لوگوں میں رہتے ہوئے غائب کیسے ہوا جا سکتا ہے؟

حسنین جمال

سلیمانی ٹوپی ہوا کرتی تھی عَمرو عیار کے پاس، جسے پہن کے وہ لوگوں کی نظروں سے غائب ہو جاتا تھا۔

بچپن کی میری سب سے بڑی خواہش یہی سلیمانی ٹوپی تھی، بس نہیں چلتا تھا کسی طرح ہاتھ آ جائے اور بندہ یوں چٹکی بجاتے نظروں سے غائب۔

اب سوچتا ہوں کہ غائب ہو بھی جاتا تو کیا کرتا آخر؟ جتنی خواہشات اس وقت ذہن میں آتی ہیں، سب غیر اخلاقی ہیں یا غیر قانونی، اب میں برا آدمی ہوں یا پھر واقعی بچپن کے خواب الگ ہوتے ہوں گے۔

ہاں لیکن ایک خواہش کرنا جائز ہے، لوگوں میں رہتے ہوئے ان میں نہ رہنا، یعنی محفل میں، بازار میں، چلتے پھرتے ہوئے، یا کہیں بیٹھے ہوئے ایسا کریں کہ لوگ ہماری طرف نہ آئیں، ہم سے بات نہ کریں، ہمیں نوٹ نہ کریں، ایسا تو ہو سکتا ہے نا؟

بعض لوگوں کو ہر وقت توجہ نہیں بھی چاہیے ہوتی، تو وہ کیا کریں؟ دنیا سے کٹ کے رہا نہیں جا سکتا لیکن کتنی باتیں کی جا سکتی ہیں، آخر کتنا گھلا ملا جا سکتا ہے؟ کچھ دیر کے لیے ہی سہی لیکن اگر کوئی انسان غائب رہنا چاہتا ہے تو اسے مطلوبہ سہولت میسر ہونی چاہیے۔

کافی سوچا، ادھر اُدھر ڈھونڈا، کچھ تجربے خود کیے تو تھوڑا بہت سمجھ میں آ گیا لیکن اس سے پہلے یاد رکھیے کہ دنیا میں زیادہ تر جدوجہد خود کو دکھانے کی ہوتی ہے، ابھر کر سامنے آنے کی ہوتی ہے، بہت کم ہوں گے وہ لوگ، جو واقعی میں گم رہنا چاہتے ہیں!

سڑک، بازار یا گلی میں چلتے ہوئے ایک چیز ذہن میں رکھیں کہ بھلے کوئی کام نہ ہو، کہیں نہ جانا ہو، کوئی خاص مقصد نہ ہو لیکن وہ مقصد آپ کی چال میں نہیں آنا چاہیے۔ ایسے چلیں، جیسے آپ کو کہیں پہنچنا ہے۔

سامنے دیکھ کے چلیں اور عین اسی رفتار میں چلیں، جیسے عام طور پہ کہیں جانا ہو تو آپ چلتے ہیں۔ سست رفتاری ہوگی، خلاؤں میں دیکھ رہے ہوں گے، یا بار بار دائیں بائیں دیکھیں گے تو اور کچھ ہو نہ ہو، ایویں کوئی شریف آدمی مدد کرنے آ جائے گا۔

مدد بڑا ضروری انسانی جذبہ ہے لیکن بعض اوقات یہ نہیں بھی چاہیے ہوتی۔ تو اس بات کا دھیان کرنا ضروری ہے کہ آپ کی کسی حرکت سے ایسا نہ لگے، جیسے آپ کشمکش میں ہیں، یا راستہ سمجھ نہیں آ رہا، سکون سے اپنی واک پر فوکس کریں اور مناسب رفتار میں سامنے دیکھ کے جو مرضی سوچتے رہیں، لوگ متوجہ نہیں ہوں گے۔

اگر آپ کسی عوامی مقام پہ ہیں تو دوسرے لوگوں کے آس پاس رہیں، مکس ہو کے چلتے رہیں، دور رہنے کے چکر میں جتنا الگ گھومیں گے، اتنی توجہیں آپ کے مقدر میں ہوں گی۔

سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ دیکھیں ضرور دائیں بائیں لیکن گھوریں نہ کسی کو، نارمل رہیں جیسے آپ یہاں نئے نہیں ہیں اور آپ کو تجسس بھی کوئی نہیں ہے، کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بھی مت دیکھیں، سمجھیں ایسے چلنا ہے، جیسے اسکول جاتے ہوئے بستہ لٹکا کے، اور منہ اٹھا کے، بس چلتے رہا کرتے تھے۔

دوسری چیز حلیہ ہے۔ مجھ جیسے لگتے ہیں تو چار کوس دور سے بھی نظر میں آئیں گے۔ لمبے بال ہیں یا کوئی چیز لوگوں کو متوجہ کرنے والی ہے تو اسے چادر، صافے یا عام قسم کی ٹوپی سے کور کیا جا سکتا ہے۔

گھڑی، انگوٹھی یا ایسی کوئی بھی دوسری چیز خواہ مخواہ آپ کی طرف توجہ کروا سکتی ہے، ان سب سے ویسے عام حالات میں بھی دور ہی رہا جائے تو کیا برائی ہے؟ ایک عام سا موبائل وقت بتانے سمیت دنیا کا ہر کام کر ہی دیتا ہے۔

موبائل سے یاد آیا کہ اگر چل نہیں رہے اور کسی فنکشن میں ہیں تو یہاں بھی سکون سے کسی میز پہ بیٹھ کے اپنے موبائل میں گم ہوا جا سکتا ہے۔ مصروف لگیں گے تو خواہ مخواہ کوئی آپ سے بات نہیں کرے گا۔

ادھر بھی فارمولا وہی ہوگا کہ زمین یا دیواروں کی طرف ایویں نہیں گھورنا، مصروف لگنا ہے اور نارمل دکھائی دینا ہے۔

اب لباس کی طرف آ جائیں۔ غیر معمولی رنگوں کے، یا بہت زیادہ فیشن ایبل ٹائپ والے کپڑے سو فیصد دوسروں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف دیکھیں، بعض کیسز میں تو دیکھنے والا گھر بھی چھوڑ کے آنا چاہتا ہے، یہ ہمارے یہاں کا المیہ ہے۔

خیر، شلوار قمیض میں عام سفید، ہلکا نیلا یا ہلکا سرمئی لباس سب سے کم نوٹس ہونے والی چیز ہے، اگر نارمل سا ڈھیلا ڈھالا پہنا ہوا ہو۔ جینز ہے، پینٹ شرٹ ہے تو بھی وہی کہ سدابہار ٹائپ کا پہناوا ہو جو آس پاس والے سب پہن رہے ہیں، اس میں بھی آپ آسانی سے اپنی انفرادیت کھو سکتے ہیں۔

ٹائی سوٹ والا مجمع ہے تو نیوی بلو یا گرے کلر میں تھوڑے ڈارک رنگ کی ٹائی آپ کو آسانی سے گھلا ملا دے گی سب میں، جب سب جیسے دکھیں گے تو آخر کوئی کیوں دیکھے گا؟

باقی وہ جو فلموں میں دکھاتے ہیں کہ ایک بندے یا بندی نے بڑا سا ہیٹ پہنا ہوا ہے یا کوئی کالا سا چشمہ لگا لیا ہے اور وہ بالکل سکون سے اَن نوٹسڈ ہے تو ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

خود سوچیں، سڑک پہ کوئی بڑا سا ہیٹ پہنے نظر آئے یا کسی فنکشن میں دھوپ کے بغیر ہی چشمہ لگائے کوئی عقلمند غائب ہونے کی خواہش میں ہو تو کیا آپ اسے حیرت سے نہیں دیکھیں گے؟

آخری بات یہ کہ خاموش رہیں۔ جتنا ممکن ہے خاموش رہیں۔ معلوم تاریخ کا سب سے بڑا مسئلہ منہ کھولنا ہے، اسے جتنا زیادہ بند رکھا جائے، اتنی ہی کم توجہ ملے گی اور اتنا ہی آپ کے سکون میں اضافہ ہوگا۔

دعا ہے کہ آپ کسی پریشانی کی وجہ سے الگ تھلگ نہ رہنا چاہتے ہوں، بس موڈ کا کھیل ہو، انہماک درکار ہو، فوکس واپس لانا ہو کیوں کہ پریشانی میں اچھے قریبی دوستوں کے ساتھ بیٹھنا زیادہ بہتر ہوتا ہے، بجائے سامنے دیکھتے ہوئے چلتے رہنے کے!

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close