کیا فرانس میں مراکشی ورلڈکپ ٹیم کے فینز پر انتہاپسندوں کے حملے کی سازش ہوئی تھی؟

ویب ڈیسک

حال ہی میں پیرس کی ایک عدالت نے تفتیش میں طریقہ کار کی غلطیوں کا حوالہ دیتے ہوئے، فرانس کی ایک اہم شخصیت سمیت انتہائی دائیں بازو کے سات مشتبہ کارکنوں کے خلاف ایک ہائی پروفائل کیس کو خارج کر دیا ہے

واضح رہے کہ فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی عسکریت پسندی کے تازہ ترین شواہد میں، ملزمان پر حالیہ فٹبال ورلڈکپ کے دوران مراکش کے شائقین پر نسل پرستانہ حملے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام تھا

14 دسمبر کو رات دس بجے کے بعد، قطر میں ورلڈکپ کے فائنل میں فرانس کی جانب سے مراکش کو شکست دینے کے چند لمحوں بعد، فٹبال کے شائقین کا ایک سیلاب پیرس کی سڑکوں پر امڈ آیا، جو فرانسیسی دارالحکومت کے پرجوش حامیوں کے اجتماع کے روایتی پوائنٹ چیمپس-ایلیز پر جمع ہونا شروع ہوا

اس موقع پر زیادہ تر لوگوں نے اپنے آپ کو فرانس کے پرچم میں لپیٹا ہوا تھا، جبکہ مراکشی نسل کے بہت سے فرانسیسی شہریوں نے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے اطلس کے شیروں کا سرخ اور سبز پرچم لہرایا، دونوں ہی جشن منانے کے موڈ میں تھے

مراکش پہلی بار ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں پہنچا تھا، اس لیے اس کے شائقین نے ورلڈکپ میں مراکش کی اس غیر معمولی کامیابی کو خراج تحسین پیش کرنے کا عزم کیا تھا

چیمپس-ایلیز سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر ایک بار کے باہر پولیس افسران نے انٹیلیجنس کی بنیاد پر کئی درجن افراد کو حراست میں لے لیا، جن پر شبہ تھا کہ وہ مراکشی شائقین پر نسل پرستی پر مبنی دہشتگردانہ حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے

جسمانی تلاشی میں ہتھیاروں کے ایک ذخیرے کا انکشاف ہوا، جس میں لاٹھیاں، آنسو گیس کے کنستر، شن گارڈز اور ٹیکٹیکل دستانے شامل تھے

ایک شخص کے پاس تین حروف GUD کے اسٹیکرز تھے، جس سے مراد ’گروپ یونین ڈیفنس‘ ہے, جو ایک انتہائی دائیں بازو کا اسٹوڈنٹس گروپ ہے، جو صدی کے آغاز میں غیر فعال ہو گیا تھا لیکن حال ہی میں وہ دوبارہ سرگرم ہو گیا ہے

اب دس ماہ بعد، ان میں سے سات ملزموں کو جمعہ کے روز پیرس کی فوجداری عدالت میں ’ممنوعہ ہتھیار رکھنے‘ اور ’تشدد اور نقصان پہنچانے کے مقصد سے ایک گروپ بنانے‘ کے الزام میں پیش کیا گیا، جس کی سزا دس سال تک قید ہے

تاہم ایک حیران کن پیش رفت میں، پورے کیس کو طریقہ کار کی بنیادوں پر مقدمے کی سماعت کے چند گھنٹے بعد خارج کر دیا گیا۔ پریزائڈنگ جج نے دلیل دی کہ پولیس نے گرفتاریوں کو انجام دینے میں اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے – اور سات مشتبہ افراد کو رہا کرنے کا حکم دیا

14 دسمبر کو حراست میں لیے گئے اڑتیس افراد میں سے تقریباً نصف کا تعلق انتہائی دائیں بازو کے مختلف گروہوں سے تھا، جن میں سے بیشتر کو اب غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے

ایک درجن پر ’fiché S‘ کا لیبل لگایا گیا، جو کہ قومی سلامتی کے لیے ممکنہ خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اکثریت کا تعلق پیرس کے علاقے سے تھا، جب کہ کچھ نے برٹنی تک کا سفر کیا تھا

جمعہ کے روز کٹہرے میں کھڑے سات افراد میں مارک ڈی کیکرے والمینیئر بھی شامل تھے، جو فرانسیسی الٹرا ڈرائٹ (انتہائی دائیں) کی ایک مرکزی شخصیت تھے۔ واضح رہے کہ یہ اصطلاح نازیوں سے ہمدردی رکھنے والے انتہائی دائیں بازو کے گروہوں کے لیے استعمال ہوتی ہے

خیال کیا جاتا ہے کہ مارک ڈی کیکرے والمینیئر نے عسکریت پسند گروپ زواویس پیرس کی قیادت کی تھی – یہ GUD کی ایک شاخ ہے،جس پر گزشتہ سال پابندی عائد کر دی گئی تھی

وہ پہلے سے ہی قانون کا متعدد بار سامنا کر چکے ہیں، جس میں آرک میں پیلی جیکٹ کے احتجاج کے موقع پر پرتشدد جھڑپوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے جیل کی معطل سزا بھی شامل ہے

دسمبر 2018 میں انہیں پیرس میں سینٹ-ساؤور بار پر حملہ کرنے کے جرم میں ایک سال قید کی سزا سنائی گئی، تاہم انہوں نے سزا کے خلاف اپیل کی ہے۔ وہ نسل پرستی کے ان مخالف کارکنوں پر پرتشدد حملے کے لیے بھی تفتیش کے عمل سے گزر رہے ہیں، جنہوں نے انتہائی دائیں بازو کے صدارتی امیدوار ایرک زیمور کی حمایت میں کیے جانے والے انتخابی جلسے میں خلل ڈالا تھا

فرانسیسی روزنامہ لبریشن نے جمعرات کو پولیس کی تفتیش کی کاپی کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے مراکش کے شائقین پر حملہ کرنے کے مبینہ منصوبے کی تحقیقات کرنے والی پولیس کا خیال ہے کہ مارک ڈی کیکرے والمینیئر نے ٹیلیگرام کے پیغام کے ذریعے اپنے ساتھیوں کو بلایا تھا، جس میں ’پرچم کے دفاع کے لیے عمومی طور پر متحرک ہونے‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا

اپنی تفتیش کے دوران، مارک نے مبینہ سازش میں کسی بھی کردار کی تردید کی، اور دعویٰ کیا کہ وہ اب عسکریت پسند نہیں رہا اور یہ کہ اس کی شناخت کسی نظریے سے نہیں ہوئی

جمعہ کو کیس کو کالعدم کرنے کے عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے، ان کے وکیل کلیمنٹ ڈیاکونوف نے سیاست دانوں پر الزام لگایا کہ ”وہ کاکرے والمینیئر کے خلاف افسانہ طرازی کر رہے ہیں اور انہیں ہدف کے طور پر نامزد کر رہے ہیں“

عدالت کے حالیہ فیصلے سے پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی تشدد کے ارتکاب سے پہلے احتیاطی گرفتاریاں کرنے کے پولیس کے فیصلے نے بالآخر سات مشتبہ افراد کے خلاف مقدمے کو نقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ اس نے پیرس میں گڑبڑ کو روکنے میں مدد کی ہوگی

ملک بھر میں دس ہزار پولیس افسران کی تعیناتی کے باوجود فرانس میں دیگر مقامات پر نسل پرستانہ حملوں کی اطلاع دی گئی، جس میں انتہائی دائیں بازو کے کارکن شامل تھے۔ل

لیون میں، جو دائیں بازو کی عسکریت پسندی کا گڑھ ہے، کئی درجن مردوں نے ایک مرکزی چوک میں شائقین پر حملہ کر کے ”فرانس، فرانسیسیوں کے لیے“ کے نعرے لگائے

نانٹیس، مونٹ پیلیئر اور نائس میں بھی نسل پرستانہ حملوں کی اطلاع ملی، جہاں نقاب پوش افراد نے مراکشی فینز کےخلاف نعرے لگاتے ہوئےان کا پیچھا کیا، جب کہ غنڈوں نے نیو نازی علامتیں لہراتے ہوئے وسطی اسٹراسبرگ سے مارچ کیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close