پاکستان میں ہونے والی پہلی ’ڈجیٹل مردم شماری‘ کے الفاظ سننے میں تو بھلے لگتے ہیں لیکن اس کے بارے دیگر تنازعات کے ساتھ ساتھ دلچسپ بات یہ بھی سامنے آئی کہ اکیسویں صدی میں معدنی وسائل اور دولت سے مالامال صوبے بلوچستان کی حالت یہ ہے کہ وہاں کئی علاقوں میں سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے مردم شماری کرنے والے اہلکاروں کو اونٹوں پر سفر کرنا پڑا
اونٹوں پر سوار سرکاری اہلکار اراضی کے لحاظ سے سب سے بڑے اور پسماندہ صوبے بلوچستان کے دور دراز علاقے میں لکڑی سے بنے ان چند گھروں تک بڑی مشکل سے پہنچے
وسطی بلوچستان کا یہ علاقہ جہاں سڑکوں، بجلی کی لائنوں اور ٹی وی سگنلز کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ یہ بنجر بستی سرکنڈوں سے بنی ان پانچ جھونپڑیوں پر مشتمل ہے، جس کا کوئی نام نہیں ہے۔ یہاں بمشکل پندرہ خانہ بدوش آباد ہیں۔ یہ لوگ چرواہے ہیں
مقامی مردم شماری کے نگراں افسر فراز احمد نے بتایا ”ہمیں کئی گھنٹوں کی مسافت کرنی پڑتی ہے۔ یہاں تک کہ ہمیں ان لوگوں کے درمیان پہاڑوں میں ہی دن گزارنا پڑتا ہے‘‘
شہروں اور قصبوں میں مردم شماری کرنے والی ٹیمیں موٹر سائیکلوں پر گھر گھر گئیں۔ تاہم بلوچستان کے دیہی علاقوں میں معاملات بہت مختلف ہیں۔ یہاں کی خستہ حال پگڈنڈیوں پر سفر کرنا ایک کٹھن کام ہے۔ اکثر اوقات یہ مشکل راستے بھی پہاڑوں تک پہنچنے سے قبل ہی اختتام پذیر ہو جاتے ہیں
اس تمام تر صورتحال میں اونٹوں پر سفر کرنا ہی ایک واحد حل رہ جاتا ہے۔ مردم شماری کرنے والے محمد جنید مری نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 210 کلومیٹر مشرق میں واقع ضلع کوہلو، جہاں قریب ترین قابل استعمال سڑک پر اونٹ کے ذریعے ایک گھنٹہ کی مسافت کے بعد پہنچنا ممکن ہے، سے خبر ساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ”یہاں کے لوگوں کو اپنی تفصیلات بتانے کے لیے قائل کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے‘‘
انہوں نے کہا ”کبھی کبھی تو یہ مضحکہ خیز لگتا ہے۔ چونکہ مردم شماری کی ہر ٹیم کے ساتھ ایک حفاظتی دستہ بھی ہوتا ہے اور یہاں کے لوگ سکیورٹی اہلکار دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔‘‘
چونتیس سالہ احمد کے اندازے کے مطابق کوہلو کے باسیوں میں سے تقریباً دس فیصد کے آس پاس ایسے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں، جہاں تک گاڑی کے ذریعے رسائی ممکن نہیں ہے اور وہاں تک جانے کے لیے اونٹ ہی واحد سواری ہو سکتی ہے
ان اونٹوں کو ایک ہزار فی دن کے حساب سے کرائے پر لیا جاتا ہے۔ اس کرائے میں اونٹ کے ساتھ ساتھ اونٹ بان بھی شامل ہوتا ہے
پاکستان مختلف زبانیں بولنے والا کثیر القومی ملک ہے، جس کی کل آبادی پچھلی مردم شماری کے مطابق 207 ملین تھی، اب ایک اندازے کے مطابق تقریبا 220 ملین کے قریب ہے۔ واضح رہے کہ اس مردم شماری سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو اگلے انتخابات میں حلقہ بندیوں کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا، اس لیے اس وقت آبادی کا صحیح تعین ملک کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے
بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا تاہم سب سے کم آبادی والا صوبہ ہے۔ یہ قدرتی وسائل سے مالا مال ایک ایسا خطہ ہے، جس میں غربت نے ہر سو پنجے گاڑھ رکھے ہیں
لیکن صرف غربت اس صوبے کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس خطے میں طویل عرصے سے جاری شورش بھی یہاں کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ بلوچستان کے عوام کو وفاق سے کئی شکایتیں ہیں، جن میں سے ایک بلوچستان سے حاصل کردہ دولت کو منصفانہ طور پر تقسیم کرنے میں ناکامی ہے
جیسے ہی مری اور احمد ایک اونٹ پر بستی کے قریب پہنچتے ہیں ان کے ساتھ ایک سکیورٹی گارڈ بھی ہوتا ہے، جس کے ہاتھ میں ایک مشین گن بھی موجود ہے۔ وہاں کے نوجوان انہیں مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں
احمد کے مطابق مردم شماری کے بارے میں بلوچستان کے لوگوں میں آگاہی کا فقدان ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”وہ ہم پر بھروسہ نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں دھوکے میں رکھ رہے ہیں۔‘‘
ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ پاکستان کی مردم شماری کو ٹیبلٹ پر ڈیجیٹل طریقے سے مرتب کیا جارہا ہے، لیکن پاکستان کے کئی لسانی اکائیوں کی جانب سے مردم شماری کے بارے میں مختلف شکایات سامنے آئی ہیں
بلوچستان کے ایک پہاڑی علاقے سے تعلق رکھنے والے تریپن سالہ میر خان نے پوچھا ”مردم شماری سے ہمیں کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ ہمیں کچھ نہیں ملے گا۔ بااثر لوگ وہ سب کچھ چھین لیتے ہیں جو حکومت سے ہمیں ملے گا‘‘
ان کے ایک اور رشتے دار نے برہم لہجے میں کہا، ”ہمیں تو حکومت کی جانب سے بھی کوئی امداد کی امید نظر نہیں آتی‘‘
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاستدان ووٹ مانگنے تو آتے ہیں لیکن اس کے بعد اگلے انتخابات تک کبھی ان کا دیدار نہیں ہوتا
تاہم مقامی قبائلی رسم و رواج کے مطابق ذاتی تفصیلات کے تبادلے اور ’حال احوال‘ کے بعد یہ قبائلی لوگ مردم شماری کے لیے پوچھے جانے والے ان ہچیس سوالات کے جوابات دینے پر راضی ہو گئے
پاکستان میں مردم شماری میں خامیوں پر ماہرین کی تنبیہ
مختلف حلقوں کی جانب سے پاکستان کی پہلی ڈجیٹل قومی مردم شماری غلط تعداد کی شکایات کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے
دو مئی تک پاکستان کی کل آبادی 240 ملین بتائی گئی جو کہ سن 2017 کی آخری قومی مردم شماری سے 12.55 فیصد زیادہ ہے۔ تاہم ادارہ شماریات پاکستان کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ تعداد ابھی تک عارضی ہے
ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ غلط مردم شماری ایک اور بحران کو جنم دے سکتی ہے اور اس کے خلاف ممکنہ مظاہرے پہلے سے ہی مشکلات کی شکار حکومت کو مزید خطرے میں ڈال سکتے ہیں
پاکستانی عوام نے حکومت کی جانب سے حتمی نتائج جاری کرنے سے پہلے مزید شفاف مردم شماری کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان میں ساتویں قومی ہاؤسنگ اینڈ پاپولیشن مردم شماری کا فیلڈ آپریشن 15 مئی کو مقررہ تاریخ میں چھ بار نظر ثانی کے بعد ختم ہوا
اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے ریسرچ فیلو شاہد محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 86 فیصد سے زیادہ وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ اگر مردم شماری کے دوران حساب کتاب غلط ہوا، تو یہ تقسیم بھی ناانصافی پر مبنی ہوگی
واضح رہے کہ پارلیمنٹ میں نشستیں بھی آبادی کی بنیاد پر مختص کی جاتی ہیں
سیاسی جماعتیں اور کارکن یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ بہت سے علاقے مردم شماری سے باہر رہ گئے اور خاص طور پر پاکستان کے ان دور دراز علاقوں کو چھوڑ دیا گیا جہاں طالبان کے دوبارہ ابھرنے سے نمٹنے کی کوشش کی جاری ہے۔ ایک تشویش یہ بھی ہے کہ ملک کے قدامت پسند علاقوں میں بہت سی خواتین کو شمار ہی نہیں کیا گیا
بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک کارکن یاسمین لہری نے بتایا کہ ان کے یہاں بہت سے علاقے سیکورٹی کے مسائل سے دوچار ہیں اور وہاں مردم شماری کے لیے اعداد و شمار جمع کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے
انہوں نے کہا، ”قبائلی معاشرے میں خواتین ان مردوں سے بات نہیں کر سکتیں جن کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ مردم شماری کا زیادہ تر عملہ مرد تھا، اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ بہت سی خواتین کو بھی درست طریقے سے شمار نہیں کیا گیا۔“
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ مردم شماری کے حتمی نتائج صوبے کی آبادی کی درست عکاسی نہیں کریں گے: ”اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں وفاقی وسائل کا حصہ کم ملے گا، جس کے نتیجے میں ترقی کم ہوگی۔“
انہوں نے اس بات کی جانب بھی نشاندہی کی کہ درست مردم شماری نہ ہونے کی صورت میں حکومت موثر ترقیاتی منصوبہ بندی بھی نہیں کر پائے گی۔