لیما سے چوالیس کلومیٹر جنوب میں واقع یہ مقام، جو عام دنوں میں پُرسکون رہتا ہے، گاڑی کے انجن کی چیخ و چنگھاڑ سے گونج رہا تھا
لال رنگ کی ٹیوٹا کورولا لاچوٹانا سرکٹ پر ایک سو اسی کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ لیکن کیا یہ کوئی ایسی بات ہے، جس پر حیران ہوا جائے؟ نہیں، ہر گز نہیں۔۔
لیکن حیرانی کا لمحہ چند گھڑیوں کے فاصلے پر آپ کا منتظر ہے
کچھ اور چکر لگانے کے بعد گاڑی مقررہ مقام پر آ کر رُکتی ہے۔۔ ڈرائیور اپنا ہیلمٹ اتار کر کیمرے کی جانب دیکھتے ہوئے انگوٹھے کا نشان بنا کر کہتا ہے ”میں پاچو کانٹ ہوں اور میں نابینا ہوں“
ان کے کانوں سے منسلک سماعتی آلے کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں وہ قوتِ سماعت سے بھی محروم ہیں
ایک متحرک شخص،
اڑتالیس سالہ پاچو کانٹ کچھ دیکھ نہیں سکتے۔ وہ صرف روشنی کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
’ریٹینائٹس پگمینٹوسا‘ نامی بیماری نے ان کی بینائی کو متاثر کیا۔ 2005ع میں وہ نابینا ہو گئے تھے
لیکن ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد معلوم ہو جاتا ہے کہ اس بیماری نے ان کی بینائی تو چھین لی، لیکن ان کی شخصیت کی توانائی کو متاثر کرنے میں ناکام رہی
ریسنگ سوٹ میں ملبوس پاچو کانٹ کہتے ہیں ”جب میں نابینا ہوا تو میں نے فیصلہ کیا کہ یہ مجھے روک نہیں پائے گی“
جب ان کو گاڑی چلانا ترک کرنا پڑا تو وہ بتاتے ہیں کہ یہ ان کے لیے مشکل مرحلہ تھا لیکن انہوں نے زندگی کو اپنے شوق کے گرد ازسرنو ڈھالنے کا ارادہ کیا
وہ بتاتے ہیں ہیں کہ ان کو بچپن سے ہی گاڑیوں سے محبت تھی
لیما میں ان کی ایک ورکشاپ ہے اور وہ ساتھ ساتھ گاڑیاں اور ٹرک بیچنے اور خریدنے کا کام بھی کرتے ہیں
اپنے دفتر میں وہ فون کے وائس اسسٹنٹ کی مدد سے اتنے متحرک انداز میں سودے طے کرتے ہیں کہ کبھی کبھی تو یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ کیا وہ واقعی نابینا ہیں بھی یا نہیں؟
لیکن یہ شک اس وقت غائب ہو جاتا ہے، جب وہ ورکشاپ میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ اپنے دوست پیرو پولار کے کندھے کو پکڑ کر چلتے ہیں
دراصل یہ کہانی پیرو کے بغیر ادھوری ہے۔ جب انہوں نے ایک ساتھ مقامی ریسوں میں حصہ لینا شروع کیا تو پیرو گاڑی چلاتے تھے جبکہ پاچو گاڑی کے کام کاج، مرمت اور حکمت عملی کو دیکھتے تھے
پاچو کو یاد ہے کہ کس طرح سے وہ بھی ریس میں گاڑی چلانے لگے۔ ”ایک دن میں نے پیرو سے کہا تمہاری کار میں چلانا چاہتا ہوں، اس نے کہا ضرور، جب چاہو۔“
یہ ایک عجیب خیال تھا لیکن کچھ تیاری کے بعد یہ حقیقت بن گیا۔ پیرو ہمیشہ ساتھ بیٹھ کر پاچو کو بتاتے ہیں کہ کس وقت کیا کرنا ہے
ریس کے سرکٹ پر تیاری کی مدد سے انہوں نے اشاروں کی ایک ایسی زبان تخلیق کر لی ہے کہ انجن کے شور میں بھی جب پاچو کو آواز سنائی نہیں دے سکتی، وہ ان کی بات پر عمل کر سکیں
مثال کے طور پر جب پیرو ان کی کلائی کو چھوتے ہیں تو پاچو کو علم ہو جاتا ہے کہ اب بریک لگانی ہے۔ اگر وہ دو بار چھوتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ زور سے بریک لگانی ہے
ایمرجنسی کے لیے بھی ایک مخصوص اشارہ طے ہے
پاچو نے قہقہ لگاتے ہوئے بتایا ”جب وہ میرے بازو پر مسلسل ہاتھ مارے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ پاگل آدمی رک جاؤ، ورنہ ہم دونوں مر جائیں گے“
پریکٹس کے بعد پاچو نے ریس میں حصہ لینا شروع کیا تو ان کے مطابق وہ لوگوں کو دکھانا چاہتے تھے کہ ’کوئی مشکل بڑی نہیں ہوتی۔‘
اب پاچو کو لاچوٹانا ریس سرکٹ کا دو عشاریہ تین کلومیٹر کا ٹریک یاد ہو چکا ہے۔ ان کا اگلا چیلنج کسی ایسے مقام پر ریس کرنا تھا، جو ان کے لیے انجان ہو
ایکواڈور کے ایک حالیہ دورے کے دوران وہ یہ چیلنج بھی پورا کر چکے ہیں
پاچو کہتے ہیں ”وہاں بہت سے شائقین تھے اور میرے لیے یہ ایک متاثر کن تجربہ تھا“
لاچوٹانا سرکٹ پر ان کا سب سے تیز چکر ایک منٹ تیس سیکنڈ کا ہے۔ وہ بتاتے ہیں ”یہ تیز گاڑی بھگانے کی بات نہیں بلکہ لوگوں کو یہ پیغام دینے کی بات ہے کہ آپ کبھی رک نہیں سکتے، آپ کو آگے ہی چلنا ہے“
پاچو ایک کاروباری آدمی ہیں، گاڑیوں کے شوقین اور ایک باپ بھی ہیں۔ ان کی پندرہ سالہ بیٹی اس وقت سے ان کے ساتھ رہتی ہے، جب ان کی اپنی بیوی سے علیحدگی ہو گئی تھی
جب ان کی بیٹی پیدا ہوئی تو ان کی بینائی جا چکی تھی۔ وہ کہتے ہیں ”اگر میری بینائی بحال ہوئی تو میں سب سے پہلے اپنی بیٹی کو دیکھوں گا“
لیکن پاچو کو ریٹینا ٹرانسپلانٹ درکار ہے، جو دستیاب نہیں
تاہم وہ مایوس نہیں، انہیں امید ہے کہ ایک دن سائنس کی مدد سے ان کی بینائی بحال ہو جائے گی
وہ کہتے ہیں ”میں اپنی بیماری کی وجہ سے رک نہیں سکتا اس لیے میں ہر دن بہتر باپ، بہتر شخص اور بہتر بزنس مین بننے کی کوشش جاری رکھتا ہوں۔۔“