بھارت کے شمال مشرق میں واقع ریاست منی پور میں نسلی بنیادوں پر شروع ہونے والی خونریزی میں اب تک بیسیوں افراد مارے جا چکے ہیں۔ حکام کے مطابق گزشتہ رات بھی خونریزی جاری رہی اور ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر اب 54 ہو گئی ہے
منی پور پچھلے کئی دنوں سے تشدد کی آگ میں جل رہا ہے۔ قبائلی گروپوں کے درمیان مفادات کے تنازعے نے اتنی بھیانک صورت اختیار کرلی ہے کہ انتظامیہ کو حالات پر قابو پانے کے لیے ’دیکھتے ہی گولی مار دینے‘ کا حکم دینا پڑا ہے
پچھلے تین دنوں سے بھارت کا شمال مشرقی صوبہ منی پورکے کئی اضلاع میں جاری تشدد کی زد میں ہے۔ سینکڑوں مکانات، درجنوں گرجا گھروں، یہودی عبادت گاہوں، مندروں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچا یا اُسے آگ لگادیا گیا ہے۔ صورت حال پر قابو پانے کے لیے فوج تعینات کردی گئی ہے اورریاستی گورنر نے شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم جاری کر دیا ہے
گوہاٹی سے ہفتہ 6 مئی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق حکومت کی طرف سے اس خونریزی سے متاثرہ اضلاع میں حالات کو قابو میں لانے کے لیے بھیجے گئے سکیورٹی دستوں کے باوجود جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات بھی ہلاکت خیز بدامنی کے کئی تازہ واقعات دیکھنے میں آئے
ریاست منی پور میں یہ بدامنی اس وقت شروع ہوئی تھی، جب اقلیتی قبائلی باشندوں کا ایک احتجاجی مارچ بدھ کے روز پرتشدد صورت اختیار کر گیا تھا۔ اس کے بعد وہاں صورتحال کو قابو میں لانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں فوجی بھیج دیے گئے تھے
اس کے علاوہ حکومت نے انٹرنیٹ سروس بھی بند کر دی تھی اور سکیورٹی دستوں کو حکم دے دیا گیا تھا کہ وہ ‘انتہائی نوعیت کے حالات‘ میں بدامنی پھیلانے والوں کو دیکھتے ہی گولی بھی مار سکتے ہیں
ریاستی پولیس نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ بدھ کے روز خونریزی شروع ہونے کے بعد کل جمعے کے روز تک بھی حالات کشیدہ ہی تھے، مگر پھر جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات ایک بار پھر وہاں نئی ہلاکتیں دیکھنے میں آئیں
پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے منی پور کے ریاستی دارالحکومت امپھال اور چند دیگر اضلاع میں ہسپتالوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ وہاں مردہ خانوں میں اس بدامنی میں مارے جانے والے کم از کم 54 افراد کی لاشیں پہنچائی جا چکی ہیں۔ اس دوران صرف امپھال ویسٹ نامی علاقے میں ہی 23 افراد مارے گئے
ریاستی حکومت اور سکیورٹی فورسز نے ابھی تک ان فسادات میں ہلاک ہونے والوں کی سرکاری طور پر کوئی تعداد نہیں بتائی
مرکزی حکومت نے حالات پر قابو پانے کے لیے سینکڑوں فوجی اور نیم فوجی دستوں کو تعینات کر دیا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی خدمات معطل کردی گئی ہیں
ان پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے اب تک کم از کم دس ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ تشدد کے واقعات میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی اصل تعداد کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ ریاست میں امن قائم کرنے کے لیے ہزاروں اہلکار تعینات کیے جا چکے ہیں اور متعدد اضلاع میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے
معاملہ کیا ہے؟
منی پور میں اس لسانی اور نسلی تصادم کا تعلق اس بارے میں دیرینہ تنازعے سے ہے کہ وہاں رہنے والی کثیرالنسلی مقامی آبادی میں سے کسی اکثریتی یا اقلیتی قبائلی آبادی کو ’شیڈولڈ قبیلہ‘ تسلیم کیا جائے اور کس کو نہیں
’شیڈولڈ ٹرائب‘ کی قانونی حیثیت والے قبائلی باشندوں کو سرکاری ملازمتیں اور تعلیمی اداروں میں داخلے مقابلتاً ترجیحی بنیادوں پر مل جاتے ہیں، جس کی وجہ ان کے لیے رکھا گیا کوٹہ ہوتا ہے
میانمار کی سرحد سے ملحق ریاست منی پور میں یوں تو غیر قبائلی اکثریتی میتئی اور قبائلیوں کے درمیان ایک عرصے سے تعلقات کشیدہ ہیں، لیکن تین مئی کو ہائی کورٹ کے ایک فیصلے نے جلتی پر تیل کا کام کیا
ریاست میں میتئی فرقے کی تعداد تقریباً 53 فیصد ہے۔ وہ ایک عرصے سے درج فہرست میں اپنے لیے قبیلے کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ عدالت نے انہیں یہ آئینی درجہ دینے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد وہ ریاست کے پہاڑی علاقوں میں بھی زمینیں خرید سکیں گے۔ اب تک انہیں پہاڑی علاقوں میں رہنے کی اجازت نہیں تھی
لیکن قبائلی تنظیموں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے فیصلے کے بعد میتئی فرقہ ان کی زمینوں اور وسائل پر قبضہ کرلے گا
دیگر قبائل کو خدشہ ہے کہ ان کو اس کے نتیجے میں اپنے آبائی جنگلات سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے
ریاست میں قبائلیوں کی آبادی 40 فیصد کے قریب ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ میتئی کو درج فہرست میں قبائل کا درجہ ملنے کے بعد وہ تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں ملنے والے ریزرویشن کے فائدے سے محروم ہو جائیں گے
قبائلی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ میتئی فرقہ مالی لحاظ سے نسبتاً خوشحال ہے اور انہیں مزید مراعات دینا دیگر قبائلیوں کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے
میتئی مذہبی لحاظ سے ہندو ہیں، جب کہ دیگر قبائل بشمول کوکی عیسائی اور یہودی مذہب کے ماننے والے ہیں۔ ان میں سے بیشتر پہاڑی علاقوں میں آباد ہیں۔ ریاست کی 3.2 ملین آبادی میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 8 فیصد ہے
منی پور میں جاری تشدد میں کوکی قبیلے کے لوگوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ کم از کم چار کوکی نوجوانوں کو ہلاک کردیا گیا اور دو یہودی عبادت گھروں کو آگ لگادی گئی۔ اپنی جان بچانے کے لیے سینکڑوں خواتین اور بچوں نے جنگلوں میں پناہ لے رکھی ہے
کہا جاتا ہے کہ کوکی قبیلے کے افراد دراصل یہودیوں کے بنی میناشے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ان دس گمشدہ قبائل میں سے ایک ہے جو 2700 برس سے زیادہ عرصے قبل اسرائیل کی سرزمین سے جلا وطن کردیے گئے تھے۔ ایک اسرائیلی ربی شلومو عمار نے سن 2005 میں کوکی کے بنی میناشے قبیلہ سے تعلق رکھنے کی تصدیق کی تھی
اس قبیلے کے تقریباً پانچ ہزار افراد حالیہ برسوں میں اسرائیل چلے گئے ہیں جب کہ مزید تقریباً پانچ ہزار افراد اب بھی بھارت میں رہ رہے ہیں
منگل کے دن مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے میٹی کمیونٹی کے مطالبے کے خلاف احتجاج کیا جس کا انعقاد آل ٹرائبل سٹوڈنٹس یونین آف منی پور کی جانب سے کیا گیا تھا۔
تاہم ایک ہی دن بعد اس احتجاج نے پرتشدد شکل اختیار کر لی جس کے بعد دیگر اضلاع میں بھی بدامنی پھیلی۔
دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر پہل کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں
غیر جانبدار حلقوں کی جانب سے تشدد کے لیے ریاست کی ہندو انتہا پسند حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے
سیاسی تجزیہ کار کے کنجم سنگھ کا کہنا ہے ”بی جے پی کی قیادت والی ریاستی حکومت کا رویہ بھی اس صورت حال کا کسی حد تک ذمہ دار ہے۔ وہ الیکشن کے وقت قبائلی تنظیموں کے رہنماؤں کو بلا کر ان کے ساتھ بات چیت کے دوران تمام مسائل کو حل کرنے کے وعدے کرتی ہے لیکن اقتدار حاصل کرلینے کے بعد اسے بھول کر ان کے حال پر چھوڑ دیتی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ قبائلی تنظیموں میں بی جے پی اور اس کی حکومت کے خلاف کافی ناراضگی پائی جاتی ہے اور اگر مسئلے کو فوراً بات چیت کے ذریعہ حل نہیں کیا گیا تو حالات بے قابو ہو سکتے ہیں۔