ماسک فروخت کرتے بچے کا معاملہ عدالت جا پہنچا

نیوز ڈیسک

پشاور – سوشل میڈیا پر گذشتہ کئی روز سے پشاور میں مبینہ طور پر ماسک فروخت کرتے ایک یتیم بچے کی تصویر سے جڑی کہانیاں گردش کر رہی ہیں، لیکن ان میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب بچے کے والد نے یہ انکشاف کیا کہ نہ تو ان کا بچہ یتیم ہے اور نہ ہی بے گھر

واضح رہے کہ گزشتہ تین چار روز سے اس بچے کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جو اس وقت لی گئی جب وہ پشاور کے بس ریپیڈ ٹرانسٹ سسٹم (بی آرٹی) کے ایک اسٹیشن کی سیڑھیوں پر ماسک بیچ رہا تھا۔ تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچے نے شاید سردی کی وجہ سے سویٹر منہ تک کھینچا ہوا ہے اور پاؤں میں چپل بھی نہیں پہنی ہوئی

تصویر وائرل ہونے کے بعد صوبائی حکومت نے اس کا نوٹس لیا تھا، بعد ازاں ضلعی انتظامیہ نے بچے کو تلاش کر کے اسے ’زمونگ کور (ہمارا گھر)‘ کے نام سے قائم سرکاری یتیم خانے متنقل کر دیا تھا

لیکن اس کہانی میں نیا موڑ اس وقت آیا جب بچے کے والد نے ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کرکے انہیں بتایا کہ بچہ نہ یتیم ہے اور نہ بے گھر، بلکہ ان کا خاندان پشاور کے علاقے تہکال میں مسلم لیگ ن کے ایک مقامی رہنما کے کرائے کے مکان میں رہتا ہے اور ان کے گھر کے کام کاج کرتا ہے

مسلم لیگ نون کے رہنما ارباب خضر حیات نے اس حوالے سے وزیراعلیٰ کو ایک خط بھی لکھا ہے کہ اس بچے کو ’زمونگ کور‘ سے واپس اپنے گھر بھیج دیا جائے

ارباب خضر حیات نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے بغیر کسی وجہ کے اس بچے کو زمونگ کور بھیج دیا ہے جبکہ یہ بچہ اپنی مرضی سے بس اسٹیشن پر ماسک بیچتا تھا

انہوں کا کہنا ہے کہ تصویر وائرل ہونے کے بعد بچے کے والد نے مجھ سے مدد کی اپیل کی کہ حکومت سے میرے بچے کو واپس لایا جائے۔ لیکن حکومت بچے کو واپس اس کے والد کے حوالے نہیں کرنا چاہتی، جب کہ ان کے والد اپنے بچے کے لیے پریشان ہیں

بچے کے چچا صداقت خان نے بتایا کہ ہم نے بچے کو یتیم خانے سے واپس گھر لانے کے لیے وکیل سے بات کی ہے، کیونکہ یہ معاملہ اب عدالت پہنچ گیا ہے

انہوں نے بتایا کہ ہم دو دن سے اس سلسلے میں کوشش کر رہے ہیں کہ بچے کو واپس گھر لایا جائے لیکن آج جج چھٹی پر تھے، اس لیے کاغذات پر دستخط نہ ہوسکے

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا بچے کو اس کے گھر والے ماسک فروخت کرنے اسٹیشن بھیجتے تھے، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بچہ دیگر بچوں کے ساتھ گھر سے نکل کر ماسک بیچنے اسٹیشن جاتا تھا، گھر والے اسے زبردستی نہیں بھیجتے تھے

دوسری جانب بچے کو اسٹیشن پر ڈھونڈنے میں اہم کردار ادا کرنے والے  شہر کے اسسٹنٹ کمشنر احتشام الحق کا کہنا ہے کہ اس بچے کو زبردستی گھر والے ماسک بیچنے پر مجبور کرتے تھے اور ہم نے ایک مرتبہ اسے گھر واپس بھیجا تھا، لیکن اگلے دن دوبارہ وہ اسی جگہ پر ماسک فروخت کرتا پایا گیا، جس کی وجہ سے اسے ’زمونگ کور‘ منتقل کیا گیا

اسسٹنٹ کمشنر احتشام الحق نے بتایا کہ  زمونگ کور منتقلی کے بعد ضابطے کے مطابق بچے کو چوبیس گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کرنا تھا، جو ہم نے کیا۔ عدالت میں بچے کے والد اور بھائی بھی موجود تھے اور انہوں نے بچے کو زبردستی ماسک فروخت کرنے کے لیے بھیجنے کا اعتراف بھی کیا ہے

انہوں نے بتایا کہ ہم نے قانون کے مطابق کارروائی کی ہے اور بچے کو عدالت میں پیش کیا، جس پر عدالت نے بچے کو ’زمونگ کور‘ منتقل کرنے کا حکم دیا تھا

بچے کے چچا صداقت نے بتایا کہ ہمیں اگر انتظامیہ کی جانب سے پہلے تنبیہ کی جاتی کہ بچے کو ماسک بیچنے نہ بھیجا جائے، تو ہم اسے گھر میں رہنے دیتے لیکن ہمیں مطلع کیے بغیر انتظامیہ نے اسے یتیم خانے منتقل کیا۔ اب بچے کو ہمارے حوالے کیا جائے، ہم آئندہ اسے ماسک بیچنے نہیں بھیجیں گے

مذکورہ معاملے پر خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کے سربراہ اعجاز خان کہتے ہیں کہ اس بچے کو ضلعی انتظامیہ نے اسی وجہ سے زمونگ کور منتقل کیا تھا کیونکہ یہ رسک میں تھا اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بچے کو رسک میں دیکھ کر اس کا تحفظ کر سکے

اعجاز خان  نے کہا کہ ابھی قانون کے مطابق کسی جرم کا ارتکاب نہیں ہوا ہے، لیکن اس بچے کو حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا اور اسے یتیم خانے متنقل کیا گیا تھا

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا والدین کی جانب سے بچے کو زبردستی کام کے لیے بھیجنا جرم نہیں ہے؟ تو انہوں نے کہا: ’اگر بچے کو بھیک مانگنے کے لیے بھیجا جاتا تو وہ جرم ہے اور اس کی باقاعدہ سزا بھی ہے، لیکن بھیک مانگے بغیر اگر بچے کو کسی کام کے لیے بھیجا جاتا ہے، تو بھی ریاست اس بچے کو تحفظ فراہم کرے گی۔‘

انہوں نے بتایا کہ اب اگر والدین بچے کو واپس لینا چاہتے ہیں تو وہ زمونگ کور میں جا کر وہاں پر شورٹی بانڈ جمع کرائیں گے اور اپنے بچے کو واپس گھر لے جا سکتے ہیں

اس کے علاوہ خیبر پختون خواہ کی صوبائی حکومت نے سال 2015ع میں ’خیبر پختونخوا پروہبیشن آف ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ ‘ کے نام سے بچوں کے کسی ادارے یا فیکٹری میں کام کرنے کے حوالے سے ایک قانون بھی بنایا ہے، جس کے تحت بچے کی عمر کی حد چودہ سال سے کم لکھی گئی ہے اور قانون میں ایسے بچوں کو کسی فیکٹری میں والدین کی مرضی سے صرف کام سیکھنے کے سلسلے میں دو گھنٹے کام کرنے کی اجازت ہوگی، جب کہ کسی بھی بچے کو زبردستی کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور اگر درمیان میں ایک گھنٹہ آرام کی اجازت ہو، تو وہ تین گھنٹے تک کام کر سکتا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close