اکیلا کرنے والی کامیابی سے عام قسم کی ناکامی بہتر نہیں؟

حسنین جمال

زیادہ کامیابی آپ کو اکیلا کر دیتی ہے۔ کسی بھی ڈیپارٹمنٹ میں دیکھ لیں، بہت کامیاب شخص اکیلا ملے گا

کامیاب انسان حد سے زیادہ مصروف ہو جاتا ہے۔ اس کے پاس دوستوں یاروں کے لیے وقت نہیں بچتا

جو پہلے کے دوست ہوتے ہیں، ان میں سے دو تین باقی رہتے ہیں اور باقی سارے پیچھے ہٹ جاتے ہیں

پیچھے ہٹنے والے دوست دو وجہوں سے یہ کام کرتے ہیں

پہلی یہ کہ انہیں لگتا ہے یہ بندہ اب بڑا آدمی ہو گیا ہے، ایسا نہ سمجھے کہ ہمیں اس سے کوئی کام ہے، یا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس سے رابطہ کریں گے تو یہ ڈسٹرب ہوگا

دوسری وجہ بعض اوقات یہ ہوتی ہے کہ کامیاب شخص کا رویہ خود دوستوں کو پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ وہ جانے ان جانے میں کوئی ایسی بات کر جاتا ہے، کوئی ایسی عادت اپنا لیتا ہے کہ اپنے سارے الگ ہونا شروع ہو جاتے ہیں

مہاتما کے لیے جان دینے والے بہت ہوتے ہیں لیکن اسے آدمی سمجھ کے دکھ درد سننے والا کوئی نہیں ملتا

تب ہر کامیاب آدمی ایک غلطی کرتا ہے۔ وہ نئے دوست بناتا ہے، نئے رشتے بناتا ہے

یہ لوگ مہاتما سے نہیں اس کے ہالے سے پیار کرتے ہیں، اس کے امیج کو پوجتے ہیں۔ انہیں پہلے والے بندے کی الف بے تک نہیں پتہ ہوتی۔ یہ اسے جانتے ہیں جو کامیاب ہے۔ ان کی امیدیں بہت زیادہ ہوتی ہیں، خواب اونچے ہوتے ہیں جب کہ وہ، ہمارا کامیاب انسان۔۔۔ وہ چھوٹے درجوں سے ہی اٹھ کے بڑا بنا ہوتا ہے

وہ ان نئے یار بیلیوں کو مایوس کر دیتا ہے اور ان کے مایوس ہونے تک کامیاب آدمی خود بھی ان سے بددل ہو جاتا ہے

تب اس کے پاس تین راستے ہوتے ہیں:
نشہ
دین کی طرف رجوع
فلاحی کام

نشے میں پڑ کے برباد ہونے والے کئی بڑے نام آپ کے ذہن میں آئیں گے، جو اپنے اچھے زمانوں میں ٹھیک ٹھاک شاندار بندے تھے۔ آپ نے سوچا بھی ہوگا کہ یہ ایسے تباہ حال کیوں مرے، یا انہوں نے کچھ بچایا کیوں نہیں۔ صرف اسی لیے کہ وہ اپنی حد پا چکے تھے! وہ حد کہ جس کے بعد انہوں نے خود کو اور لوگوں نے انہیں الگ کر لیا

بے شمار ایسے لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنے عروج کے دنوں میں اچانک مذہب کی طرف شدید رجوع کر لیا۔ یہ بچ گئے لیکن وہ نہ رہے جو ان کی اصل تھی۔ اصل سے بھاگ کر ایک چھاؤں لگی تو پناہ لے لی۔ اندر کا شور ہلکا ہو گیا لیکن دوست یار رشتے دار؟ وہ ان کے ساتھ بھی آپ کو نہیں ملیں گے۔ ان کے بڑے پن میں عابد زاہد ہونے کا تڑکا بھی شامل ہو گیا

بچ گئے اب فلاحی کام والے بڑے آدمی۔۔۔ دوسروں کا خیال رکھنے والی صفت انسان میں بچپن سے ہوتی ہے یا پھر بالکل نہیں ہوتی۔ بڑے ہو کر اس کا پیدا ہونا ممکن نہیں ہے۔ فلاحی کام کرنے والوں میں اکثریت ہم ان کی دیکھیں گے، جن کا ذکر دوسرے نمبر پہ کیا۔ یعنی وہ کہ جن کی فطرت میں یہ سب نہیں تھا۔ چونکہ نہیں تھا اس لیے وہ کامیابی کی حدوں کو بڑے آرام سے پا گئے لیکن اب کیا کریں گے؟ وہی دماغی سکون حاصل کرنے کے لیے کامیاب انسان دوسروں کی مدد میں فلاح ڈھونڈتے ہیں۔ چونکہ انہیں سکھایا جاتا ہے کہ یہ اچھا کام ہے اور بے شک اس کام سے انسان خود اچھا محسوس بھی کرتا ہے (سافٹ ویئر کا مسئلہ ہے، اس کی وضاحت یہاں ممکن نہیں) تو بس اپنی کامیابی کے عروج پہ وہ لوگ یہ راستہ پکڑ لیتے ہیں

جو کامیابی اکیلا کر دے، اس سے عام قسم کی ناکامی بہتر نہیں ہوگی؟ یا کم از کم اس حد تک کامیابی ہو کہ بس جو آپ کو آس پاس والوں سے دور نہ کرے؟

یاد رکھیے کہ بعد میں یہ سب کچھ ہاتھ میں نہیں آتا۔ ریشم کا جال ہوتا ہے جو دھیرے دھیرے آپ کو اپنی گرفت میں لینا شروع کرتا ہے اور بالآخر جب آپ لڑتے لڑتے باہر آتے ہیں تو ایک تبدیل شد انسان ہوتے ہیں! پہلے والا بندہ اسی جال کے اندر پھنسا ہوتا پے، یہ نئے والے جو آپ ہوتے ہیں، سمجھیے کینچلی بدل کے باہر آتے ہیں

اس سارے چکر سے بچنے کا حل صرف ایک ہے۔۔۔ بہت زیادہ کامیابی کے پیچھے مت بھاگیں!

کسی مقام پہ لگے کہ بہت اوپر جانے کا راستہ خود آپ کے پیروں تلے بچھ گیا ہے تو نئے رشتے ڈھونڈنے کی بجائے پرانوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں، وہ ہاتھ سے نکلنے لگیں تو سمجھ لیں کہ آپ پکے کامیاب آدمی بننے پہ لگ چکے ہیں!

آخری بات: اس تحریر میں کوئی مثال نہیں دی۔ اگر خود آپ ذرا سے بھی کامیاب ہیں تو آپ کو فقیر کے لکھے سے اتفاق نہیں ہوگا۔ عروج کے ٹائم سب کچھ بہترین سرسبز نظر آتا ہے۔

مولا سکون میں رکھے۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close