ایک بین الاقوامی تحقیقاتی ٹیم کی تحقیق کے نتائج کے مطابق گلوبل وارمنگ اور انسانوں کی بلا روک ٹوک سرگرمیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں جھیلیں خشک ہو کر سکڑ گئی ہیں
جمعرات کو موقر جریدے ’سائنس‘ میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ زمین کا تقریباً 87 فیصد میٹھا پانی قدرتی جھیلوں اور آبی ذخائر میں پایا جاتا ہے، جب کہ زیرِ زمین کا صرف تین فیصد پانی میٹھا ہوتا ہے
یہ رپورٹ تقریباً تیس سال کے اعداد و شمار کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ رپورٹ میں پانی کے نظم و نسق کے سلسلے میں مناسب حل تلاش کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے
یونیورسٹی آف کولوراڈو میں ہائیڈرولوجسٹ فینگ فانگ یاو کی سربراہی میں کی گئی تحقیقات کے مطابق 1990ع کی دہائی کے اوائل سے دنیا کی بڑی جھیلیں اور آبی ذخائر سکڑ چکے تھے
ماہرین پر مشتمل ٹیم کا کہنا ہے کہ دنیا کے میٹھے پانی کے کچھ اہم ذرائع میں تقریباً تین دہائیوں سے سالانہ لگ بھگ بائیس گیگا ٹن کی مجموعی شرح سے پانی ختم ہوتا جا رہا ہے
فینگ فانگ یاو کہتے ہیں ”اس میں آدھے سے زیادہ کمی یا ختم ہونے کی بنیادی وجہ انسانوں کے ذریعہ اس کا استعمال یا آب و ہوا میں گرمی میں اضافہ ہے۔ گرمی میں اضافے نے جھیلوں میں پانی کے کم ہونے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔“
محققین نے یہ بھی پایا کہ بارش اور پانی کے بہاؤ میں تبدیلی، تلچھٹ اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے جھیلوں کی سطح آب میں عالمی سطح پر کمی واقع ہوئی ہے
تحقیقاتی ٹیم نے دنیا کی لگ بھگ دو ہزار جھیلوں اور دیگر آبی ذخائر میں پانی کی سطح میں تبدیلی کی پیمائش کی اور اس کے لیے 1992ع اور 2020ع کے درمیان یکجا کیے گئے سیٹلائٹ پر مبنی اعداد و شمار کا استعمال کیا
رپورٹ کے مطابق امریکہ کی میاڈ نامی جھیل پچھلے اٹھائیس برس کے دوران اپنے تقریباً دو تہائی پانی سے محروم ہو چکی ہے
اس تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا کہ غیر پائیدار انسانی استعمال کی وجہ سے وسطی ایشیا میں بحیرہِ ارال اور مشرق وسطیٰ میں بحیرہِ مردار سمیت جھیلیں خشک ہوتی جا رہی ہیں
افغانستان، مصر اور منگولیا میں جھیلیں بڑھتے ہوئے درجہِ حرارت کی زد میں آ گئی ہیں اور اس کے سبب بخارات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتائج سے بچنے کے لیے گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھنا ضروری ہے۔ خیال رہے کہ دنیا اس وقت تقریباً 1.1 ڈگری سیلسیئس کی شرح سے گرم ہو رہی ہے۔