یہ سال 2010 والے مہا سیلاب کے دنوں کی بات ہے، جس میں سندھ کا بیشتر علاقہ ڈوبا ہوا تھا تو ایسے میں ایک نوجوان امریکی خاتون ڈاکٹر، جس کی پیدائش ممبئی کی تھی اور پرورش نیویارک میں ہوئی تھی، پاکستان میں، سندھ پہنچتی ہے۔ ڈاکٹر گیت چینانی کو اس کے گھر والوں نے بتایا تھا کہ وہ سندھ میں جیٹھمل پرسرام کی پڑ پوتی ہے۔ جنہیں ان کے خاندان اور خاندان سے باہر ”دادا“کے نام سے یاد کیا جاتا تھا
گھروالوں نے گیت چینانی کو بس یہ بتایا تھا کہ کوئی تھے دیش بھگت یا فریڈم فائٹر، جو جیل بھی گئے تھے۔۔ گیت چینانی کہتی ہیں ”لیکن کیسے؟ دن رات اپنے دھندوں میں لگے دادا جیٹھمل کے گھروالوں یا کسی کو بھی اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ خاندان کے آدھے لوگ جبرالٹر میں جا کر بسے تھے اور آدھے ہم امریکہ میں“
لیکن جب ڈاکٹر گیت چینانی سیلاب کے متاثرین کی مدد کو سندھ پہنچیں تو انہیں، ان سے، ملنے والوں نے بتایا کہ جیٹھمل پرسرام کئی کتابوں کے مصنف، شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کے شارح، اور سندھی اخبار ہندواسی کے ایڈیٹر تھے۔ وہ ہندوستان پر برطانوی راج کے زمانے میں محض اپنے اخبار میں ایک اداریہ اور اس میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کا ایک شعر لکھنے پر چار برس کی سزائے قید با مشقت پا کر پونا کی یرودا جیل بھیج دیے گئے تھے۔ یہ اداریہ 30 مارچ 1919 کو دہلی میں ہونے والے احتجاج پر پولیس فائرنگ اور پھر اسی سال 13 اپریل کو جلیانوالہ باغ میں بریگیڈیئر جنرل رینالڈ ہیری ڈائر کے حکم پر برطانوی فوج کی طرف سے احتجاجی اجتماع پر چلائی جانے والی گولی کے نتیجے میں ہونے والے قتلِ عام کے خلاف لکھا گیا تھا۔ یہ دونوں ملک گیر سطح کے احتجاج انگریز سرکار کی طرف سے منظور کردہ قانون رولٹ ایکٹ کے خلاف ہندوستانی رہنما ایم۔ کے گاندھی کی اپیل پر کیے گئے تھے۔ رولٹ ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو بغیر مقدمہ غیر معینہ مدت تک قید رکھا جا سکتا تھا
انگریز سرکار نے جیٹھمل پرسرام گلراجانی کے خلاف تعزیراتِ ہند کے مجریہ 124 الف اور سیکشن 153 کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا۔ جس میں 16 مئی 1919 کو انہیں گرفتار کیا گیا۔ فرسٹ کلاس مجسٹریٹ حیدرآباد کی عدالت میں ان پر فرد جرم عائد کی گئی کہ انہوں نے اپنے اخبار میں ایسا اداریہ اور اس میں شاہ لطیف کا شعر، ”آپ جناب سرکار“ یعنی ”ہز میجسٹی کی قانونی برطانوی حکومت“ کے خلاف یورپ اور ہندوستان کی رعایا کے مابین نفرت اور خون خرابے کی ترویج و پرچار کی نیت سے، لکھا اور شائع کیا
برطانوی سرکار نے اس مقدمے میں بڑے بڑے علما، اور شمس العلما کو سرکاری گواہان کے طور پر پیش کیا، جن میں (عدالت کے فیصلہ کے مطابق) سندھی ادب، شعر و نثر کے سرتاج مانے جانے والے مرزا قلیچ بیگ بھی شامل تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جج نے سرکاری گواہان کی گواہی کی مدد سے شاہ لطیف کے اس شعر میں لفظ شراب کے ”ظاہری اور روحانی معنی“ کو ”ممنوعہ شراب“ اور ”مقدس شراب“ میں تقسیم کرتے ہوئے اور اس کی طلب میں شراب کی دکان پر سرفروشوں کی لگی قطار در قطار کو دہلی اور امرتسر کے مظاہرین سے جوڑ کر اسے انگریز سرکار کے خلاف تشدد کے پرچار، بغاوت پر اکسانے اور یورپی اور ہندوستانی رعایا کے مابین نسلی منافرت کو ابھارنے سے تعبیر کیا
اس کے علاوہ جیٹھمل پرسرام کو چار برس قید بامشقت اور ایک ہزا روپے جرمانے کی سزا سنا کر انہیں پونا کی یرودا جیل بھیج دیا گیا۔ پھر سزا کے خلاف اپیل پر چار سال کی سزا دو سال کر دی گئی۔ اس تاریخی مقدمے کو ”ہندواسی بغاوت کیس“ کہا جاتا ہے۔ جیٹھمل پرسرام نے دوران قید ”ترم جو تیرتھ“ یعنی ”جیل کی زیارت“ کے نام سے کتاب لکھی، جو سندھی زبان میں پہلی ’جیل ڈائری‘ ہے۔ یہ جیل ڈائری ناپید ہے لیکن سال 2012ع میں ہندوستان میں شائع ہونے والی سندھی زبان کی ایک کتاب ’کلیات جیٹھمل‘ میں اس جیل ڈائری کے کچھ صفحات بھی ملتے ہیں، جن میں وہ ایک تنگ و تاریک کوٹھری کا ذکر کرتے ہیں، جہاں فرش پر ہر جگہ حشرات الارض کے بل تھے۔ جیٹھمل پرسرام کو اسی تنگ و تاریک کوٹھری میں رکھا گیا تھا کیونکہ وہ اپنے اخبار میں حیدرآباد جیل میں قیدیوں کی حالت زار پر لکھتے رہے تھے
اس ڈائری میں وہ لکھتے ہیں ”یہاں مقصد اپنا دکھڑا رونا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ بیٹھکی حکمران مقامی آبادی سے کتنا بدتر سلوک کرتے ہیں۔“ وہ لکھتے ہیں ”انہیں مشقت کے طور پر سوت کاتنے کو کپاس اور چرخہ دیا گیا تھا۔“ یعنی کہ حسرت موہانی کے بقول ”ہے مشقِ سخن جاری، چکّی کی مشقت بھی۔“ لیکن ٹھیک ایک سال بعد ہندوستان میں تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا گیا تو جیٹھمل بھی رہا ہو کر آ گئے۔ کہتے ہیں کہ حیدرآباد شہر میں ان کا فقیدالمثال استقبال ہوا تھا
اخبار ’ہندواسی‘ پر تو پابندی لگ چکی تھی لیکن ’بھارت واسی‘ اور ’سندھ ہیرالڈ‘ کے نام سے وہ اخبارات نکالتے رہے تھے۔ اگر جیٹھمل پرسرام اپنے اخبار میں ایسا اداریہ نہ لکھتے، ان کو اس پر سزا نہیں ہوتی تو شاہ عبداللطیف بھٹائی اور ان کی شاعری بھی زمانوں تک انگریزی پڑھنے والوں کی دنیا میں شاید ہی متعارف ہو پاتی۔ کیونکہ جیٹھمل پرسرام کو سزا دینے والا جج کوئی اور نہیں، ایچ ٹی سورلی تھا، جو حیدرآباد میں ڈپٹی کلیکٹر اور فرسٹ کلاس مجسٹریٹ تھا
جیٹھمل کو سزا دینے کے بعد سورلی نے اس پر غور و فکر کیا کہ آخر یہ کیسا سندھی شاعر ہے، جس کے شعر کی ایک سطر نے ایک ایڈیٹر کو سزا کھلا دی، تو اس کی شاعری کیسی ہوگی؟ سورلی شاہ عبداللطیف کی شاعری اور اس کی زندگی کے متعلق گہرے مطالعے میں مصروف ہوا اور یہی وجہ تھی کہ سورلی پہلا آدمی تھا، جس نے شاہ عبداللطیف کی شاعری کا انگریزی زبان میں ترجمہ کر کے اسے بیرونی دنیا سے متعارف کروایا۔ یہ کہانی سندھ میں زبانِ زدِ عام و خاص اور ایک طرح سے دیو مالائی داستان بنی ہوئی ہے۔ زبانی کلامی اور تحریری بھی لیکن مصنف اور مورخ اس کہانی پر منقسم ہیں
ممتاز مہر سندھی ادب کے ممتاز نقاد اور ادیب ہیں۔ یہی سوال جب میں نے ان سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا، ”ڈیارام شاہانی ڈی جے سندھ کالج کراچی کے بانیوں اور معماروں میں سے تھے۔ ان کے بیٹے کیولرام، جو خود ایک تھیاسوفسٹ تھے، ان کے ساتھ 1980 کی دہائی میں کلفٹن میں ان کی رہائشگاہ پر اس سلسلے میں میری کئی مجالس ہوئی تھیں۔ انہوں نے خود سورلی کے جج ہونے کا بتایا تھا، لیکن پتہ نہیں کیوں سورلی نے اپنی تصانیف میں جیٹھمل کو سزا دینے کا اعتراف نہیں کیا۔ اسے کرنا چاہیے تھا۔“ لیکن ایچ ٹی سورلی نے اپنی کتاب ”بھٹ کا شاہ عبداللطیف: اس کی شاعری، زندگی اور زمانہ“ میں دو جگہوں پر جیٹھمل پرسرام کے لیے لکھا ہے کہ ”سندھ کی صوفی روح اور اس حوالے سے شاہ عبداللطیف کی شاعری کو سمجھنے والا جیٹھمل پرسرام جیسا سندھ میں کوئی اور نہیں“
ایچ ٹی سورلی کی یہ ایک کتاب اصل میں تین کتابوں پر مشتمل ہے، جو کہ اٹھارویں صدی کے سندھ کے ادبی، سماجی، اقتصادی حالات اور شاہ لطیف کے کلام ”شاہ جو رسالو“ کے منتخب ابیات یا اشعار پر ایک انتہائی گہرا مطالعہ ہے۔ اکیسویں صدی میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کی ایک اور انگریزی زبان کی مترجم ایملی ہائوز جو امریکہ کی ریاست پینسلوانیا میں رہائش پذیر ہیں اور متعدد بار سندھ اور وہاں بھٹ شاہ میں شاہ عبداللطیف کے مزار پر بھی جا چکی ہیں اور اکثر جاتی رہتی ہیں، کا کہنا ہے ”سورلی کی یہ کتاب انتہائی دلکش ہے اور اکثر حوالہ جات کے لیے میری مطالعہ گاہ میں موجود رہتی ہے۔“
حبیب سنائی سندھ پر ایک مشّاق محقق ہیں۔ ان سے جب میں نے ایچ ٹی سورلی میں ایسی تبدیلی کی کہانی کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: ”اگرچہ ایچ ٹی سورلی شاہ عبداللطیف کے پہلے انگریزی مترجم اور سوانح نگار تھے لیکن جیٹھمل پرسرام کے حوالے سے ایسی بات نہ سورلی کی کسی تصنیف میں ہے، نہ جیٹھمل کے خلاف فیصلے میں جج سورلی ملتا ہے۔ البتہ یہ کہانی بہت عام ہے لیکن بس کہانی ہی لگتی ہے“ پھر انہوں نے کہا: ”قوموں کے لئے دیو مالائی داستانیں بھی ضروری ہوتی ہیں“
جیٹھمل بائیس سے زیادہ کتابوں کے مصنف و مترجم تھے۔ جن میں ان کی انگریزی میں شہرہ آفاق کتاب ’سندھ کے سَنت اور صوفی‘ ، ’کارل مارکس کی سوانح عمری‘ اور جرمن شاعر گوئٹے کی ’دی فاؤسٹ’ کا سندھی ترجمہ بھی شامل ہے۔ وہ اپنے دور میں شاہ لطیف کے دو بڑے شارحین میں سے ایک تھے (دوسرے ڈاکٹر گربخشانی تھے)۔ شاہ لطیف کہ جن کی شاعری نے اٹھارویں صدی کے سندھ کے ناگفتہ بہ حالات اور سماجی زندگی میں بھی اپنا تخلیقی سفر جاری رکھا اور اپنے اندر زبان اور خیالات کی ایسی کائنات سموئی جو آج اکیسویں صدی میں بھی حال اور مستقبل کی شاعری لگتی ہے اور یہ کوئی مبالغہ بھی نہیں۔ تقسیم کے دوران جیٹھمل سندھ کے ہندوؤں کے پاس ان کی منتیں کرنے گئے تھے کہ سندھ چھوڑ کر مت جائیں۔ جیٹھمل کا اپنا خاندان ان کی اولاد سمیت بھارت نقلِ وطن کر گیا لیکن جیٹھمل پرسرام سندھ اور نئے ملک پاکستان میں رہے۔ وہ سخت بیمار ہو گئے اور انہیں علاج کے بہانے ممبئی لے جایا گیا۔ جہاں وہ جولائی 1948 کو انتقال کر گئے۔
بشکریہ: وائس آف امریکہ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)