کھلونوں کی دوکانوں! راستہ دو،
میرے بچے گذرنا چاہتے ہیں۔۔ (نامعلوم)
عاصم بارہ برس کا ہے۔ لاہور میں گلبرگ کے کاروباری علاقے میں پھیری لگاتا ہے۔ صبح دس بجے سے شام سات بجے تک وہ تمام مارکیٹوں کے اندر اور باہر گھومتا گھماتا چھوٹی موٹی چیزیں بیچ کے پانچ سے چھ سو روپے کما لیتا ہے اور ماں کے ہاتھ پر دھر دیتا ہے
ان مارکیٹوں میں جو صاحبِ ثروت برانڈ پرست لوگ دُھلی دھلائی گاڑیوں سے اتر کے سیدھے اندر کا رخ کرتے ہیں، انہیں عاصم جیسی مخلوق نظر نہیں آتی
لے دے کے عاصم کے گاہکوں میں لگی بندھی تنخواہ مع دو وقت کی روٹی کا طواف کرنے والے ڈرائیور، چوکیدار، سکیورٹی گارڈ، رکشہ چالک یا خوش گلو نعت خواں فقیر شامل ہیں
عاصم کا ایک چھ سالہ بھائی بھی ہے۔ باپ چونکہ چھ برس پہلے مہنگے علاج کی دہلیز پر دم توڑ گیا، لہٰذا جب عاصم کا چھوٹا بھائی پیدا ہوا تو اس نے بس عاصم کو ہی باپ کی شکل میں دیکھا
عاصم کی ماں گھروں میں کام کرتی ہے۔ دونوں مل کے اتنا کما لیتے ہیں، جس سے ایک کمرے کا بھاڑہ نکل سکے اور تین کے بجائے ڈیڑھ وقت کا کھانا مل سکے (ایک برس پہلے تک دو وقت کا کھانا میسر آ جاتا تھا)
عاصم تین برس پہلے جب تیسری جماعت میں تھا تو اس نے پڑھائی چھوڑ کے اپنے بچپنے کو ایک چھابڑی میں رکھ لیا۔ سڑک نے اس بچے کی شرارتیں، بے فکری، امنگیں اور خواب کچل کے راتوں رات پکی پکی باتیں کرنے والا بزرگ بنا دیا
مثلاً یہی کہ ’میری تو زندگی برباد ہو گئی۔ میں اب صرف اپنے چھوٹے بھائی کو کچھ بنانا چاہتا ہوں۔ یا جب تک دن بھر میں پانچ چھ سو روپے جمع نہ کر لوں، دل کو سکون نہیں ملتا۔‘
یہ سکون کمانے کے لیے عاصم کو صبح سے شام تک ایک ایک مارکیٹ میں گھومنا پڑتا ہے
یا یہ جملہ کہ ’مجبوری سب کچھ سکھا دیتی ہے۔ اب تو ایک ایک روپیہ خرچ کرتے ہوئے سوچنا پڑتا ہے۔ مہنگائی پتہ نہیں کب رکے گی۔‘
جس کمرشل علاقے میں عاصم دن بھر پھیری لگاتا ہے، وہیں جان محمد بھی صبح ساڑھے آٹھ سے رات ساڑھے آٹھ نو بجے تک بارہ گھنٹے سکیورٹی گارڈ کی ڈیوٹی کرتا ہے
دو ماہ پہلے تک اس کی کمپنی اسے پندرہ ہزار روپے دیتی تھی مگر واؤچر پر پچیس ہزار لکھواتی ہے کیونکہ تب قانوناً کم سے کم تنخواہ پچیس ہزار روپے ہی تھی
اب جان محمد کی اصل تنخواہ پندرہ ہزار سے بڑھ کے بائیس ہزار روپے ہو گئی ہے مگر ’بتیس ہزار روپے وصول پائے‘ لکھوا کے واؤچر پر دستخط کروائے جاتے ہیں، کیونکہ کم ازکم تنخواہ بھی قانوناً پچیس ہزار سے بتیس ہزار ہو گئی ہے اور دیگر کمپنیوں کی طرح جان محمد کی کمپنی بھی قانونی کاغذ پورے رکھتی ہے
جان محمد کی بیوی اور چار بچے راجن پور ضلع کے ایک گاؤں میں رہتے ہیں۔ وہ لاہور میں چار دیگر سکیورٹی گارڈز کے ساتھ مل کے ایک کرائے کے کمرے میں رہتا ہے۔ یوں اسے سر چھپانے کی جگہ گویا ایک چوتھائی میں پڑ جاتی ہے۔ کھانا یہ چاروں گارڈز کسی زندہ مخیر یا مردہ پیر کے لنگر سے کھا لیتے ہیں
بقول احمد جاوید؛
اچھی گذر رہی ہے دلِ خودکفیل سے،
لنگر سے روٹی لیتے ہیں، پانی سبیل سے۔۔
جنہوں نے کور کمانڈر ہاؤس کے فریج سے کوک نکال کے جھاگ اڑائی یا منجمد پھل کھا لیے، وہ متوسط یا نیم متوسط طبقے سے تعلق کے باوجود بھی اپنا ہاتھ نہ روک پائے
اگر متوسط طبقے کا نوجوان اس بے صبری و مہم جویانہ محرومی کا شکار ہو چکا ہے تو معاشی اعتبار سے بالکل زمین سے لگے بارہ سالہ پھیری والے عاصم اور سکیورٹی گارڈ جان محمد جس طرح جسم اور سانس کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں، وہ معجزہ نہیں تو کیا کہلائے گا؟
اگر کم سن عاصم کے دل میں اب تک چوری کا خیال نہیں آیا اور ادھیڑ عمر جان محمد نے اپنی بندوق کسی شہری کا بٹوہ اور موبائل چھیننے کے لیے نہیں تانی تو ان دونوں کو اس دور کا ولی سمجھنا چاہیے
یہ دونوں اب بھی اس زندگی پر اعتماد کر رہے ہیں، جو عرصہ ہوا ان پر عدم اعتماد کر چکی۔۔ اور یہ عاصم اور جان محمد کروڑوں میں ہیں، چہار جانب ہیں اور اب تک آسمان تک رہے ہیں
بقول سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل اس ملک کی ستر فی صد افرادی قوت کی آمدنی اس وقت بھی اوسطاً چونتیس ہزار روپے ماہانہ ہے۔ عاصم اور جان محمد تو اس زیریں طبقے کی بھی تلچھٹ ہیں
کیا اس تحریر کا مقصد کسی طبقے کے لیے کسی طبقے کی ہمدردی حاصل کرنا ہے؟ ہرگز نہیں
بس یہ بتانا ہے کہ اس ملک کے چوبیس کروڑ انسانوں میں سے تیئیس کروڑ کے پاس پانا تو دور کی بات، کھونے کے لیے بھی اب کچھ نہیں
اس ہجوم کے نڈر ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے کیونکہ ریاست کے پاس لالی پاپ کا آخری ذخیرہ بھی ختم ہوا چاہتا ہے۔
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)