندگی میں کیک خریدنے والوں کے علاوہ مستحقین کی بھی قطار لگی ہوئی ہوتی تھی، وہ نہ صرف لوگوں کی انفرادی طور پر مدد کرتے بلکہ شمشان گھاٹ سے لے کر دل کے ہسپتال، ریڈیو پاکستان میں میوزک کو محفوظ کرنے تک کے لیے عطیات دیتے تھے

اپنے انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ جب ہم پر کوئی مشکل یا بیماری آتی ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم خدا کی راہ میں کم دے رہے ہیں اس کو بڑھا دیتے ہیں تو مشکل کم ہوجاتی ہے

بمبئی بیکری کو قومی ورثہ قرار دینے کی سفارش
بمبئی بیکری کی عمارت کا رنگ پہلے سفید تھا جس کو اب سرخ پینٹ کیا گیا ہے۔ اس کی چار دیواری چھوٹی تھی جس کو 1980 کی دہائی میں حیدرآباد میں ہونے والی لسانی ہنگامہ آرائی کے بعد اونچا کیا گیا

عمارت میں داخل ہونے کے لیے پہلے صرف دروازہ تھا اب دو کھڑکیوں کو بھی دروازوں کی شکل دی گئی ہے

عمارت میں کیک سجانے کے لیے موجود شیشے کے شوکیس ساگوان کی لکڑی کے بنے ہیں اور دروازے بھی قدیم ہیں جن میں سے بعض کو تبدیل کیا گیا ہے

خریداری کے کمرے میں پہلے ایک لائن ہوتی تھی اب چار قطاریں لگتی ہیں جن میں خواتین کسٹمرز کو ترجیح دی جاتی ہے

خریداری کے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں بھٹی لگی ہے جن کی تعداد تین کے قریب ہے جبکہ ماربل لگی ہوئی ٹیبل پر ایک درجن کے قریب لوگ بڑی بڑی چھریوں سے کیک کے ایک حصے پر مکھن لگاتے ہوئے نظر آئے

بھٹی والے کمرے کے ساتھ رہائشی کمرے ہیں بیکری سے لے کر رہائش گاہ تک صحن ایک ہی ہے۔ سوا ایکڑ رقبے میں ایک بڑا لان اور رہائشی کمروں کے ساتھ ایک چھوٹا باغیچہ ہے۔ اس عمارت کی چھت گاڈرز اور ٹیئرز پر پکی اینٹ کے چوکے لگا کر بنائی گئی ہے

بیکری کو سو سال سے زائد مکمل ہونے، اس کی عمارت، روایت اور تاریخی حیثیت کے باعث حکومت سندھ کے محکمہ آثار قدیمہ نے بمبئی بیکری کو قومی ورثہ قرار دینے کی سفارش بھی کی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close