لیموں پانی اور بیگل بریڈ فروخت کرنے سے ترکی کے طاقتور رہنما بننے تک اردوغان کی کہانی

ویب ڈیسک

ایک عام زندگی سے آغاز کرنے کے بعد رجب طیب اردوغان آج ایک بہت بڑی سیاسی شخصیت بن چکے ہیں، وہ دو دہائیوں سے ترکی کی قیادت کر رہے ہیں اور اپنے اس عرصے میں انہوں نے ترکی کو عسکری اثر و رسوخ کے پنجے سے آزادی دلانے میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے

فروری 1954 میں پیدا ہونے والے اردوغان کے والد ساحلی محافظ (کوسٹ گارڈ) تھے۔ جب رجب طیب اردوغان 13 سال کے تھے تو اُن کے والد نے اپنے پانچ بچوں کی بہتر پرورش کی امید میں استنبول منتقل ہونے کا فیصلہ کیا

نوجوان اردوغان نے پیسے کمانے کے لیے لیموں پانی اور تلوں والے بیگلز فروخت کیے، جنہیں ترکی میں ’سمیت‘ کہا جاتا ہے۔ استنبول کی مرمرہ یونیورسٹی سے مینجمنٹ میں ڈگری حاصل کرنے سے پہلے انہوں نے ایک اسلامی اسکول سے تعلیم حاصل کی

نوجوان اردوغان نے فٹبال میں بھی دلچسپی لی اور 1980ع کی دہائی تک نیم پیشہ ور فٹبال ٹیموں کا حصہ رہے، لیکن ان کی اصل دلچسپی سیاست تھی۔ 1970 اور 80 کی دہائیوں میں، وہ اسلام پسند حلقوں میں سرگرم تھے اور نجم الدین اربکان کی حامی اسلامک ویلفیئر پارٹی میں شامل ہوئے

جب 1990 کی دہائی میں پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تو اردوغان نے سنہ 1994 میں استنبول کے میئر کے لیے انتخاب میں حصہ لیا اور اگلے چار سال تک اس شہر کے نظام کو چلاتے رہے

ترکی کے پہلے اسلام پسند وزیر اعظم اربکان نے سنہ 1997 میں فوج کے ہاتھوں مجبور ہو کر استعفیٰ دینے سے پہلے صرف ایک سال کے لیے عہدے پر کام کیا اور اردوغان بھی ملک کے سخت سیکولر حکام اور عسکری طاقت کے ساتھ تنازع میں گھر گئے

اسی سال انہیں ایک قوم پرست نظم کو عوامی سطح پر پڑھنے پر نسلی نفرت کو بھڑکانے کا مجرم قرار دے کر جیل بھیج دیا گیا، جس میں یہ سطریں شامل تھیں: ’مساجد ہماری بیرکیں، گنبد ہمارے ہیلمٹ، مینار ہمارے چھرے اور وفادار ہمارے سپاہی۔‘

چار ماہ جیل میں رہنے کے بعد وہ سیاست میں واپس آ گئے۔ لیکن سنہ 1998 میں جدید ترک ریاست کے سخت سیکولر اصولوں کی خلاف ورزی کرنے پر ان کی جماعت پر پابندی لگا دی گئی

اگست 2001 میں انھوں نے سیاسی اتحادی عبداللہ گل کے ساتھ مل کر ایک نئی اسلام پسند پارٹی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کی بنیاد رکھی۔

اردوغان کی مقبولیت خاص طور پر دو گروہوں میں بڑھ رہی تھی، پہلا اسلامی اقدار کا حامی گروہ، جو ملک کے سیکولر اشرافیہ کے ہاتھوں استحصال کا شکار تھا، اور دوسرے وہ لوگ جو 1990 کی دہائی کے آخر میں معاشی بدحالی کا شکار تھے

سنہ 2002 میں اردوغان کی پارٹی ’اے کے پی‘ نے پارلیمانی انتخابات میں اکثریت حاصل کی اور اگلے سال اردوغان کو وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا۔ وہ آج تک پارٹی کے چیئرمین ہیں

سنہ 2003 سے انہوں نے بطور وزیر اعظم تین مرتبہ اپنی حکومت کی مدت مکمل کی ہے اور اس دوران انھیں بین الاقوامی سطح پر ملک کی مستحکم اقتصادی ترقی کرنے والے اور اصلاحات کرنے والے رہنما کے طور پر سراہا گیا ہے

ان کے دور اقتدار میں ملک کے متوسط طبقہ میں اضافہ ہوا اور لاکھوں افراد غربت کی لکیر کی سطح سے اوپر اٹھے کیونکہ اردوغان نے ترکی کو جدید بنانے کے لیے بڑے ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دی

رجب طیب اردوغان اقتدار کے پہلے برسوں کے دوران ترکی کی کرد اقلیت کے ووٹروں کو بھی قائل کرنے میں کامیاب رہے۔ کردوں کے حقوق کو بہتر بنایا گیا اور تین دہائیوں کے تنازع کے بعد مارچ 2013 میں ایک نیا امن عمل شروع کیا گیا، جس کی وجہ سے عسکریت پسند گروپ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے جنگ بندی کا اعلان کیا، لیکن یہ معاہدہ صرف دو سال تک جاری رہا اور معاملات پھر الجھ گئے

سنہ 2013 تک ان کے ناقدین نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اردوغان تیزی سے آمرانہ رویوں کے حامل ہوتے جا رہے ہیں

سنہ 2013 کے موسم گرما میں اپوزیشن پارٹیاں مظاہرین کو اردوغان کی حکومت کی جانب سے استنبول کے وسط میں واقع ایک پسندیدہ پارک کو تبدیل کرنے کے منصوبے اور ان کی طرز حکمرانی کے خلاف سڑکوں پر لے آئیں۔ ان مظاہروں سے سختی سے نمٹا گیا اور احتجاج مزید پھیل گیا

یہ ان کی حکمرانی کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا اور مخالفین نے کہا کہ وہ جمہوریت پسند سے زیادہ سلطنت عثمانیہ کے سلطان کی طرح کام کر رہے ہیں

صدر اردوغان کی پارٹی نے یونیورسٹیوں اور عوامی مقامات میں خواتین کے سر پر اسکارف پہننے پر عائد پابندی کو ہٹانے کے لیے بھی اقدام کیا، جو 1980 میں فوجی بغاوت کے بعد متعارف کرایا گیا تھا۔ بالآخر پولیس، فوج اور عدلیہ میں خواتین کے لیے یہ پابندی ختم دی گئی

ناقدین ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہوں نے مصطفیٰ کمال اتاترک کی ’سیکولر جمہوریہ‘ کے ستونوں کو توڑ دیا ہے۔ خود مذہبی ہونے کے باوجود اردوغان نے ہمیشہ اسلامی اقدار کو قومی سطح پر مسلط کرنے کی خواہش سے انکار کرتے ہیں اور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ وہ صرف ترکوں کے اپنے مذہب کے زیادہ کُھلے اظہار کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں

صدر اردوغان نے طویل عرصے سے اسلامی مقاصد اور سیاسی اسلام کی حمایت کی ہے۔ وہ گروہ جو نظریاتی طور پر مصر کی جبر کا شکار اخوان المسلمون کے حامی ہیں۔ انہوں نے ایک موقع پر چار انگلیوں کے اشارے والا سلام بھی کیا ہے جسے ربا کہا جاتا ہے

سنہ 2014 میں انہیں تین مرتبہ بطور وزیر اعظم اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد دوبارہ انتخاب لڑنے سے روکے جانے کے بعد وہ ملک کے صدر کے طور پر انتخابات میں سامنے آئے تھے

انہوں نے اس عہدے میں نئی آئینی ترامیم کے تحت اصلاحات کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے انہوں نے ملک کی سیکولر اسٹیبلشمنٹ اور عسکری طاقتوں کو چیلنج کیا

لیکن اپنے دور صدارت کے اوائل میں انھیں اپنے اختیارات کے حوالے سے دو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلی یہ کہ ان کی پارٹی سنہ 2015 میں کئی مہینوں تک پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کھو چکی تھی اور پھر اگلے سال 15 جولائی 2016 کو ترکی نے کئی دہائیوں میں پہلی بار فوجی بغاوت کی کوشش کا سامنا کیا تھا

اس واقعے میں فوجی بغاوت کرنے والوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے تقریباً تین سو شہری ہلاک ہو گئے تھے

اس سازش کا الزام فتح اللہ گولن نامی امریکہ میں مقیم اسکالر کی قیادت میں گولن تحریک پر لگایا گیا تھا

ان کی سماجی اور ثقافتی تحریک نے اردوغان کو لگاتار تین انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے میں مدد کی تھی، لیکن جب دونوں اتحادیوں میں پھوٹ پڑی تو اس کے ترک معاشرے پر ڈرامائی اثرات مرتب ہوئے

سنہ 2016 کی بغاوت کی کوشش کے بعد، تقریباً ڈیڑھ لاکھ سرکاری ملازمین کو برطرف کیا گیا اور پچاس ہزار سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا گیا، جن میں بڑی تعداد فوجیوں کی تھی

اردوغان کی جانب سے ناقدین پر اس کریک ڈاؤن نے بین الاقوامی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجائی اور ترکی کے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری آ گئی۔ اس کے بعد سے ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی کوششوں میں کئی برسوں سے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ایسے میں یونان میں تارکین وطن کی بڑی تعداد نے معاملات کو مزید کشیدہ کیا

سنہ 2017 میں وہ بہت کم فرق سے صدارتی ریفرنس جیتے تھے، جس کے بعد انھیں لا محدود صدارتی اختیارات حاصل ہوئے جن میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنا اور اعلیٰ سرکاری افسران کی تعیناتی سمیت قانونی نظام میں مداخلت کرنے کا اختیار شامل ہے

اپنے دور حکمرانی کے دوران، صدر اردوغان بین الاقوامی سیاست میں بھی ایک اہم شخصیت کے طور پر سامنے آئے۔ انھوں نے ایک علاقائی طاقت کے طور پر ترکی کو پیش کیا اور مضبوط سفارتکاری سے یورپ اور دیگر دنیا کے اتحادیوں کو ناراض کیا

اگرچہ وہ ایک نیٹو رکن ملک کے سربراہ ہیں لیکن ان کے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے قریبی تعلقات ہیں اور انھوں نے روس اور یوکرین جنگ میں خود کو ایک ثالث کے طور پر پیش کیا ہے

انھوں نے بحیرۂ اسود کے راستے کے ذریعے اجناس کی برآمد کی محفوظ تجارت کے معاہدے کو ممکن بنانے کے لیے مدد دی اور جب روس نے اس معاہدے کو توڑنے کی کوشش کی تو اس کو قائم رکھنے میں مدد دی

انھوں نے سویڈن اور فن لینڈ کو بھی مغربی اتحاد میں شامل ہونے کے لیے اپنی بولیوں کا انتظار کیا۔ آخر کار انھوں نے فن لینڈ کے الحاق کی منظوری دے دی لیکن سویڈن کو باہر رکھا، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ ملک نے کرد علیحدگی پسندوں اور دوسرے مخالفین کو پناہ دی ہے جنھیں وہ ’دہشت گرد‘ سمجھتے تھے

بہت سے ناقدین 2019 کے بلدیاتی انتخابات کو صدر اردوغان کے طویل اقتدار کے لیے ’پہلا دھچکے‘ کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ ان کی پارٹی تین بڑے شہروں استنبول، انقرہ اور ازمیر میں ہار گئی تھی

مرکزی اپوزیشن ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے اکریم اماموگلو سے استنبول کی میئر شپ ہارنا اردوغان کے لیے ایک تلخ دھچکا تھا، جو 1990 کی دہائی میں شہر کے میئر رہ چکے تھے

اب اماموگلو اپنی اس کامیابی کو قومی سطح پر بڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ اردوغان کے مخالف صدارتی امیدوار کمال کیلداگلو کے ساتھ صدارتی مہم چلا رہے ہیں

ترکی میں پچاس سے زیادہ افراد کی ہلاکت اور لاکھوں افراد کو بے گھر کرنے والے تباہ کن زلزلے کے لیے حکومت کی تیاری کی کمی پر تنقید ان بہت سے چیلنجوں میں سے ایک ہے، جن کا اردوغان کو سامنا ہے۔ ایک اور معیشت کی خراب حالت ہے، جس میں لاکھوں لوگ زندگی کے بحران سے دوچار ہیں

ترک صدر اردوغان کے دو دہائیوں سے جاری اقتدار کو 14 مئی کو ملک میں ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ایک طاقتور سیاسی اتحاد کے خلاف کانٹے دار مقابلے کا سامنا ہے۔

نوٹ: اس رپورٹ کی تیاری میں بی بی سی نیوز آن لائن یورپ کے ایڈیٹر پال کربی کے ایک مضمون سے مدد لی گئی ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close