لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے گذشتہ ماہ کی دس تاریخ سے کراچی سے روانہ ہونے والے پیدل لانگ مارچ کے شرکاء کو مارچ کے 51ویں روز گزشتہ شب سندھ پنجاب سرحد کے قریب اوباوڑو کے مقام پر زبردستی روک دیا گیا
یہ مارچ پچاس دن تک کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا منگل کو جب پنجاب کی سرحد پر واقع سندھ کے ضلع گھوٹکی کے شہر اوباوڑو پہنچا تو پولیس نے انھیں آگے بڑھنے سے روک دیا، شرکاء پر بدترین تشدد کیا اور خواتین کے ساتھ بھی انتہائی بدسلوکی کی گئی، جب کہ کئی کارکنان کو گرفتار کیا گیا.
گرفتار ہونے والوں میں مارچ کی قیادت کرنے والے سندھ سبھا کے رہنما سندھی انعام کے علاوہ کئی خواتین و مرد کارکنان اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ شامل ہیں. اس موقع پر مارچ کے شرکاء کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور خواتین کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھا گیا
مارچ میں شریک شازیہ چانڈیو نے بتایا کہ اوباوڑو پولیس نے پہلے تو ہمیں کہا کہ انہیں پنجاب حکومت نے کہا ہے کہ مارچ کے شرکا کو کورونا ٹیسٹ کے بغیر پنجاب میں داخل نہ ہونے دیں، اس پر ہم نے پولیس سے کہا کہ ہم نے ٹیسٹ کروا لیے ہیں جن کے نتائج شام تک آئیں گے۔
واضح رہے کہ شازیہ کے نوجوان طالب علم بھائی عاقب چانڈیو دو سال قبل لاپتہ ہو گئے تھے، وہ تب سے اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے کراچی اور حیدرآباد میں ہونے والے اس احتجاج میں شریک ہیں۔ ان کی طرح کئی لاپتہ افراد کے اہل خانہ مارچ میں شریک تھے.
شازیہ کے مطابق بعد میں پولیس نے کہا سندھ سبھا کے سربراہ سندھی انعام پر بھٹ شاہ تھانے میں ایک کیس درج ہوا ہے، لہٰذا وہ انہیں گرفتار کریں گے، اس پر مظاہرین نے مزاحمت کی مگر رات کو پولیس نے بجلی بند کر کے ان کے احتجاجی کیمپ پر اچانک دھاوا بول دیا
انہوں نے کہا کہ پولیس کے ساتھ رینجرز اور سادہ کپڑوں میں نقاب پوشوں نے سندھی انعام سمیت کئی افراد اور خواتین کو گرفتار کر کے تھانے میں بند کر دیا، بعد میں شہریوں کی بڑی تعداد کے آنے پر خواتین کو تو چھوڑ دیا گیا مگر سندھی انعام سمیت کئی کارکن تاحال حراست میں ہیں
ایس ایچ او اوباوڑو غلام عباس سُندرانی نے رابطہ کرنے پر اس واقعے پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں منع کیا گیا ہے کہ وہ بات نہ کریں
بعدازاں سندھی انعام سمیت چھ کارکنان کو بھٹ شاہ پولیس نے آج دوپہر کے بعد ہتھکڑیاں لگا کرعدالت میں پیش کیا، جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہو گئی. سندھی انعام کا کہنا تھا کہ ہم اپنے لاپتہ ہونے والے لوگوں کی بازیابی کے لیے پرامن مارچ کر رہے ہیں ، جو ہمارا بنیادی انسانی اور آئینی حق ہے، ہمیں جواب چاہیے. انہوں نے ہتھکڑیاں لہراتے ہوئے کہا "لیکن ہمیں ہمارے جائز سوال کا یہ جواب دیا جا رہا ہے”
سندھی انعام نے کہا کہ سندھ جبر تو برداشت کر سکتا ہے، لیکن تذلیل کسی صورت میں بھی نہیں. ہم کسی بھی حالت میں اپنی منزل تک پہنچیں گے اور راولپنڈی میں دھرنا دیں گے
اس موقع پر گرفتار شدگان کے وکیل کا کہنا تھا کہ کم از کم پندرہ سے سولہ کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا، جن میں خواتین بھی شامل ہیں. ان میں سے ابھی صرف چھ کارکنوں کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے، جب کہ باقی ساتھیوں کا کوئی اتہ پتہ نہیں
دوسری جانب قافلے پر تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف آج سندھ کی تمام سیاسی، سماجی اور قوم پرست جماعتوں کی جانب سے کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ ،نوابشاہ ،سکھر، ٹھری میرواہ، اباوڑو سمیت پورے سندھ میں سخت احتجاج کیا گیا
اس موقع پر مقررین نے قافلے کے تمام گرفتار ہونے والے شرکاء کی آزادی اور لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا
مقررین نے شرکاء پر تشدد اور خواتین کے ساتھ بدترین سلوک کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی پرامن احتجاج کو تشدد کے ذریعے روکنا ریاستی اداروں کے ظلم، تشدد و جارحیت کی آخری حد ہے، جس کے خلاف سندھی قوم کو اپنا بھرپور ردعمل دینے کی ضرورت ہے۔
احتجاجی مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس مسئلے پر شدید احتجاجوں کا سلسلہ تب تک جاری رہے گا ،جب تک گرفتار کیے گئے پیدل قافلے کے سارے شرکاء اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو آزاد کیا نہیں جاتا۔