گروسری اسٹور پر رکھی بچوں کے لیے کھانے کی وہ مصنوعات یا اسنیک خریدنے کے لیے بچے تو بچے، بڑوں کا بھی دل للچانے لگتا ہے، کیونکہ ان کی خوبصورت پیکیجنگ (packaging) میں کارٹون بنے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی وہ رنگین اور دلکش دکھائی دیتی ہے
ہمیں اکثر ان اسٹورز میں ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ کسی چپس، چاکلیٹ، فرنچ فرائز یا اس طرح کی دیگر چیزوں کے پیکٹ میں کارٹون بنے ہوں اور بچے اپنے والدین سے انہیں خریدنے کے لیے ضد کر رہے ہوں
ایسی صورت میں والدین بھی بچوں کی ضد پوری کرتے ہوئے وہ چیز خرید لیتے ہیں یہ سوچتے ہوئے کہ یہ برانڈڈ ہے تو صحت بخش بھی لازمی ہوگی
اگر آپ بھی ایسا ہی سوچتے ہیں تو خبردار ہو جائیں، کیونکہ ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ایسی مصنوعات میں چینی کی مقدار بہت زیادہ اور غذائیت برائے نام ہی ہوتی ہے
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس تحقیق میں تقریباً چھ ہزار پیک ہوئی مصنوعات کا جائزہ لیا گیا ہے، تاکہ ان مصنوعات کی مارکیٹنگ کی حکمت عملی کا تجزیہ کیا جا سکے جن کا مقصد بچوں کو ایسی مصنوعات فروخت کرنا ہے
تحقیقی مطالعے کے مصنف اور کینیڈا میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے شعبہ نیوٹریشنل سائنس میں ریسرچ کنسلٹنٹ ڈاکٹر کرسٹین ملیگن کا کہنا ہے کہ گروسری اسٹورز میں بہت سی ایسی مصنوعات ہیں، جن کی مارکیٹنگ کا طریقہ کار متاثر کن ہوتا ہے اور جن کا مقصد ہی بچوں کو نشانہ بنانا ہے تاکہ وہ ایسی مصنوعات خرید سکیں
انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بظاہر رنگین اور پُرکشش نظر آنے والی مصنوعات غذائی معیار کے لحاظ سے انتہائی ناقص اور غیر صحت بخش ہیں
ڈاکٹر کرسٹین ملیگن نے کہا ”بچوں کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے ہم ان کے لئے اضافی احتیاط برتتے ہیں، تاہم جب پیک ہوئی مصنوعات کی بات آتی ہے تو کمپنیاں اس کے برعکس کام کر رہی ہیں“
انہوں نے خبردار کیا کہ یہ مسئلہ مستقبل میں سنگین نوعیت اختیار کر سکتا ہے
انہوں نے کہا ”تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان مصنوعات کی مارکیٹنگ کے لئے اشتہارات میں بچوں کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے، چاہے ٹی وی پر ہو یا سوشل میڈیا پر، یہاں تک کہ اسکول میں بھی اس کا رجحان عام ہو گیا ہے. کمپنیوں کی جانب سے مصنوعات کی اس طرح مارکیٹنگ کرنا غلط ہے، کیونکہ اس سے بچوں کے کھانے کے طریقے پر اثر پڑ رہا ہے، ان کی غذا کو نقصان پہنچ رہا ہے، جس کے طویل مدت تک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں“
برانڈڈ مصنوعات نہیں خریدسکتے تو بچوں کو کیا کھلائیں؟
اگرچہ یہ تحقیقی مطالعہ کینیڈا میں کیا گیا تھا لیکن یہ مسئلہ عالمی سطح پر ہے۔
ڈاکٹر کرسٹین ملیگن کہتی ہیں کہ ہر ملک کی فوڈ کمپنیاں برانڈ کے نام پر غذائیت میں کمی اور ہائی شوگر لیول والی مصنوعات فروخت کر رہی ہیں
ان کا کہنا تھا ”اس مسئلے سے بچنے کی شروعات ہم گھر سے ہی کر سکتے ہیں، تاہم صرف کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے، بچوں کو ایسے اشتہارات نہ دکھائے جائیں جو دکھنے میں رنگین نظر آئیں لیکن صحت کے لیے نقصان دہ ہوں. سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ گھر کا پکا ہوا کھانا کھایا جائے“
انہوں نے کہا کہ ایسی غذائیں جن کی چکنائی، شوگر لیول اور نمک کی مقدار کو کنٹرول کر سکتے ہیں، انہیں گروسری اسٹورز سے لینے کے بجائے گھر میں ہی پکایا جائے، مثال کے طور پر فرنچ فرائز، برانڈڈ چپس، برگر، بسکٹ وغیرہ
گھر میں کھانا پکانا اور اسے کھانا ذہنی اور جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیمی کارکردگی میں بہتری میں بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہے
اس کے علاوہ بچوں سے بات کریں اور انہیں سمجھائیں کہ کس طرح کمپنیاں اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کرتی ہیں اور ان مصنوعات کی پیکیجنگ کو پرکشش اور رنگین بناتے ہوئے ہمارے ذہن کو متاثر کرتی ہیں
یہ طریقہ اپنانے سے ان مضر صحت مصنوعات کو گھر کے راشن کی خریداری سے خارج کرنے اور صحت بخش اشیاء کو شامل کرنے کا بہترین موقع ہوگا، یہی نہیں بلکہ شاپنگ کرتے ہوئے یہ خیال بھی رہے گا کہ کون سی مصنوعات خریدنی ہیں اور کون سی نہیں یا کون سی غذائیں ہماری صحت کے لیے اچھی ہیں۔