معاشی حلقوں میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ کے ڈیفالٹ کر جانے کے خطرے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، اگر ایسا ہو جاتا ہے تو اس کے معاشی اثرات یقیناً پوری دنیا پر مرتب ہونگے
یہی وہ صورتحال ہے، جس کے باعث صدر جو بائیڈن اور ایوان نمائندگان کے ریپبلیکن اسپیکر کیون میکارتھی براہ راست ملاقات کر رہے ہیں، تاکہ ملک کے قرض لینے کی حد میں ایسا وقت آنے سے قبل اضافہ کیا جا سکے، جب حکومت کے پاس کیش ختم ہو جائے اور وہ اپنی ادائیگیاں کرنے کے قابل نہ رہے
دونوں فریق یکم جون سے پہلے بجٹ کے بارے میں ایک سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یعنی اُس تاریخ سے پہلے جب امریکی وزیر خزانہ جینٹ یلین کے مطابق، سمجھوتہ نہ ہوا تو ملک ڈیفالٹ کر سکتا ہے
قرضے کی حد سے کیا مراد ہے؟
امریکہ میں حکومت کے لیے قرضے کی حد کا مطلب وہ سطح ہے، جہاں تک امریکی حکومت اپنے بلوں کی ادائیگی اور مستقبل کی سرمایہ کاری کے لیے فنڈز مختص کرنے کی خاطر مزیدقرض لے سکتی ہے
جب کانگریس حکومت کو کسی مد میں رقم خرچ کرنے کی ہدایت کرتی ہے تو حکومت وہ فنڈز ادا کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ اسے بل کہا جاتا ہے۔ اس بل کو قومی قرض بھی کہتے ہیں اور یہ وہ رقم ہوتی ہے، جو حکومت گزشتہ مالی سال کے دوران پہلے ہی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے لے چکی ہوتی ہے
امریکی حکومت قرض کی حد میں اضافے کی خواہاں ہے۔ کیوں کہ یکم جون تک حکومت کے پاس بلوں کی ادائیگی کے لیے رقم نہیں بچے گی
ایک زمانے میں یہ معمول کی بات تھی کانگریس قرضے کی حد بڑھانے کے لیے ووٹ دیا کرتی تھی کہ وزارت خزانہ بلوں میں ادائیگی کے لیے قرض لینے کا سلسلہ جاری رکھے، لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں یہ ووٹنگ ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال کی جانے لگی ہے
ایوانِ نمائندگان کے ری پبلیکن ارکان، جو حال ہی میں اکثریت میں آئے ہیں، اس وقت تک قرض کی حد بڑھانے سے انکار کر رہے ہیں جب تک صدر بائیڈن اور ڈیموکریٹک اراکین وفاقی اخراجات میں کٹوتی نہ کریں اور مستقبل کے اخراجات پر پابندیاں نہ لگائیں۔ اسی سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات چل رہے ہیں اور ماہرین کے مطابق یکم جون سے پہلے اگر سمجھوتہ نہ ہو سکا تو ملک ڈیفالٹ کر جائے گا
امریکہ کے ڈیفالٹ ہونے کے اندرون ملک اثرات
ایسی کوئی حتمی دستاویز تو نہیں ہے، جس سے یہ پتہ چلے کہ ڈیفالٹ کی صورت میں اندرون امریکہ کیا ہوگا، لیکن معاشی ماہرین کے مطابق یہ طے ہے کہ اس کے بہت دور رس نتائج نکلیں گے
وزیر خزانہ جینٹ یلین کا کہنا ہے کہ اس سے ملازمتیں اور کاروبار تباہ ہو جائیں گے، لاکھوں خاندانوں کو جو حکومت سے ملنے والی رقوم پر انحصار کرتے ہیں، ادائیگیاں نہیں ہو سکیں گی۔ سوشل سیکیورٹی, ریٹائرڈ فوجی اور فوجیوں کے خاندان سب متاثر ہوں گے
حکومتی عہدیداروں کا اندازہ ہے کہ اَسی لاکھ سے زیادہ لوگ بے روزگار ہو سکتے ہیں اور معیشت پوری شدت سے کساد بازاری کا شکار ہو جائے گی
امریکی ڈیفالٹ کے عالمی سطح پر اثرات
اگر امریکہ جیسی بڑی معیشت ڈیفالٹ کرتی ہے، تو اس کے اثرات صرف امریکہ تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ عالمی سطح پر اس کے اثرات پڑیں گے۔ مثال کے طور پر چینی فیکٹریوں کو، جو امریکہ کو الیکٹرانکس کا سامان بیچتی ہیں، آرڈرز ملنا بند ہو جائیں گے۔ سوئیٹزرلینڈ کے سرمایہ کاروں کو نقصان ہوگا۔ سری لنکا کی کمپنیاں اپنی کمزور کرنسی کے متبادل کے طور پر امریکی ڈالر کو استعمال نہیں کر سکیں گی۔ اور یوں یہ سلسلہ بہت دراز ہوتا جائے گا۔ ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر امریکہ نے ڈیفالٹ کیا تو ساری دنیا کی معیشتوں پر، جو پہلے ہی کمزور ہیں، اس کے گہرے اثرات پڑیں گے
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مالیات کے تجزیے سے متعلق معتبر کمپنی Moody’s Analytics کے چیف اکنامسٹ مارک زاندی کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ کی وفاقی حکومت ڈیفالٹ کرتی ہے تو عالمی معیشت کا کوئی حصہ بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہے گا
سمجھوتہ نہ ہونے کی صورت میں متبادل کیا ہے
بعض ڈیمو کریٹک اراکین کہتے ہیں کہ وہ ری پبلیکنز کی مدد کے بغیر اپنے طور پر قرض کی حد بڑھا سکتے ہیں۔ جب کہ پراگریسوز نے صدر بائیڈن پر زور دیا ہے کہ وہ آئین کی چودہویں ترمیم کے تحت اس مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں، جس کے مطابق امریکہ میں سرکاری قرضوں میں درستگی پر سوال نہیں اٹھائے جانے چاہئیں
بہر حال کون سی بات درست ہے؟ کیا ہو سکتا ہے اور کیا ہوگا؟ اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہو جائے گا۔