یونان کشتی حادثہ: ’کوسٹ گارڈز نے رسی باندھ کر کشتی کو کھینچا، جس سے وہ الٹ گئی‘ بچ جانے والوں کا بیان

ویب ڈیسک

حال ہی میں یونان کے قریب ایک کشتی کے حادثے میں سینکڑوں تارکین وطن ہلاک ہو گئے تھے، حادثے میں چند بچ جانے والے پناہ کے متلاشیوں نے بتایا کہ یونانی کوسٹ گارڈ کا کشتی کو کھینچنا ممکنہ طور پر حادثے کا باعث بنا

اس حادثے میں بچ جانے والوں نے شمالی افریقہ میں اسمگلروں کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ تالیاں بجاتے ہوئے مچھلی پکڑنے والے ٹرالر میں گھس گئے۔ انہوں نے ڈیک کے اوپر اور نیچے جہنم کے حالات کا ذکر کیا، جس میں کوئی خوراک یا پانی نہیں تھا

پناہ کے متلاشی کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ یہ کشتی ڈوبنے کا المناک واقعہ یونانی کوسٹ گارڈ کی کارروائیوں کی وجہ سے ہوا تھا۔ انہوں نے عدالتی حکام کو اوور لوڈڈ ٹرالر کو کھینچنے کی ایک تباہ کن کوشش کے بارے میں بتایا ہے، جس کی وجہ سے 14 جون کی صبح جہاز الٹ گیا

خبر رساں ادارے رائٹرز کی طرف سے دیکھے گئے شواہد کے مطابق، ”یونانی کوسٹ گارڈز کی جانب سے کشتی کو ٹو کرنے کی کوشش“ کو یونانی عدالتی حکام کو پیش کیے گئے نو بیانات میں سے چھ میں دوبارہ ذکر کیا گیا، جو سانحے کی وجوہات کی تحقیقات کر رہے تھے

خبر رساں ادارے روئٹرز ان پناہ کے متلاشیوں نے اسمگلروں کے ظلم و ستم اور کشتی پر ’جہنم‘ جیسے حالات بیان کیے، جہاں کھانے کو خوراک اور پینے کو پانی تک میسر نہیں تھا

حادثے میں زندہ بچ جانے والے شامی شہری نے بتایا کہ جب وہ اور دیگر پناہ کے متلاشی ایڈریانا پر سوار تھے تو یونانی کوسٹ گارڈ کے جہاز نے ان کی کشتی سے رسی باندھی اور رفتار کو بڑھاتے ہوئے اسے کھینچنا شروع کر دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس عمل میں پناہ کے متلاشیوں کی کشتی بائیں اور دائیں جھکی اور پھر وہ الٹ گئی۔

تین دیگر گواہوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ ایڈریانا کے الٹنے کی وجہ کیا ہے۔

روئٹرز نے ان نو زندہ بچ جانے والوں کے نام شائع نہیں کیے جنہوں نے عدالتی کارروائی میں اپنے بیانات درج کرائے

چھ گواہوں کے بیانات یونانی کوسٹ گارڈ اور حکومت کی طرف سے دیے گئے عوامی بیانات سے متصادم ہیں، جن میں کہا گیا تھا کہ کشتی کو کھینچنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی تھی اور یہ اس وقت الٹ گئی، جب کوسٹ گارڈ اس سے تقریباً 70 میٹر کے فاصلے پر تھے

جہاز رانی کی وزارت نے روئٹرز کو بتایا کہ وہ ان امور پر تبصرہ نہیں کر سکتی جو عدالتی کارروائی اور جاری تحقیقات کا حصہ تھے

نو زندہ بچ جانے والوں نے 17 اور 18 جون کو اپنے بیانات تفتیش کاروں کو درج کرائے، جو حادثے کی ابتدائی تحقیقات کر رہے تھے

’ٹوئیگ‘ (رسی باندھنے) کے ذریعے کشتی الٹنے کا واقعہ دو دیگر زندہ بچ جانے والوں نے بھی بیان کیا گیا تھا، جن کا الگ الگ انٹرویو روئٹرز نے کیا تھا، تاہم یونانی حکام کی طرف سے انتقامی کارروائی کے خوف سے انہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی تھی

تارکین وطن کی کشتی کو رسی سے باندھ کر کھینچنے کا واقعہ دو دیگر زندہ بچ جانے والوں نے بھی بیان کیا، جن کا الگ الگ انٹرویو رائٹرز نے کیا تھا اور یونانی حکام کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے انہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کو کہا۔ ان میں سے ایک، جس نے اپنا نام صرف محمد بتایا، نے خوفناک لمحات بیان کیے، جب تارکینِ وطن کی کشتی ایڈریانا الٹ گئی، جو اس کے بقول اس وقت ہوا، جب کوسٹ گارڈ نے کشتی کو کھینچنا شروع کیا

بچ جانے والے مسافر نے بتایا ”انہوں نے ہماری کشتی کو تیزی سے کھینچ لیا اور کشتی الٹ گئی۔ کشتی نے دائیں، بائیں ہچکولے کھائے اور پھر دائیں الٹ گئی۔ لوگ ایک دوسرے پر گرنے لگے۔۔ لوگ ایک دوسرے کے اوپر تھے، لوگ چیخ رہے تھے، لوگ ایک دوسرے کو پکڑے ہوئے تھے اور ڈوب رہے تھے۔ ہر طرف رات کی تاریکی تھی اور لہریں تھیں۔ یہ خوفناک منظر تھا“

15 جون کو کوسٹ گارڈ کے ترجمان نے مقامی میڈیا کی رپورٹس کا جواب دیتے ہوئے عوامی طور پر اس بات کی تردید کی تھی کہ کوسٹ گارڈ کے جہاز نے کسی بھی وقت ایڈریانا کو باندھ کر کھینچنے کی کوشش کی تھی

لیکن ایک دن بعد ہی کوسٹ گارڈ نے اپنے پہلے بیان میں ترمیم کرتے ہوئے کہا کہ ان کے جہاز نے ایک رسی ایڈریانا کے ساتھ جوڑی تھی تاکہ اسے بات چیت کے لیے قریب آنے میں مدد ملے۔ تاہم کوسٹ گارڈ نے اس بات سے انکار کیا کہ بعد میں ٹرالر کو کھینچنے کی کوشش کی تھی

یونانی کوسٹ گارڈ کے ایک ریٹائرڈ ایڈمرل نیکوس سپانوس نے روئٹرز کو بتایا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ کوسٹ گارڈ کے جہاز نے اس طرح کے خطرناک ہتھکنڈے کی کوشش کی ہوگی

انہوں نے کہا ”ان (کوسٹ گارڈز) کا مقصد جہاز کی مدد اور صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ایک بہتر رابطہ قائم کرنا تھا۔ یہ میری سوچ ہے کیوں کہ اگر وہ اسے یا کوئی اور چیز کو کھینچنے کی کوشش کرتے تو یہ بہت خطرناک ہوتا“

 ‘کوئی مدد نہیں، اٹلی جاؤ’

اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کا کہنا ہے کہ ایڈریانا یونان کے سرچ اینڈ ریسکیو کے دائرہ اختیار کے اندر بین الاقوامی پانیوں میں پائلوس کے جنوب مغرب میں 47 میل کے فاصلے پر ڈوب گئی اور اس میں 400 سے 750 کے درمیان پناہ کے متلاشی سوار تھے، جن میں سے زیادہ تر شام، مصر اور پاکستان سے تھے

مجموعی طور پر 104 افراد زندہ بچے لیکن امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ بحیرہ روم کے اس گہرے حصے سے مزید کسی کے زندہ یا مردہ برآمد ہونے کا امکان نہیں ہے

کوسٹ گارڈ کے جہاز کا لاگ بھی عدالتی حکام کو پیش کیا گیا تھا اور شواہد کے مطابق کوسٹ گارڈ کے جہاز نے ایڈریانا کے قریب پہنچنے پر دو گھنٹے کے وقفے سے دو واقعات کی تفصیلات دی تھیں

رات 11:40 پر لاگ میں بتایا کہ 13 جون کو یونانی جہاز ٹرالر کے قریب پہنچا، جس کا انجن خراب تھا اور کشتی کو رسی سے باندھ دیا تاکہ وہ قریب آ سکے اور جہاز میں موجود لوگوں سے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بات کر سکے اور یہ دیکھنے کے لیے کہ انہیں مدد کی ضرورت تو نہیں

اس لاگ کے مطابق، جس میں کہا گیا تھا کہ ایڈریانا کا انجن پھر سے شروع ہوا اور وہ مغرب کی طرف چلا گیا، یونانی جہاز میں موجود لوگوں نے ’کوئی مدد نہیں‘ اور ’اٹلی جاؤ‘ جیسے نعرے لگائے

پھر صبح 1:40 بجے کوسٹ گارڈ کے جہاز کو آپریشن سینٹر نے ٹرالر پر واپس آنے کی ہدایت کی تاکہ ایڈریانا کی حرکت بند ہونے کے بعد اس کی حالت کا معائنہ کیا جا سکے

لاگ اِن کے مطابق کوسٹ گارڈ کا جہاز ایڈریانا سے تقریباً 70 میٹر کے فاصلے پر پہنچا اور بہت زیادہ چیخ و پکار سنائی دی

 اور سات منٹ کے اندر اندر ٹرالر الٹ گیا

زندہ بچ جانے والوں کے مطابق، ایڈریانا 10 جون کے قریب لیبیا کے قصبے توبروک میں یا اس کے قریب ایک ساحل سے روانہ ہوئی۔ زندہ بچ جانے والے محمد نے رائٹرز کو بتایا کہ سوار ہونے سے پہلے، اسمگلروں نے ان کا سامان چھین لیا اور پینے کے پانی کی بوتلیں باہر پھینک دیں تاکہ مزید لوگوں کے لیے جگہ بنائی جا سکے

شامی تارکِ وطن نے عدالتی حکام کو بتایا کہ کشتی میں ہر مسافر کے پاس صرف 40 سینٹی میٹر جگہ تھی

تمام 11 زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ انہوں نے اس سفر کے لیے ساڑھے چار ہزار اور چھ ہزار ڈالر کے درمیان ادائیگی کی اور اسمگلروں نے انہیں بتایا تھا کہ وہ تین دن میں اٹلی پہنچ جائیں گے

تین زندہ بچ جانے والوں نے حکام کو بتایا کہ انہوں نے بیرونی ڈیک پر محفوظ سمجھی جانے والی جگہوں کے لیے پچاس سے دو سو یورو تک اضافی ادائیگی کی

وہ ان ہزاروں لوگوں میں شامل تھے، جو اس سال شمالی افریقہ سے کشتیوں میں سوار ہو کر جنوبی یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے

یورپی یونین کی سرحدی ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق وسطی بحیرہ روم کی زیادہ ’بے قاعدہ سرحدی‘ کراسنگ زیادہ تر تیونس اور لیبیا سے شروع ہوتی ہیں اور 2023 کے پہلے پانچ مہینوں میں پتہ چلا کہ 50 ہزار افراد ان سرحدی کراسنگ تک پہنچے جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں 160 فیصد زیادہ ہے

یونان کے قریب اس سانحے کے ایک ہفتے بعد اسپین کے کینری جزائر کی طرف جانے والی ڈنگی کے ڈوبنے سے تیس سے زائد پناہ کے متلاشیوں کی اموات کا خدشہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close