تیزی سے گرم ہوتا سمندر پاکستان سمیت ایشیا میں مون سون بارشوں کے مستقبل پر کیسے اثر انداز ہوگا؟

ویب ڈیسک

دنیا کی دو تہائی آبادی کرہِ ارض کے اس خطے میں بستی ہے، جو مون سون بارشوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، لیکن کئی عشروں سے بارشوں کے اس سلسلے میں بتدریج کمی آ رہی ہے

سنہ 2020 میں مارچ، اپریل اور مئی کے مہینوں میں پورے ایشیا میں کووِڈ لاک ڈاؤن کے عروج کے دوران بھارت کے سائنس دانوں نے ملک کے کچھ حصوں کی فضا میں ایک چونکا دینے والی تبدیلی کو محسوس کرنا شروع کیا تھا

کچھ ہی عرصے کے بعد ان تبدیلیوں کی بازگشت بڑے پیمانے پر ان موسمی نظاموں میں دوبارہ سُنی گئی، جو کہ ایشیا کے بیشتر حصوں پر بارشیں برساتا ہے، یعنی مون سُون بارشوں کا نظام

مون سون میں تبدیلیاں لاک ڈاؤن کا ایک غیر متوقع ضمنی اثر تھا، جس نے انسانی سرگرمیوں کو محدود کر دیا تھا

سڑکوں پر گاڑیاں نہ چلنے اور صنعتی سرگرمیاں کافی کم ہونے کے ساتھ کم اخراج کی وجہ سے ماحولیاتی ایروسول (پانی کے مہین قطرے، جو فضا میں معلق ہوں) میں نمایاں کمی واقع ہوئی

یہ ماحول میں معلق چھوٹے ٹھوس اور مائع قطرے ہیں، جن میں انسانی صحت کے لیے نقصان دہ خوردبینی ذرات (PM 10 اور PM 2.5) شامل ہوتے ہیں۔ ایروسول میں کوئلہ جلانے سے پیدا ہونے والی سلفر ڈائی آکسائیڈ، اور اس میں بلیک کاربن شامل ہوتے ہیں

واضح رہے کہ بلیک کاربن زرعی اجناس کے جلنے کی وجہ سے ہوا میں شامل ہوتا ہے، جو پاکستان اور بھارت میں عموماً کھانا پکانے میں استعمال ہونے والی لکڑی کی آگ سے نکلتا ہے

ہم طویل عرصے سے ایروسول کے مضر اثرات کو جانتے ہیں۔ ہمارے ایئرویز انہیں اس طرح چوستے ہیں جیسے ویکیوم کلینر دھول کو کھینچتا ہے. اگر یہ صاف نہ ہوں تو آلودہ ہوا ہمارے پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے اور یہ زہریلا مواد ہمارے خون میں شامل ہو جاتا ہے

تاہم سنہ 2020ع وہ پہلا موقع تھا، جب محققین ہماری فضا میں ایروسول میں تیزی سے کمی کے اثرات کا مطالعہ کرنے کے قابل ہوئے اور انہوں نے ایک وسیع سطح پر بھارت اور مشرقی ایشیائی موسمِ گرما کے مون سُون پر اثرات کا ایک نقشہ تیار کیا

انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹراپیکل میٹرولوجی میں مون سون کے نمونوں کا مطالعہ کرنے والی سوورنا فڈنویس کہتی ہیں ”لاک ڈاؤن کے دورانیے کے دوران جب انسانی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں، ہم نے پورے بھارت میں فضا میں ایروسول میں تیس فیصد تک کمی دیکھی“

یہ خبر بھی پڑھیں: پاکستان کو ماحولیاتی بحران کی بھاری معاشی قیمت ادا کرنی ہوگی

گذشتہ پچیس سال میں اس کے اثرات خبروں میں بڑے پیمانے پر دیکھے گئے جن کے مطالعے کو ایک دستاویزی شکل دی گئی، خاص طور پر یہ کہ کس طرح وسطی بھارت کے شہر اتر پردیش میں سہارنپور کے رہائشی تیس برسوں میں پہلی بار ہمالیہ کی ایک دلکش جھلک دیکھ سکے

مون سُون کے لیے یہ ایروسول بہت اہم ہوتے ہیں کیونکہ یہ عام طور پر فضا میں ایک تہہ بناتے ہیں، جو شمسی تابکاری کی عکاسی کرتی ہے۔ فڈنویس کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران شمالی بھارت پر ایروسول کی پتلی تہہ کا مطلب یہ تھا کہ زمین اب تیزی سے گرم ہو رہی ہے

کم ہوتی ایروسول کے بارے میں فڈنویس کا کہنا ہے ”ہم نے مشاہدہ کیا کہ اس نے سالانہ مون سُون کی بارش میں پانچ سے پندرہ فیصد تک اضافہ کیا، یعنی تقریباً تین ملی میٹر فی دن“

اس کو مقامی حالت کے تناظر میں سمجھنے کے لیے اور سیاق و سباق میں ڈالنے کے لیے مون سون کی بارشوں میں اضافہ روزانہ ایک گھنٹے کی معمولی بارش کے برابر سمجھا جا سکتا ہے

وہ کہتی ہیں ”خشک سالی کا شکار بھارت اپنی زراعت، معیشت، غذائی تحفظ اور مجموعی صحت کے لیے موسمی مون سون کی بارشوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، یہ بہت اہم بہت ہے“

لیکن اس کا اثر صرف بھارت ہی میں نہیں دیکھا گیا۔ مجموعی طور پر ایشیا کی آب و ہوا بڑی حد تک اس کے مون سون کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے۔ مشرقی ایشیا کے بڑے حصوں میں ایروسول میں اچانک کمی دیکھی گئی اور اس کے اثرات چین، کوریا اور جاپان پر محسوس کیے گئے

چین کے گوانگزو میں واقع جنان یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ فار انوائرمنٹل اینڈ کلائمیٹ ریسرچ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر چاو ہی کہتے ہیں ”ہماری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ایروسول کے ارتکاز میں اچانک کمی نے مشرقی ایشیا میں مون سون کی کل بارشوں میں بھی نمایاں اضافہ کیا“

یہ سنہ 2020ع اور سنہ 2021ع کے موسم گرما میں مشاہداتی اور ماڈلنگ کے مطالعے سے ثابت ہوا تھا۔ ’پچھلی تحقیق نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ کووڈ-19 کے دوران اخراج میں کمی اتنی مضبوط نہیں تھی کہ گلوبل وارمنگ کو روک سکے۔

ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کووڈ 19 کا عالمی سطح پر کوئی خاطر خواہ آب و ہوا پر اثر نہیں ہوا ہے، لیکن علاقائی آب و ہوا پر اس کے اثرات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اور مشرقی ایشیا ایک اہم جگہ ہے۔‘

مون سون کا مطالعہ کرنے والے برطانیہ میں مقیم سائنسدان اور انٹر گورنمنٹ پینل آن کلائمیٹ چینج (IPCC) کی اگست 2021ع میں جاری ہونے والی چھٹی تشخیصی رپورٹ کے مصنف اینڈریو ٹرنر کا کہنا ہے ”بھارت اور چین نے پچھلے چند عشروں میں تیزی سے ترقی کی ہے، وہاں سے زیادہ سے زیادہ ایروسول کے اخراج کا موازنہ کیا جا رہا ہے۔ اور ایروسول میں اضافے نے خطے میں برسوں کے دوران بارش کی مقدار کو کم کر دیا ہے“

بھارتی محققین کے 1901-2011 کے مشاہداتی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جنوب مغربی مون سون کی بارشوں میں گزشتہ برسوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ اس کمی کے کئی دیگر عوامل بھی ہیں اور ان میں سے ایک سمندروں میں تیزی سے گرم ہوتا ہوا پانی بھی ہے

یہ خبر بھی پڑھیں:  موسمیاتی تبدیلی: سطح سمندر میں اضافہ، سمندر کی گرمی اور سمندری تیزابیت نے 2021 میں نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں

پونا میں انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹراپیکل میٹرولوجی کے موسمیاتی سائنسدان روکسی میتھیو کول کہتے ہیں ’ہماری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بحر ہند دنیا میں سب سے تیزی سے گرم ہونے والا سمندر ہے۔‘

روکسی میتھیو کول سمندری گرمی کی لہروں اور پورے بحرِ ہند میں مون سون کے بدلتے ہوئے نمونوں کا مطالعہ کر رہے ہیں

ان کا کہنا ہے ”ہم نے سنہ 1950ع کی دہائی کے بعد سے (سطح کے) درجہ حرارت میں 1.4 سیلسیس کا اضافہ نوٹ کیا ہے، خاص طور پر بحیرہ عرب سمیت مغربی خطوں میں۔ یہ اسی مدت کے دوران سمندروں میں گرمی کی عالمی اوسط 0.7 سیلسیس سے زیادہ ہے“

وہ کہتے ہیں ”سمندر کا یہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت مون سون ہواؤں اور درجہ حرارت کے میلان کو بھی کمزور کر دیتا ہے۔ یہ مون سون کی بارشوں میں کمی کا سبب بن رہا ہے“

اگرچہ یہ مون سون پر دباؤ کو بڑھا سکتا ہے، محققین جیسے کہ ٹرنر کا خیال ہے کہ ایروسول اب تک ان کی کمی کو آگے بڑھانے میں کلیدی عنصر ہیں۔ اور حقیقت میں ایک گرم ہوتا ہوا کرہِ ارض طویل مدت میں مون سون پر برا اثر پیدا کر سکتا ہے

لاکھوں سال پہلے مون سون کی شدت کے تاریخی مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جب کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کی سطح زیادہ ہوتی ہے تو مون سون زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کی اعلیٰ سطح کا مطلب ہے کہ زمین زیادہ تیزی سے گرم ہوتی ہے، جس سے زمین اور سمندر کے درمیان درجہ حرارت کا بڑا فرق پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک گرم ماحول زیادہ پانی جمع کر کے روک سکتا ہے اور یہ بارش کا زیادہ امکان پیدا کرتا ہے

عالمی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں سنہ 1950ع کی دہائی سے تیزی سے اضافہ شروع ہوا۔ عالمی ریکارڈ پر سنہ 2005ع کے بعد سے دس گرم ترین سال نوٹ کیے گئے ہیں

کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) میں اضافے کے ساتھ، ٹرنر کا کہنا ہے ”مون سون کی بارشیں ایک اہم مقام تک پہنچ جائیں گی جب مون سون اپنی سابقہ طاقت پر واپس آجائے گا اور پھر ممکنہ طور پر اس سے آگے نکل جائے گا“

طویل مدت میں، کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) مون سون کی قسمت پر غالب کردار ادا کرے گا

ٹرنر کا کہنا ہے ”کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ایروسول کے درمیان بڑا فرق یہ ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں اچھی طرح مکس ہوتی ہے۔ ہم اسے اچھی طرح سے مخلوط گرین ہاؤس گیس کہتے ہیں، جبکہ ایروسول کا اخراج ان کے اصل علاقے کے بہت قریب ہوتا ہے“

فوڈان یونیورسٹی، شنگھائی کے پروفیسر اور مشرقی ایشیائی ممالک پر کووِڈ کے اثرات پر تحقیق کی شریک مصنف، وین زو کا کہنا ہے ”ایک اور فرق یہ ہے کہ موسم گرما کے مون سون کے ایروسول کی زندگی طویل عرصے تک رہنے والی گرین ہاؤس گیسوں جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔ آب و ہوا پر ایروسول کا اثر تیزی سے تبدیل ہو سکتا ہے، جیسا کہ کووِڈ لاک ڈاؤن شروع اور ختم ہونے پر ہوا تھا“

مون سون کا کیا ہوتا ہے جب مستقبل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج اور ایروسول کے اخراج میں اضافہ ہوتا ہے؟ ٹرنر کا کہنا ہے کہ ہم ایک ایسے نکتہ تک پہنچ چکے ہیں، جس کے بعد سب کچھ تبدیل ہو سکتا ہے

ٹرنر کا کہنا ہے ”اگر انہوں نے پہلے ہی ایسا نہیں کیا ہے تو آئندہ کسی بھی وقت کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اثرات مون سون پر غالب ہو جائیں گے۔ IPCC رپورٹ کے نتائج بتاتے ہیں کہ ایروسول کا اخراج سنہ 1950 کی دہائی سے کمزور انڈین مون سون نظام کو چلانے کا ایک اہم عنصر رہا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ہمارے مستقبل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے زیادہ اخراج کے ساتھ آب و ہوا کے تجربات بھی شامل ہیں (مثال کے طور پر، سال 2100 میں) ایسی صورت میں مون سون کی بارشوں کا سلسلہ بہت زیادہ ہوجائے گا“

ٹرنر کا کہنا ہے ”یہ نکتہِ تبدیلی کب آئے گا، یہ پیش گوئی کرنا فی الحال ممکن نہیں “

جب یہ تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے، تب تک تو ممکنہ طور پر اس کے نتیجے میں طوفان اور سیلاب جیسے موسم کے مزید شدید واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے

ٹرنر کا کہنا ہے ”آئی پی سی سی کی چَھٹی رپورٹ سے سامنے آنے والے بہت سے مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ آپ گلوبل وارمنگ کی سطح کو جتنا بڑھائیں گے اتنا ہی برا اثر پڑے گا۔ گلوبل وارمنگ کے ہر درجے کے ساتھ، گرمی کی لہریں بڑھتی ہیں اور وہ گرم ہو جاتی ہیں، اس کے نتیجے میں شدید بارشیں بہت زیادہ ہو جاتی ہیں اور پھر پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ ہوتی ہے، اور یہ زرعی علاقوں میں ڈوبنے اور فصلوں کے نقصان کا باعث بن سکتی ہے“

مستقبل میں اس سے ایشیائی خطہ شدید موسمی تغیرات کا شکار ہو سکتا ہے۔ جب کہ مون سون پر ایروسول کا اثر آسانی سے بدلا جا سکتا ہے، تاہم طویل عرصے تک فضا میں رہنے والے CO2 کے گرمی کے اثرات کا انسداد کرنا مشکل ہے

اسی وجہ سے پروفیسر زو کا کہنا ہے”ابھی سے ان انتہائی واقعات کے لیے تیاری کرنا سب سے زیادہ اہم کام ہے“

(اس رپورٹ کی تیاری کے لیے کملا تھیاگا راجن کے بی بی سی فیوچر میں شائع ہونے والے فیچر سے مدد لی گئی ہے)


ماحولیات بارے مزید خبریں: 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close