ضلع ملیر میں ندیوں سے ریتی اٹھانے پر مکمل پابندی عائد ہونے کے باوجود ریتی بجری چوری کا سلسلہ رک نہیں سکا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریتی بجری مافیا پچھلے پچھتر سالوں میں اتنی مضبوط اور طاقتور ہو چکی ہے کہ انہیں کوئی قانون روکنے کی طاقت نہیں رکھتا
سندھ انڈیجینئس رائیٹس الائینس اور عوامی ورکر پارٹی کے رہنما حفیظ بلوچ کا کہنا ہے کہ ملیر میں ریتی بجری چوری کے خلاف سندھ صوبائی اسیمبلی نے واضح اور سخت قوانین بنائے، اور ریتی بجری چوری کو روکنے کے لیئے دفعہ 144 نافذ ہے، مطلب قانون کے مطابق ملیر ندی کے اندر ریتی بجری اٹھقنا، مائیننگ کرنا بہت بڑا جرم ہے، پھر بھی ملیر میں سرعام ریتی بجری چوری اور مائینگ جاری ہے. یا تو قانون ریتی مافیا کے خلاف بے بس ہے یا وہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتا
حفیظ بلوچ کہتے ہیں ”ماضی میں دیکھیں تو شھید عبداللّٰہ مراد نے صوبائی اسیمبلی میں اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بہت کوشش اور مخالفت کے باوجود ریتی بجری چوری کے خلاف قوانین بنائے اور خود ملیر ندی میں گشت کر کے ریتی بجری مافیا کو لغام دیا، جہاں یہ دھندا شروع ہوتا تو عبداللہ مراد خود وہاں پہنچ کر بند کرا دیتے، اس عظیم انسان کو شھید کر کے اس کی سزا پورے ملیر کو دی گئی
یاد رہے یہ مافیاز اُس وقت اتنے طاقتور تھے کہ ملیر کے تین تھانوں کے افسران انہی کے کہے پر لگائے جاتے تھے، جن کی مقرری کے احکامات سیدھا وزیراعلیٰ ہاؤس سے ہوتے تھے اور پولیس افسران ان تھانوں میں جانے کے لیئے بولیاں لگاتے تھے، عبداللّٰہ مراد کے شھادت کے بعد یہ مافیاز پھر سے طاقتور ہو چکے ہیں
حفیظ بلوچ کا کہنا ہے ”قوانین اب بھی موجود ہیں مگر عبداللّٰہ مراد نہیں جو ان مافیاز کے سامنے کھڑا ہو ـ
ملیر ندی جو ایک مکمل جیولوجیکل انوائرمنٹ ایکوسسٹم سرکل ہے، اور اسی ملیر ندی کے ارد گرد صدیوں سے انڈیجینئس انوائیرمنٹ اور تہذیب آباد چلی آ رہی ہے، پچھلے پچھتر سالوں سے ملیر ندی سے ریتی بجری نکال کر کنکریٹ کے جنگل بنا کر اس مکمل جیولوجیکل انوائرمنٹ سرکل کو تباہ کیا کر دیا گیا، اور کراچی کو پورے ماحولیاتی نظام کو تباہ کیا گیا ـ کراچی کا پہلے جو درجہ حرارت تیس کے آس پاس تھا اب پچاس کے قریب پہنچ گیا ہے، ہیٹ اسٹروک سے قیمتی انسانوں کی جانوں کا نقصان ہوتا ہے ـ اب بھی ملیر کا بچا گرین زون کراچی کو سانسیں مہیا کر رہا ہے، مگر پچھلے چالیس سال سے اسے بھی تباہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا ”سیکڑوں غیرقانونی ہاؤسنگ اسکیمیں، بحریہ ٹاؤن کراچی، ڈی ایچ اے کراچی سمیت سب ملیر ندی کے ارد گرد بنائے جا رہے ہیں، ایگریکلچرل زمین پر قائم فیکٹریاں پورے ملیر کو تباہ کر رہی ہیں، جو تباہی ہو رہی ہے اس کو اور تیز کرنے کے لیئے ملیر ایکسپریس وے منصوبہ جو صرف چند سرمایہ داروں کے سرمایہ کو تحفظ دینے کے لیئے بنایا جا رہا ہے، اور اسی ملیر ایکسپریس وے کے آڑ میں ریتی بجری کا دھندہ بھی چل رہا ہے، اور اس کی دیکھا دیکھی ریتی بجری مافیا جہاں ملیر ایکسپریس وے نہیں وہاں ریتی بجری مائیننگ کر رہے ہیں
یہ تصاویر ملیر ندی کے اس حصے کی ہیں، جہاں ملیر ایکسپریس وے نہیں ہے، آس پاس ذرعی زمینیں ہیں، ڈیر شریف میں چلنے والے دکے ہیں، اور الارمنگ بات یہ ہے کہ جہاں یہ ریتی بجری مائینگ ہو رہی ہے وہاں چیک ڈیم بھی بنا ہوا ہے ـ
حفیظ بلوچ کہتے ہیں ”یہ سب کچھ سرعام دن رات ہو رہا ہے ـ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مقامی انتظامیہ اور پولیس کے ملی بھگت سے یہ دھندا چل رہا ہے، اور یہاں کے منتخب نمائندوں کے علم میں بھی یہ بات ہے، ان کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔
حفیظ بلوچ نے کہا ”میں ہائی کورٹ سندھ، متعلقہ اداروں اور اعلیٰ افسروں سے گذارش کرتا ہوں کہ اس تباہی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں اور ملیر کے عوام سے التجا ہے کہ وہ اس دھندے کے خلاف آواز اٹھائیں، یہ ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، ہم کو اگر زندہ رہنا ہے اپنے دھرتی کو بنجر ہونے سے بچانا ہے تو اس مافیا کے خلاف جہدوجہد کرنی ہوگی۔“