پانچوں دوست اپنی دعوت کے اختتام پر تھے۔ وہ سب اس خبر کے ادھیڑ عمر رؤسا تھے۔ ان میں سے دو کنوارے اور تین شادی شدہ تھے۔ وہ اپنی جوانی کی یادوں کو تازہ رکھنے کے لیے مہینے میں ایک دفعہ یکجا ہوا کرتے تھے، پہلے طعام کا انتظام ہوتا تھا اور اس کے بعد صبح دو بجے تک گپیں لگائی جاتی تھیں، وہ ان شاموں کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ یہ شامیں ان سب کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور ان کی زندگیوں میں خوشیوں کا رس گھولنے میں بہت مُمِد ثابت ہوتی تھیں۔ ان محفلوں میں ہر اس موضوع پر تبادلۂ خیال ہوتا تھا، جو ان میں سے کسی کو پسند ہو۔
ان پانچوں میں سب سے زیادہ خوش مزاج جوزف بارڈن تھا، جو کنوارہ تھا۔ وہ اپنی پارسی زندگی کو بڑے دھڑلے سے گزارتا تھا اور غم و غصے کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتا تھا۔ چونکہ اس کی عمر ابھی چالیس برس ہی تھی، وہ اپنے دن رات سے پورا پورا فائدہ اٹھاتا تھا۔ وہ مردِ جہاندیدہ تھا، اس کی شخصیت کی چند خصوصیات بہت نمایاں تھیں۔ اس کی گفتگو میں مزاح تھا لیکن گہرائی نہیں تھی۔ علم تھا لیکن تفکر نہیں تھا، حاضر جوابی تھی لیکن سنجیدگی کا فقدان تھا۔ اس نے رفتہ رفتہ ایسے چٹکلے اور ٹوٹکے یاد کرلیے تھے، جن میں سے ظرافت اور فلسفیانہ نقطہ نظر کی خوشبو آتی تھی۔ اسی لیے بعض دفعہ اس کی گفتگو پر بالغانہ اور عاقلانہ نقطہ آرائی کا گمان ہوتا تھا۔ کھانے کے بعد اکثر اوقات وہ دلچسپ کہانیاں سنایا کرتا تھا، جنہیں سننے کے لیے اکثر لوگ بے چین ہوا کرتے تھے۔ اس شام اس نے بغیر پوچھے ہی ایک نئی کہانی سنانی شروع کر دی۔
اس نے سگار لگایا۔ اپنے آگے برانڈی کا گلاس رکھا اور میز پر کہنیاں ٹکا کر وہ اس فضا میں ایسا پر سکون نظر آرہا تھا، جیسے راہبہ عبادت گاہ میں اور مچھلی پانی میں پرسکون ہوتی ہے۔ اس نے سگار کا کش لگایا اور بولا: ”مجھے کچھ ہی عرصہ ہوا ایک عجیب و غریب لیکن دلچسپ واقعہ پیش آیا۔۔“
”بڑی خوشی سے۔۔۔“
اس نے گفتگو کا آغاز کیا: ”آپ لوگوں کو تو پتہ ہی ہے کہ مجھے پیرس میں آوارہ گردی کا ویسے ہی شوق ہے، جیسے کئی لوگوں کو دوکانوں میں سجی ہوئی چیزیں دیکھنے کا شوق ہوتا ہے۔۔ میں چلتے پھرتے لوگوں اور ان کی حرکات کو دیکھ کر بہت محظوظ ہوتا ہوں۔۔
وہ ستمبر کا مہینہ تھا۔ ان دنوں موسم کافی خوشگوار تھا، چنانچہ ایک سہ پہر میں بغیر کسی مقصد کے گھر سے چہل قدمی کرنے نکل کھڑا ہوا۔۔
ہم مرد اکثر اوقات گھر سے نکلنے سے پہلے کسی خوبصورت دوشیزہ کے بارے میں سوچتے ہیں۔۔ بلکہ ان تمام عورتوں کا، جن سے ہماری شناسائی ہوتی ہے، ذہن میں موازنہ کرتے ہیں اور جسے سب سے زیادہ دلچسپ پاتے ہیں، اسے فون کر کے مدعو کرتے ہیں۔۔ لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ موسم اتنا حسین ہوتا ہے کہ ہم بغیر کسی پروگرام کے گھر سے نکل پڑتے ہیں۔۔ اس دن بھی موسم اتنا دلکش تھا کہ میں عورتوں کو فون کرنا بھی بھول گیا۔ سورج چمک رہا تھا۔ ہوا خوشگوار تھی میں نے سگار جلایا اور شاہراہ پر چلنے لگا۔ چلتے چلتے اچانک مجھے خیال آیا کہ مونٹ مارٹر قبرستان کا چکر لگایا جائے۔۔
مجھے قبرستان پسند ہیں۔ وہ مجھے غمزدہ بھی کرتے ہیں لیکن میرے اعصاب کو سکون بھی پہنچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں میرے عزیز دوست ہیں۔۔ ایسے دوست، جن کو باقی دوست بھول چکے ہیں چنانچہ کبھی کبھار ملنے چلا جاتا ہوں
اتفاقاً اس قبرستان میں، مَیں نے ایک پرانا عشق دفن کر رکھا ہے۔۔ وہ میری داشتہ ہوا کرتی تھی۔۔ وہ داشتہ، جس سے میرا کافی جذباتی لگاؤ تھا۔ وہ بہت ہی خوبصورت نازنین ہوا کرتی تھی۔ جب بھی اس کی یاد مجھے آتی ہے، میرے دل میں نہ صرف غمزدگی کے جذبات بلکہ تشنۂ تکمیل آرزوؤں کے سیلاب امڈ آتے ہیں۔ میں اس کی قبر کے قریب جا کر خوابوں میں کھو جاتا ہوں۔ کتنا افسوس ہے کہ وہ تعلق اتنی جلد ختم ہو گیا۔۔
مجھے قبرستان اس لیے بھی پسند ہیں کہ وہ گنجان آباد شہروں کی طرح ہوتے ہیں، لیکن حیرانگی اس بات کی ہے کہ اتنے زیادہ لوگ قبر کے چھوٹے چھوٹے ڈبوں میں مدتوں سے پڑے ہیں، جن کے دہانوں پر پتھر رکھے ہوتے ہیں اور بالکل شور نہیں مچاتے۔ چاروں طرف خاموشی کا دور دورہ ہوتا ہے، اس کے مقابلے میں زندہ لوگ کتنی جگہ گھیرتے ہیں اور کتنا شور مچاتے ہیں۔۔
قبرستان کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ بعض اوقات آپ کو ایسے فن پارے نظر آتے ہیں، جو اکثر اوقات عجائب گھروں میں نظر سے گذرتے ہیں۔ دونوں کا موازنہ بجا نہیں لیکن مجھے کیونیک کا گنبد دیکھ کر جان گو جان کا وہ شاہکار یاد آجاتا ہے، جو رون کھیترڈل کے تہہ خانے میں لوئی بریز کے مجسمے کی صورت میں پڑا ہے۔۔ وہ مجسمہ اتنا پُر اثر ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ جدید فن کی ابتدا بھی وہیں سے ہوئی ہے۔
مونٹمار ٹر کے قبرستان میں کئی قابلِ دید چیزیں ہیں، جن کو دیکھ کر آپ تعریف کر سکتے ہیں۔ بودیں کا مجسمہ ہے، گوتیر کا گنبد ہے اور مرگر کا بت ہے، جو گرد و غبار سے اٹا رہتا ہے لیکن پھر بھی جوانی کی عکاسی کرتا ہے۔
آخر میں اس قبرستان میں پہنچا اور چہل قدمی کرنے لگا۔ میرے دل پر غم کے بادل چھانے لگے۔ ایسا غم، جو مجھے سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس دن مجھے برسات کا احساس ہونے لگا، فضا میں نمی، پت جھڑ اور بے جان سورج کا خیال میری تنہائی کو سوگوار بنانے لگا۔ مجھے موت اور مردے اپنے بہت قریب محسوس ہوئے۔
میں ایسے شہر کی گلیوں میں پھر رہا تھا، جہاں کے مکین نہ تو اخبار پڑھتے ہیں نہ تو ہمسایوں سے باتیں کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ میں چلتے چلتے کتبوں کو پڑھنے لگا اور آپ لوگ یقین کریں کہ کتبے پڑھنا بھی ایک دلچسپ مشغلہ ہے۔۔ پسیج اور ملھیک جیسے مزاح نگاروں کی تحریروں نے مجھے اتنا نہیں ہنسایا، جتنا ان کتبوں کی تحریروں نے۔۔ میں جب ان سنگِ مرمر کے ٹکڑوں اور صلیب کے نشانوں کو پڑھتا ہوں، جن پر رشتہ داروں نے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا ہوتا ہے، مُردوں کے لیے دعائیں لکھی ہوتی ہیں اور ان سے دوبارہ ملنے کا اظہار ہوتا ہے تو مجھے ان پر منافق ہونے کا گماں گذرتا ہے۔۔ ان میں سے بعض تحریریں ایسی ہوتی ہیں کہ ’پول دی کوک‘ کی کتابوں کی طرح پڑھ کر بے اختیار ہنسی آ جاتی ہے۔
مجھے اس قبرستان کا وہ حصہ سب سے زیادہ پسند ہے، جو پرانا ہے۔۔ وہاں سرو کے بلند قامت درخت اُگے ہوئے ہیں، وہ درخت جن کو انسانی لاشوں نے زندگی بخشی ہے۔۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس پرانے حصے کو جلد ہی مسمار کر دیا جائے گا۔ درخت اکھاڑ کر پھینک دیے جائیں گے اور پھر تھوڑے ہی عرصے میں نئی قبروں اور نئے کتبوں کا جال بچھ جائے گا۔
جب میں قبرستان میں کافی دیر پھر چکا اور اکتاہٹ کے آثار دکھائی دینے لگے تو میں اپنی داشتہ کی قبر کی طرف بڑھا، تاکہ اس کو اپنی وفادار یادوں کا ہدیہ پیش کروں۔ وہ حسینہ جو ایک زمانے میں کتنی پیاری اور خلوص و محبت سے پُر میرے ساتھ ہوا کرتی تھی، آج منوں مٹی کے نیچے۔۔۔۔ میں اس کے آگے نہ سوچ سکا۔
میں نے اس کی قبر پر جھک کر چند دکھ بھرے الفاظ کہے، جو شاید اس نے سنے تک نہیں۔ میں قبر سے آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ میں نے ساتھ والی قبر پر ایک نہایت ہی سوگوار لیکن حسین عورت کو گھٹنوں کے بل جھکے ہوئے پایا۔ اس نے چہرے سے نقاب اُٹھا رکھا تھا۔ اس کے سیاہ پردے میں سے اس کا گورا چہرہ اور خوبصورت بال ایسے لگ رہے تھے، جیسے سیاہ رات میں سے صبح طلوع ہونے کا قابلِ دید منظر ہو۔۔ میں جہاں تھا وہیں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔
وہ غم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی تھی، اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں سے چھپانے کی کوشش کی تھی ایک بت کی طرح کھڑی گہری سوچوں میں غرق تھی۔۔ اس کی اپنی حالت اتنی ناگفتہ بہ تھی کہ ایسے لگ رہا تھا کہ ایک مردہ دوسرے مردے کا فاتحہ پڑھ رہا ہے۔ پھر اس نے اپنے جسم کو ہلکی سی جنبش دی، جیسے وہ رونے لگی ہے۔۔ پہلے وہ آہستہ آہستہ روئی اور پھر زور زور سے رونے لگی، اس کی گردن اور شانے ہلنے لگے۔ پھر اچانک اس نے چہرے سے ہاتھ اٹھائے اس کی آنکھیں جو آنسوؤں سے لبریز تھیں، بہت دلکش تھیں۔ اس نے چاروں طرف ایسے دیکھا جیسے اچانک خواب سے بیدار ہو گئی ہو۔ جب اس نے مجھے اپنی طرف گھورتے ہوئے دیکھا تو بوکھلا سی گئی اور اپنے چہرے کو دوبارہ اپنے ہاتھوں سے چھپا لیا۔ اس نے زور زور سے سسکیاں لینی شروع کر دیں اور اپنا سر سنگِ مرمر کے کتبے کے ساتھ لگا دیا۔۔ اس کا نقاب قبر پر پھیل گیا۔۔ میں نے کراہنے کی آواز سنی، مڑ کر دیکھا تو اس کو قبر پر بے جان اور بے ہوش لیٹا ہوا پایا، جس پر لکھا تھا:
’یہاں لوئی تھیوڈ ورکیرا، آرام کر رہا ہے۔ وہ میرین لائٹ انفنٹری میں کپتان تھا، ٹوٹکن میں دشمنوں کے ہاتھوں مارا گیا۔۔ اس کی روح کے لیے دعا کیجئے۔‘
یہ نوجوان چند مہینے پہلے مرا تھا۔ اس نے میرے دل پر گہرا اثر کیا۔ میری آنکھیں بھی نم ہونے لگیں اور میں اس عورت کو ہوش میں لانے کی بھرپور کوشش کرنے لگا۔ آخر وہ ہوش میں آ گئی اور میری طرف دیکھنے لگی۔
مجھے اچانک اپنی ذات کا احساس ہونے لگا۔ میری عمر چالیس برس سے کم ہے۔۔ اور دیکھنے میں اتنی بری شکل کا نہیں ہوں، یہ علیحدہ بات کہ اس وقت میں کافی پریشان نظر آ رہا تھا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا تو وہ نہ صرف مہربان نظر آئیں، بلکہ ان سے احساسِ ممنونیت بھی جھلک رہا تھا۔ اس نے آنسوؤں اور سسکیوں کے درمیان اپنی بپتا سنائی۔ اس نے بتایا کہ اس کا شوہر جو کہ کپتان تھا، شادی کے ایک سال بعد جنگ میں مارا گیا۔ وہ اس کپتان سے محبت کرتی تھی اور اسی لیے اس سے شادی کی تھی وگرنہ وہ ایک یتیم بچی تھی اور اس کے پاس جہیز کے لیے بھی زیادہ رقم نہیں تھی۔
میں نے اسے دلاسہ دیا اور اسے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں مدد دی۔ پھر میں نے کہا ”کافی دیر ہوگئی ہے، اب چلنا چاہیے۔“
’میں چل نہیں سکتی۔‘ وہ بڑبڑائی
’میں تمہاری مدد کروں گا۔‘
’شکریہ موسیو۔۔ تم بہت مہربان ہو۔ کیا تم بھی یہاں کسی کی قبر پر حاضری دینے آئے تھے؟‘
’ہاں میڈم‘
’اپنی بیوی کی؟‘
’نہیں، اپنی داشتہ کی۔‘
’انسان اپنی داشتہ سے بھی اتنی محبت کرسکتا ہے، جتنی اپنی بیوی سے۔۔ محبت قوانین سے بالاتر ہے۔۔‘
’بجا کہتی ہیں میڈم‘ میں نے جواب دیا
ہم ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ وہ مجھ پر جھکی ہوئی تھی اور اپنا وزن میرے کندھے پر ڈالے ہوئی تھی۔ جونہی ہم قبرستان سے باہر نکلے، وہ کہنے لگی، ’میں بہت نقاہت محسوس کر رہی ہوں۔۔ پھر بے ہوش نہ ہوجاؤں۔‘
’کیا آپ ایسی جگہ چلیں گی، جہاں کچھ کھاپی لیں تاکہ آپ کی توانائی لوٹ آئے۔‘
’ضرور موسیو۔‘
مجھے قریب ہی ایک ریستوران نظر آیا۔ یہ ان ریستوران میں سے ایک تھا، جہاں مُردوں کے احباب قبر پر حاضری کا فرض نباہنے کے بعد خوشی کا سانس لیتے ہیں۔ ہم اندر چلے گئے اور میں نے اس کے لیے گرم چائے کا پیالہ بنایا تاکہ اس کی توانائی عود کر آئے۔ چائے پینے کے بعد اس کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی اور اس نے مجھے اپنی ذات کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ وہ بہت دکھی تھی۔ کہنے لگی ’میری زندگی اجیرن ہو گئی۔۔ دن رات تنہائی کا زہر مجھے کھائے جاتا ہے۔ میرے چاروں طرف کوئی بھی ایسا شخص نہیں، جس پر میں اپنا خلوص اور پیار و محبت نچھاور کر سکوں۔‘
اس کی باتوں میں اتنا خلوص اور درد تھا کہ میرا دل پسیجنا شروع ہو گیا۔ وہ نوجوان تھی، اس کی عمر بیس برس کے لگ بھگ ہوگی۔ میں نے اس کی تعریف کی جو اس نے خندہ پیشانی سے قبول کر لی۔ چونکہ کافی دیر ہو چکی تھی، میں نے اسے ٹیکسی میں گھر چھوڑ آنے کی دعوت دی، جو اس نے قبول کرلی۔ ٹیکسی میں ہم ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ ہمارے جسم ایک دوسرے کو چھو رہے تھے اور اس لمس کی حدت میرے سراپا میں شرارے پیدا کر رہی تھی۔
جب ٹیکسی اس کی بلڈنگ کے آگے رکی تو وہ آہستہ سے بولی، ’میں چوتھی منزل پر رہتی ہوں اور ابھی بھی کچھ کمزوری محسوس کر رہی ہوں۔۔ آپ اتنے مہربان رہے ہیں، مجھے سہارا دے کر اپارٹمنٹ تک چھوڑ آئیں۔‘
میں نے یہ خدمت بخوشی قبول کر لی۔ وہ میرا سہارا لے کر آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ اس کا سانس پھولتا جارہا تھا۔ جب ہم اس کے دروازے کے آگے پہنچے تو وہ کہنے لگی؛ ’کچھ دیر کے لیے اندر آجائیے.. میں آپ کا شکریہ اد کرنا چاہتی ہوں۔‘
میں اس کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوگیا۔ اس کا اپارٹمنٹ سادگی لیکن سلیقہ شعاری کا مظہر تھا۔ میں اس کے صوفے پر بیٹھ گیا اور اس نے پھر اپنی تنہائی کا ذکر چھیڑ دیا۔
اس نے اپنی ملازمہ کو بلانے کے لیے گھنٹی بجائی تاکہ وہ میرے لیے کوئی مشروب لے کر آئے لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ اس کی ملازمہ شاید صفائی کرنے والی عورت تھی، جو صرف صبح کے وقت تھوڑی دیر کے لیے آیا کرتی تھی۔ میں اس کے نہ آنے سے ہی خوش تھا۔
اس نے اپنا ہیٹ اتار کر ایک طرف رکھا اور میری طرف عجیب اندازِ محبوبانہ سے دیکھنے لگی۔۔ میں بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ اور اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا۔۔ میں نے اس کی آنکھوں کو بوسے دینے شروع کر دیے، جو اس نے بڑے پریم سے جھکا لی تھیں۔ پھر وہ میری گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کرتے ہوئے بولی، ’مہربانی سے۔۔۔۔۔ مہربانی سے۔۔۔۔‘
وہ کیا چاہتی تھی۔۔ ایسے نازک موقعوں پر ان الفاظ کے دو معانی لیے جا سکتے ہیں۔ میں نے اس کی آنکھوں سے ہٹ کر اس کے ہونٹوں کو بوسے دے کر ان الفاظ کی ایک تعبیر پیش کی اور وہ معنی دیے، جن کو میں ترجیح دیتا تھا۔ اس نے کوئی اعتراض نہ کیا اور اس بوس و کنار کے بعد ہم نے ایک دوسرے کو محبت سے دیکھا۔ ایسے لگتا تھا کہ ٹونکن کے کپتان کی سوگوار یادیں فضا میں تحلیل ہو کر قصہِ پارینہ ہو چکی ہیں۔۔
میں اس کے کچھ قریب ہو گیا اور اس پر اپنی توجہ نچھاور کرنے لگا۔ تقریباً ایک گھنٹے کی گفتگو اور قربتوں کا لطف اٹھانے کے بعد میں نے پوچھا: ’آپ شام کا کھانا اکثر کہاں کھاتی ہیں؟‘
’ساتھ والے چھوٹے سے ریستوران میں۔‘
’تنہا؟‘
’جی ہاں۔۔ کیوں؟‘
’آج کھانا میرے ساتھ کھائیں۔‘
’کہاں؟‘
’بلوار کے ایک عمدہ ریستوران میں۔‘
پہلے تو وہ ہچکچائی لیکن میں نے اصرار کیا تو یہ کہتے ہوئے مان گئی کہ ’میں اکیلی بور ہی تو ہوں گی..‘ پھر وہ اجازت لے کر اندر کپڑے بدلنے چلی گئی
وہ باہر آئی تو خاکی کپڑے زیبِ تن کیے ہوئے تھے، جن میں اس کا حسن کچھ اور نکھر گیا تھا، ایسے لگ رہا تھا کہ قبرستان اور شہر کے لیے اس نے مختلف قسم کے کپڑے سلوا رکھے ہیں۔
کھانا بہت لذیذ اور خوشگوار تھا۔ اس نے کھانے کے ساتھ کچھ شیمپئن پی، جس سے اس کی بشاشت لوٹ آئی۔ کھانے کے بعد ہم دوبارہ اس کے اپارٹمنٹ چلے گئے۔
قبرستان میں شروع ہونے والا قربتوں کا یہ سلسلہ تین ہفتے جاری رہا۔ مردوں کا دل اکثر چیزوں سے جلد بھر جاتا ہے، خاص کر عورتوں سے۔۔ میرا بھی یہی حال ہوا۔ تین ہفتوں کے بعد ایک ضروری سفر کی وجہ سے شہر سے باہر جانے کا بہانہ بنا کر اس کو الوداع کہا۔ وہ میری بہت ممنون تھی اور مجھ سے وعدے اور قسمیں لے رہی تھی کہ سفر کے بعد جب واپس پیرس آؤں تو اس سے ملنے ضرور آؤں۔ تھوڑے ہی عرصے میں، مَیں اس کے کافی قریب آ گیا تھا اور وہ مجھے چاہنے لگی تھی۔
اس عورت سے علیحدگی کے بعد میں جلد ہی اور رشتوں اور عورتوں میں ملوث ہو گیا۔ ایک مہینہ گزر گیا اور میں نے اس قبرستان کے معاشقے کو دوبارہ دعوت نہ دی۔ میں اس عورت سے ملنے نہ گیا لیکن اس کی یاد میرے ذہن میں تازہ تھی۔ وہ عورت میرے لیے ابھی بھی ایک بجھارت تھی، ایک نفسیاتی الجھن تھی، ایک ایسا سوال تھی جس کا جواب پانے کے لیے میں بے چین تھا۔۔
ایک دن اتفاقاً پھر میرا دل مونٹمارٹر کے قبرستان کی سیر کو چاہا۔ چنانچہ میں اس طرف چل دیا۔ میں کافی دیر تک اس قبرستان میں پھرتا رہا لیکن مجھے کوئی شناسا صورت نظر نہ آئی۔ میں ٹونکن میں مرنے والے کپتان کی قبر کے پاس سے بھی گزرا لیکن نہ تو مجھے اس کے قریب کوئی عورت بین کرتی نظر آئی اور نہ ہی اس قبر پر گلدستہ نظر آیا۔
میں چلتے چلتے اس قبرستان کے اجاڑ اور ایک دور افتادہ حصے میں نکل آیا۔ اچانک مجھے اپنے سامنے چھوٹے سے راستے پر ایک جوڑا مردہ حالت میں چلتا ہو ا نظر آیا۔۔ وہ میری طرف ہی چلے آ رہے تھے۔۔ جب وہ قریب آئے اور میں نے غور سے دیکھا تو مین نے اسے پہچان لیا!
اس نے میری طرف دیکھا اور اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ جب وہ مجھے چھو کر گزری تو اس نے مجھے خاص نظروں سے دیکھا۔ اس کی آنکھیں کہہ رہی تھیں، ’مجھے مت پہچانو!‘ لیکن ساتھ ہی یہ پیغام بھی دے رہی تھیں ’میرے پیارے! کسی دن ملاقات کے لیے آنا۔‘
وہ ایک نہایت ہی خوش لباس مرد کے ساتھ چل رہی تھی، جس کی عمر تقریباً پچاس برس کے لگ بھگ ہوگی۔ اس کے لباس پر تمغے سجے ہوئے تھے۔ وہ بھی اسے اسی طرح سہارا دے کر لے جارہا تھا، جس طرح میں اسے سہارا دے کر قبرستان سے باہر لے گیا تھا۔
میں ہکا بکا رہ گیا۔۔ میری آنکھوں نے جو دیکھا تھا، مجھے اس کا یقین نہ آتا تھا۔۔ میں چند لمحوں کے لیے حیرانگی کے گہرے سمندروں میں غوطے کھانے لگا۔ وہ عورت کون تھی؟
کیا وہ ایک معمولی طوائف تھی، جو قبرستان میں بیوی یا داشتہ کے سوگ میں مارے مارے پھرنے والے مردوں کی تلاش میں رہتی تھی یا وہ ایک نہایت غیر معمولی قسم کی عورت تھی؟
کیا وہ طوائفوں کے اس گروہ سے تعلق رکھتی تھی جو گلیوں اور بازاروں کے بجائے قبرستانوں کو اپنے کاروبار کا مرکز سمجھتا تھا۔۔ یا وہ تنہا طوائف تھی جو اپنے روز مرہ میں اس فلسفیانہ طرزِ عمل سے فائدہ اٹھاتی تھی۔
میرے ذہن میں کئی سوال اٹھ اٹھ کر رہ گئے۔۔
میں اس وقت بڑی بے چینی سے یہ جاننا چاہتا تھا کہ اس روز اس نے کس کی بیوہ بننا پسند کیا تھا۔۔۔۔۔!