یہ بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب میں پروان چڑھنے والی محبت کی ایک دلچسپ کہانی ہے، جو حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر کافی زیرِ بحث بھی رہی۔ آٹھ سال پہلے شروع ہونے والے ایک غیرمعمولی رشتے کی کہانی، جسے نہ تو سرحدیں جدا کر سکیں، نہ مذہب اور نہ ہی بھارت، پاکستان کے تعلقات میں موجود روایتی تلخی
اس کہانی کی ابتدا سنہ 2015ع میں بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وکیل نمن لوتھرا اور پاکستان کے شہر لاہور سے تعلق رکھنے والی شہلین جاوید کے درمیان ہونے والی اُس ملاقات سے ہوئی، جس کا انجام لگ بھگ آٹھ سال بعد یعنی مئی 2023 میں ان دونوں کی شادی پر ہوا۔ نمن ہندو ہیں جبکہ شہلین مسیحی چنانچہ ان دونوں کی شادی ہندو اور مسیحی رسوم و رواج کے مطابق ہوئی
گذشتہ آٹھ سال کے دوران یعنی شادی کے بندھن میں بندھنے سے قبل نمن اور شہلین نے بہت سی مشکلات پر قابو پانے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ اور پھر وہ دن آیا، جب لاہور کی شہلین شادی کے لیے انڈیا پہنچیں اور اب شادی کے بعد انہوں نے یہیں رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے
اپنی والدہ اور دادی کے ساتھ لاہور جانے والے نمن لوتھرا کی سنہ 2015 میں شہلین سے ملاقات ہوئی تھی۔ بھارتی شہر بٹالہ کے رہائشی نمن کے دادا کا تعلق پنجاب کے شہر لاہور سے تھا، جو ہندوستان کے بٹوارے کے بعد بھارت منتقل ہو گئے تھے اور اسی لیے نمن نا تو پاکستان کو اپنے لیے اجنبی سمجھتے ہیں اور نہ ہی یہاں بسنے والوں کو
نمن پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں، شہلین کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ”میرے نانا نانی کا تعلق پاکستان سے ہے، مگر تقسیم کے بعد انہوں نے بھارت منتقل ہونے کا فیصلہ نہیں کیا اور وہ وہیں پاکستان میں ہی رہے۔ مگر دادا دادی جو تقسیم سے پہلے پنجاب میں ہی رہتے تھے انھوں نے 1947 کے بعد بھارت ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ یہاں آ گئے“
نمن کے مطابق سنہ 2015ع میں وہ اپنی والدہ اور دادی کے ساتھ پاکستان اپنے رشتہ داروں سے ملنے لاہور گئے جہاں ان کی پہلی ملاقات شہلین سے ہوئی
شہلین ان کی دور پار کے رشتہ داروں میں سے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد نمن بھارت واپس آ گئے لیکن شہلین سے آن لائن رابطے میں رہے اور جلد ہی یہ رابطہ محبت میں بدل گیا
اہل خانہ کی رضامندی سے دونوں کی منگنی سال 2016 میں ہوئی اور یہ تقریب پاکستان میں منعقد ہوئی
شہلین کا کہنا ہے منگنی کے بعد وہ سنہ 2018 میں اپنی والدہ اور خالہ کے ساتھ بھارت گئی تھیں، جہاں ان کی ملاقات نمن کے اہل خانہ سے ہوئی
اگرچہ دونوں خاندان اس رشتے پر راضی تھے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے باعث سرحد عبور کرنا اور اکھٹے رہنا آسان نہیں تھا
سنہ 2018ع میں ہونے والی ملاقات میں دونوں خاندانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کچھ عرصے بعد شادی اور رخصتی کر دی جائے گی
لیکن پہلی مصیبت یہ ٹوٹی کہ سنہ 2019 کے آغاز میں کورونا کی وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بہت سے ممالک نے وبا کے پھیلنے کے خدشات کے پیش نظر اپنی سرحدیں یا تو مکمل بند کر دیں یا انٹرنیشنل سفر پر کڑی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ پاکستان اور بھارت میں بھی یہی کچھ ہوا
بھارت نے بیرونی ممالک سے آنے والی تمام پروازوں پر پابندی لگا دی، چونکہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے باعث پہلے ہی ان ممالک کے درمیان سفر کرنا مشکل ہوتا ہے مگر اس صورتحال کے بعد تو حالات اور بھی سنگین ہو گئی
کورونا کی وبا میں کمی کے بعد دسمبر 2021 میں شہلین کے اہل خانہ نے شادی کی غرض سے بھارت کے ویزے کے لیے درخواست دی لیکن ویزہ نہیں مل سکا
لگ بھگ چھ ماہ بعد یعنی مئی 2022 میں ایک بار پھر ویزا حاصل کرنے کی کوشش کی گئی مگر اس بار بھی اُن کی درخواست مسترد کر دی گئی
تیسری کوشش میں یعنی مارچ 2023 میں خاندان کے صرف تین افراد نے ویزا حاصل کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش کامیاب رہی
شہلین اور اُن کی والدہ کو ویزا مل گیا اور وہ اپریل 2023 میں بھارت پہنچ گئیں
شہلین کہتی ہیں ”صدق دل سے جو چاہا جائے وہ بالآخر مل جاتا ہے۔ جب سے ہماری منگنی ہوئی تھی، تب سے میں نے سوچ رکھا تھا کہ مجھے وہاں جانا ہے۔ میں نے کسی کی بات نہیں سنی، میں نے بس یہی سوچا کہ چاہے کتنی ہی دیر لگ جائے، مجھے بس انتظار کرنا ہے“
جب شہلین اور نمن کا رشتہ طے ہوا اور منگنی ہوئی تو اس کے بعد شادی تک کا فاصلہ طویل تھا۔ اس دوران ٹیلی فون اور دیگر سوشل میڈیا کے ذریعے سے ان دونوں میں رابطہ برقرار رہا۔ مگر اس جوڑے کے درمیان ملاقات کی خواہش موجود رہی
شادی میں تاخیر اور ویزا ملنے میں مشکلات کے باعث ان دونوں کے خاندان دو بار کرتار پور صاحب گئے، جہاں ان کی ملاقاتیں ہوئیں
یہ بات قابل ذکر ہے کہ نومبر 2019 میں سکھوں کے پہلے گرو، سری گرو نانک دیو جی کے 550 ویں یوم پیدائش کے موقع پر پاکستان میں واقع گوردوارہ دربار صاحب کو بھارتی شہریوں کے لیے کھول دیا گیا تھا
نمن لوتھرا کی والدہ یوگیتا لوتھرا کے لیے اپنے بیٹے کی پاکستان شادی کرنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا
یوگیتا کہتی ہیں کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے جاتی تھیں لیکن جب ان کے بیٹے نے پاکستانی لڑکی سے شادی کرنے کی بات کی تو انہیں ایک جھٹکا لگا
وہ بتاتی ہیں ”نمن کے والد بھی ابتدا میں اس شادی کے لیے راضی نہیں تھے۔ بڑا سوال یہ تھا کہ بارات کیسے جائے گی، بہت دوریاں ہیں اور رکاوٹیں ہیں۔ لیکن نمن نے اپنا ذہن بنا لیا تھا، اس لیے ہم بھی اس رشتے پر راضی ہو گئے“
والدہ کے مطابق ”نمن کے والد مان تو گئے مگر انہوں نے یہ شرط رکھی کہ شادی بھارت اور بٹالہ میں ہی ہوگی“
لڑکے کی والدہ کا کہنا ہے کہ رضامندی کے بعد باضابطہ طور پر شہلین کے گھر رشتہ بھیج دیا گیا اور اس سارے کام میں نمن کی دادی، جنھوں نے پاکستان سے ہجرت کی تھی، نے یہ سب کام بہت شوق سے کیا
نمن کی دادی کہتی ہیں کہ ’نمن میرا پوتا ہے اور شہلین میری پوتی۔ جب میں نے یہ رشتہ مانگا تو میں نے نہیں سوچا تھا کہ دونوں بچوں کو (شادی کے لیے) زیادہ دیر انتظار کرنا پڑے گا۔‘
انہوں نے بتایا ”کبھی کبھی رشتہ دار کہتے تھے کہ ایسا ہونا مشکل ہے، کہیں اور رشتہ کر لیتے ہیں، لیکن دونوں بچے اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے اور آج خدا نے دونوں خاندانوں کے گھر خوشیوں سے بھر دیے ہیں“
اپنی بیٹی کی شادی کے لیے پاکستان سے بھارت آنے والی شہلین کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’جب نمن کا رشتہ آیا تو یہ خاندان کے لیے بڑا مسئلہ تھا اور سب نے مل کر اس پر کافی سوچ و بچار کی تھی۔‘
’بہت سے لوگوں نے ہمیں یہ مشورہ دیا کہ بیٹیوں کی شادی گھر کے قریب ہی کرنی چاہیے یعنی ان کا سسرال قریب ہونا چاہیے۔ لیکن دونوں (نمن اور شہلین) میں اتفاق تھا۔‘
شہلین کی والدہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے ویزا حاصل کرنے کے لیے تین بار کوشش کی۔ لیکن تیسری بار بھی صرف شہلین اور مجھے ویزا ملا۔‘
شہلین کی والدہ خوشی سے بتاتی ہیں کہ ’یہاں (بھارت) بھی شادی کی رسومات مسلسل پندرہ دن جاری رہیں اور ہم نے تمام خواہشیں پوری کیں۔‘
بھارت میں سرکاری ملازمت کرنے والے نمن کے والد گروندر پال بھی اب اس شادی سے خوش ہیں
نمن کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ گورداسپور لوک سبھا حلقہ کے رکن پارلیمنٹ سنی دیول اور بٹالہ کے ایم ایل اے امان شیر سنگھ شیری کالسی کی کوششوں سے شہلین اور ان کی والدہ کو ویزا ملنے میں کچھ آسانی ہوئی۔