مُنے اور اُن کے ابّا

بابر اعوان

یادش بخیر! منو بھائی نے ادبِ لطیف میں اس اصطلاح کو تبدیل کرنے کا معرکہ سر کیا۔ منو بھائی سے پہلے یہ اصطلاح بھاگوان خواتین استعمال کیا کرتی تھیں۔ میرے ایک کلاس میٹ اور اُن کے بھائیوں نے پاکستان میں جدید ریستوران کی چَین بنائی۔ میرے کلاس فیلو چند سال یہ چَین چلانے کے بعد لندن شفٹ ہوئے، جہاں سے اُن کی والدہ کا تعلق تھا۔ یہ ہمارے گریجوئیشن کے دن تھے۔ اسلام آباد کا ایف سیکٹر ابھی پلاٹستان تھا، جبکہ سیکٹر جی سِکس اور جی سیون سرکاری ملازمین کے کواٹروں سے بھرے ہوئے تھے۔ صرف میلوڈی سینما کے مغرب کی جانب سیکٹر جی سِکس میں اَسی پچاسی پرائیویٹ بنگلے تعمیر شدہ تھے

ہم اپنے کلاس فیلو کے گھر جاتے تو اُن کی والدہ کہتیں: بچے اُوپر جاؤ اور مُنے کے ابّا کو سلام کر کے آؤ۔ وہ مرحوم پاکستان کے اولین سٹی ڈویلپرز میں سے ایک تھے۔ پوٹھوہار اور اُس سے ملتے جلتے علاقوں میں خاوند کے لیے خواتین ’وہ‘ کا لفظ استعمال کرتی تھیں۔ پھر منو بھائی کا سونا چاندی آ گیا۔ پی ٹی وی کی اس بلاک بسٹر ڈرامہ سیریز نے ’منے کے ابّا‘ کی جگہ‘ اُن کے اور کُن کے‘ والا ون لائنر گلی گلی پہنچا دیا۔ 1977ع والے مارشل لاء میں جو نو ستارے آسمانِ اقتدار پر طلوع ہوئے تھے، اُن کو طعنہ دینے کے لیے اپوزیشن کے لوگوں نے ’مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر‘ کی جگہ ’مُنے کے ابّا‘ کی گود میں بیٹھنے والے کی ڈکشن استعمال کرنا شروع کی تھی۔ سال2020-21ع کے دھرنوں کے دوران پی ڈی ایم کے مولانا صاحب نے ’مُنے کے ابّا‘ کی اصطلاح کے استعمال کو اپنے گھر ڈی آئی خان سے انتخابی شکست کھانے کے بعد سے فروغ دیا

صاحبِ طرز فکاہیہ شاعر اور قلم کار خالد مسعود خان صاحب نے بھی ’منے کے ابّا‘ پر چابک دستی اور مہارت سے یوں طبع آزمائی کی:

اُس کا رشتہ نہ ہونے کا باعث اُس کا ابّا تھا،
سب حریان تھے اُس نے ایسا ابّا کہاں سے لھبّا تھا۔

سمجھ نہیں آتی، بتی دھاریں وہ کس سے بخشائے؟
اُس کی ماں تو فیڈر تھی اور سُکے دودھ کا ڈبّہ تھا۔۔

ان دنوں بھی کچھ مُنے اور مُنیاں ایسی پائی جاتی ہیں، جن کو سیاست اور ثروت اپنے اپنے ابّا کے ذریعے سے ملی۔ وہ بھی اس بڑی مقدار میں کہ جو ساری بازیافت ہو جائے تو پاکستان کا خزانہ کئی بار بھرا جا سکتا ہے۔ مُنے کے ابّا جینیاتی طور پر علیحدہ علیحدہ، اپنے اپنے ہوتے ہیں، لیکن سیاسی طور پر جہاں جہاں تیز رفتار سیاسی ترقی پائی جائے تو غور سے دیکھنے سے یہ راز کھل جاتا ہے کہ سیاسی مُنے اور منیاں تو علیحدہ علیحدہ گھرانوں سے آتے ہیں مگر وہ ایک ہی سیاسی ابّا کے در کے قیدی ہیں۔ در سے دروازہ یاد آتا ہے اور ساتھ یہ بھی کہ دروازے کو انگریزی میں گیٹ کہتے ہیں۔ دروازہ نمبر تین کراس کر جائیں تو گیٹ نمبر چار آ جاتا ہے۔ ان دنوں معروضی حالات میں کئی قسم کے ابّا دریافت ہو چکے ہیں، مثلاً:

مُنے کے معاشی ابّا: عالمی سطح پر فاقہ مستی کا شکار، قرض کی مَے پینے والوں کے لیے آئی ایم ایف معاشی ابّا کارول پلے کرتا ہے، جس کے پتا نہیں کس نمبر کے گیٹ پر فُقرے اور تھڑیے بار بار سَر جھکائے اور جھولی پھیلائے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کی حالت نالے میں گرے ہوئے جہاز جیسی ہوتی ہے، جسے معاشی ابّا کا قرضہ لے کر بار بار اقتدار کا نشہ کرنے کی عادت پکی ہو گئی ہو۔ نہ اُسے بچوں کی فکر ہے اور نہ ہی ماں باپ کی، اڑوس پڑوس تو دور کی بات ہے۔ اسے اپنے نشے کی لت کے علاوہ نہ مزدور دکھائی دیتے ہیں نہ کسان اور نہ اسکول کالج جانے والے نو نہاد بچے۔۔ اُس کے سیاسی نشے کی تسکین کے لیے قرض کی شرابوں میں مزید قرض کی شرابیں ڈالی جاتی ہیں تاکہ شاعر کا یہ خواب مسلسل پورا ہوتا رہے ”نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں‘‘ اب تو ان مُنوں نے تیرہ چودہ مرتبہ کئی جگہ سے اتنا نشہ حاصل کر لیا ہے، جس کی کاک ٹیل دنیا کے کئی براعظموں میں پہنچائی جا چکی ہے

منے کے عالمی ابّا: جب سے دنیا عالمی گاؤں بنی ہے اور اس گاؤں کے چاچو، گوربا چوف نے وڈّے بائو جی کے سامنے گھٹنے ٹیکے، تب سے سیاسی ابّا اپنے مُنے مُنیوں کو ذاتی باڑے سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ سال 2022ء میں مُنے کے سیاسی ابّا نے روس کے تیل بیچنے پر پابندی لگا دی۔ جس جس نے یہ سستا ترین تیل خریدنے کی کوشش کی، اُس کو اُلٹے کان پکڑوا کر اُٹھک بیٹھک کروائی گئی۔ اپنے محلے کے ایک پیشہ ور بھکاری نے کہا، عمران خان کو روس سے تیل لینے کی کیا ضرورت تھی۔ اس دوران روس نے ڈالر کے منہ پر طمانچے مارنے شروع کر دیے

صرف ایک سال کے عرصے میں دو درجن سے زیادہ اہم ملکوں نے ڈالر کے بجائے روبل میں روس سے تیل خریدنا شروع کر دیا۔ سب سے زیادہ تیل ہماری بستی کے شرقی محلے میں جنجال پورہ والوں نے خریدا۔ سال 2023ء میں بھکاری نے سفاری سوٹ پہنا، سر پر رشین ہیٹ رکھا، گلے میں امریکن ٹائی باندھ لی اور بولا: میں اپنی قوم کے لیے سستا تیل کیوں نہ خریدوں، روس سے سستا تیل خریدنا ہمارا حق ہے۔ وہ روسی تیل خریدنے پر قوم کو بیوقوف بناتے بناتے خود بیوقوف بن گیا۔ اُسے اچھی طرح معلوم ہے، اُس کے پاس تیل خریدنے کے لیے ڈالر موجود نہیں ہیں۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ایک سال میں اُس نے اپنا روپیہ عالمی کرنسی مارکیٹ کی گندی نالی میں پھینک دیا ہے۔ عالمی گاؤں کے بیوپاری اب اُسے ہاتھ لگانے سے کتراتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی، جس طرح تیرہ چودہ پارٹیوں کا بینڈ مل کر مُنے کے ابّا کا نام لینے سے کتراتا ہے۔ ایک مُنے کو دھکا مار کے جنجال پورہ بھیجا گیا تھا۔ وہاں کام تو کوئی نہ ہوا مگر پرنام والا فوٹو سیشن ضرور ہو گیا۔ ایک اور ابّا نے شیر کی ہوا نکلنے کے بعد اپنے مُنے کو جھاڑو بطورِ نشان پکڑا دیا۔
بدلتے ہیں رنگ ابّا جاں کیسے کیسے۔۔

بشکریہ: دنیا نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close