گاؤں والے نہ کسی باہر کے شخص سے کھانا لے کر کھا سکتے ہیں اور نہ ہی یہاں کسی کو جوتے پہن کر چلنے کی اجازت ہے۔۔ یہ کہانی ہے بھارت کے ایک گاؤں کی، جہاں اسی طرح کے اور بھی کئی رواج یہاں پائے جاتے ہیں
اس گاؤں میں ہر کوئی ننگے پاؤں رہتا ہے، کوئی جوتا نہیں پہنتا۔ یہاں تک کہ اگر انہیں گاؤں سے باہر بھی کہیں جانا ہو تو وہ ننگے پاؤں ہی جاتے ہیں۔ اگر اس گاؤں میں کوئی بیمار ہو جائے تو وہ ہسپتال نہیں جاتا، اگر انہیں کہیں باہر جانا پڑے یا کسی رشتہ دار کے گھر جانا پڑے تو وہ اپنے گھر سے باہر کا نہ کھانا کھاتے ہیں نہ ہی پانی پیتے ہیں
ان دلچسپ روایات کا حامل ویمانا انڈلو نامی گاؤں بھارت کی ریاست آندھرا پردیش میں تروپتی ضلع کے پکالا منڈل علاقے میں واقع ہے۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ان کے یہاں یہ دیرینہ روایات آج بھی رائج ہیں
گاؤں والے بتاتے ہیں کہ اگر ضلع مجسٹریٹ کو بھی ان گاؤں میں داخل ہونا پڑے تو انہیں بھی گاؤں کے باہر اپنے جوتے اتارنے پڑتے ہیں
گاؤں کے سربراہ ایربا کا کہنا ہے ”جب سے ہمارا قبیلہ اس گاؤں میں آباد ہوا ہے، تب سے یہ رواج ہے“
وہ بتاتے ہیں ”جب ہم گاؤں سے باہر جاتے ہیں تو نہانے کے بعد ہی گھر میں دوبارہ داخل ہوتے ہیں اور پھر کھانا کھاتے ہیں۔ میں کئی بار گاؤں سے باہر جا چکا ہوں۔ ایک بار مجھے عدالتی کام کی وجہ سے پانچ دن گاؤں سے باہر رہنا پڑا۔ میں نے اس دوران جہاں ٹھہرا تھا، وہاں کے کھانے کو ہاتھ تک نہیں لگایا“
گاؤں کے سربراہ اربابہ کہتے ہیں ”میں سینتالیس سال سے عدالتی کاموں کے لیے باہر جا رہا ہوں، لیکن میں نے کبھی باہر کا پانی بھی نہیں پیا۔ گھر سے پانی لے کر آتا ہوں اور وہی پیتا ہوں۔ باہر کا پانی پینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہم باہر کا کھانا نہیں کھاتے، باہر کی کوئی چیز نہیں پیتے“
ویمانا اندلو گاؤں میں پچیس مکانات ہیں، اور اس کی آبادی اَسی افراد پر مشتمل ہے۔ یہاں رہنے والوں میں سے صرف چند ایک نے اپنی گریجئیشن مکمل کی ہے، باقی سب زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ یہ لوگ زراعت پر انحصار کرتے ہیں
اس گاؤں کے لوگ ذات ’پالویکاری‘ ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور خود کو ڈوراورلو کا نام دیتے ہیں۔ آندھرا پردیش میں ان کو پسماندہ طبقے کے طور پر درجہ بند کیا جاتا ہے، اس گاؤں کے تمام لوگ ایک ہی نسب سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اس گاؤں سے باہر صرف اپنی ذات والے لوگوں سے تعلق داری بناتے ہیں
اس گاؤں کی روایات کی پابندی صرف گاؤں والے ہی نہیں کرتے بلکہ ان سے ملنے آنے والے رشتہ داروں اور دیگر مہمانوں کو بھی ان رسم و رواج پر عمل کرنا پڑتا ہے
گاؤں آنے والے ایک رشتہ دار مہیش کے مطابق، ”میری بہن کی شادی اسی گاؤں میں ہوئی ہے۔ اس گاؤں کے سبھی لوگ میرے رشتہ دار لگتے ہیں۔ جب بھی ہم اس گاؤں میں آتے ہیں تو یہاں کے رسم و رواج پر عمل کرتے ہیں۔ جب ہم اس گاؤں آتے ہیں تو سب سے پہلے غسل کرتے ہیں اور پھر گھر میں داخل ہوتے ہیں“
اس گاؤں کی رسومات میں جوتا نہ پہننے اور باہر کا کھانا نہ کھانے کے علاوہ اور بھی بہت سی عجیب رسومات پائی جاتی ہیں، جیسا کہ اگر کسی عورت کو ماہواری یا حیض ہے تو وہ اس دوران اس گاؤں میں داخل نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح اگر کسی گاؤں والے گھر میں کوئی فوتگی ہوئی ہے، تو وہاں کسی اور کو جانے کی اجازت نہیں
گاؤں والے یہ تمام رسومات گاؤں کے قدیم مندر میں ادا کرتے ہیں۔ وہ گاؤں میں نرسمہا سوامی اور گنگاما کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ یہ مانتے ہوئے کہ خدا ہر چیز کا خیال رکھتا ہے گاؤں والے بیماری کی صورت میں ہسپتال نہیں جاتے
گاؤں کے سربراہ ایربا بتاتے ہیں کہ اگر کوئی سانپ ہمیں کاٹ لے تو ہمیں یقین ہے کہ ہمارا خدا ہی اسے شفا دے گا۔ ”ہم کسی ہسپتال نہیں جاتے۔ ہم سانپ کی پہاڑی کا طواف کرتے ہیں۔ ہم نیم کے درخت کا طواف کرتے ہیں۔ ہم ہسپتال نہیں جاتے۔“
وہ کہتے ہیں ”ہمارا خدا ہی ہمارا خیال رکھتا ہے، جب ہم بیمار ہوتے ہیں، تو ہم مندر کا طواف کرتے ہیں۔ اگر ہم دو دن ایسا کرتے ہیں تو پھر سے صحتمند ہو جاتے ہیں۔ یہ ہماری روایت ہے“
گاؤں کے وہ بچے جو اسکول جاتے ہیں، وہ بھی جوتے نہیں پہنتے۔ اگر وہ گاؤں سے باہر کسی کو ہاتھ لگائیں تو نہانے کے بعد ہی گھر میں داخل ہوتے ہیں
اسکول جانے والے بچے اپنے اسکول کی طرف سے دیا جانے والا دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھاتے ہیں۔ وہ دوپہر کے کھانے کے لیے گھر آتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں اور واپس اسکول جاتے ہیں لیکن انہیں گھر سے باہر بٹھا کر کھانا کھلایا جاتا ہے اور شام کو جب بچے اسکول سے آتے ہیں تو انہیں نہا کر گھر میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ بچے بھی ان تمام روایات کی پیروی کرتے ہیں۔
قریبی گاؤں کی ایک خاتون بھویتا کہتی ہیں کہ وہ حاملہ خواتین کو ہسپتال بھی نہیں لے کر جاتے
ان کے گھر میں جو کچھ بھی ہو، کسی باہر والے کو آنے کی اجازت نہیں دیتے
مذہبی طور پر ہندوؤں کی نچلی ذات سمجھی جانے والی دلت برادری کے لوگوں کو اس گاؤں میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ گاؤں والے دلت برادری کے لوگوں سے بات بھی نہیں کرتے۔ خواتین کو ماہواری کے دوران گاؤں سے باہر رہنا پڑتا ہے۔ ماہواری والی خواتین کو ہر مہینے کم از کم پانچ دن گاؤں سے باہر رکھا جاتا ہے
گاؤں والے میڈیا والوں کو بھی پسند نہیں کرتے۔ راشن ڈپو چلانے والے بابو ریڈی کا کہنا ہے کہ یہاں تک کہ اگر آنے والا شخص ایم آر او یا ایم ایل اے ہے، تو انہیں بھی گاؤں کے باہر اپنے جوتے اتارنے پڑتے ہیں
وہ کہتے ہیں ”شیڈیولڈ ذات کے لوگوں کو گاؤں میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ نہ تو ان سے بات کرتے ہیں اور نہ ہی انھیں چھوتے ہیں۔“
بابو ریڈی کا کہنا ہے ”گاؤں والوں نے حیض والی خواتین کے لیے گاؤں کے باہر ایک کمرہ بنایا ہے۔ انہیں دن رات ایک ہی کمرے میں رہنا پڑتا ہے۔ گاؤں کے لوگ تمام سرکاری اسکیموں سے مستفید ہوتے ہیں۔ ہم انہیں ان کا ماہانہ راشن ان کے گھروں پر دیتے ہیں“
بابو ریڈی ان رسومات کے حوالے سے گاؤں میں ایک آگاہی کیمپ کا انعقاد کرنے اور عوام میں تبدیلی لانے کی کوشش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اندھ وشواس میں گھرے اس گاؤں میں کیا یہ ممکن بھی ہو پائے گا؟