سگمنڈ فرائڈ کے زمانے میں ویانا کے حالات

شیر محمد اختر

یہ مضمون سگمنڈ فرائڈ (1856 سے 1939ع) کے زمانے میں ویانا کے حالات کو بیان کرتا ہے، لیکن مضمون پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ جیسے یہ پاکستان کے موجودہ حالات کے بارے میں لکھا گیا ہو. یہاں یہ مضمون شائع کرنے کا مقصد اُس زمانے کے ویانا اور آج کے ہمارے معاشرے کی مماثلت کو بیان کرکے محض دلچسپی پیدا کرنا نہیں، بلکہ دراصل یہ سوچنا ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں بھی سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی طور پر کہاں کھڑے ہیں؟“

جب ہم فرائیڈ کے زمانے کا جائزہ لیں تو ہمیں ویانا (ویئنا) کی سوسائٹی میں عام طور پر ریاکاری اور کافی حد تک منافقت نظر آتی ہے۔ اس کا سبب کچھ تو زمانے کے عام حالات اور کچھ حالات کا نتیجہ جو ویانا اور آسٹریا کی سر زمین سے خاص تھے

اس وقت ویانا کی سوسائٹی میں دو رخی پائی جاتی تھی، اس وقت کا ذہن خلوص سے بڑی حد تک عاری تھا. جہاں تک سیاسی اور سماجی پس منظر کا تعلق ہے، یہ رجحان عام تھا کہ جب حالات ناموافق ہوں تو رخ پھیر لیا جائے. اس وقت آسٹریا میں آئینی بادشاہت اپنی ظاہری شان و شوکت کے ساتھ قائم تھی۔ آزادی کا دستور موجود تھا۔ پارلیمان کے دو ایوان تھے اور ذمہ دار وزراء کی کابینہ بھی خودمختیار عدالتیں تھیں اور حکومت کی پوری مشنری بھی، لیکن اس کے باوجود داخلی طور پر یہ سارے ادارے بے جان تھے، ان کو ذرا بھر اختیار حاصل نہ تھا. حکومت کا سارا اختیار آسٹریا کے "اسی خاندانوں” کے ہاتھوں میں تھا۔

یہ امراء کی ایک ایسی زبردست جماعت تھی کہ کوئی اس کی مخالفت کا خیال دل میں لاتا تو یہ اسے نکال باہر کرتے۔ انہوں نے آپس میں رشتے ناطے کر لیے تھے اور "اسی خاندان” ایک کنبہ بن گئے تھے۔ بادشاہ بوڑھا تھا اور دربار کے آداب اس قدر سخت تھے کہ وہاں تک رسائی مشکل تھی. راعی اپنی رعایا سے بالکل کٹ گیا تھا۔ اس کے گرد جس قدر امراء درباری تھے، سب کے سب انہی "اسی خاندانوں” کے افراد تھے۔ حکومت کے ہر شعبے پر انہِی کا تسلط تھا، کسی کی مجال نہ تھی کہ ان کے سامنے چوں و چراں کر پائے۔

ملک کی جس قدر زرخیز زمین تھی، اس پر ان لوگوں کا قبضہ ہوتا گیا۔ جنگلات سبزہ زار، مال مویشی چراگاہیں سب ان کی ملکیت تھے۔ کہ یہاں تک یہ لوگ ملک بھر کے کسانوں کے مالک تھے۔ حکومت کرنا وہ اپنا پیدائشی حق سمجھتے تھے اور خکومت کا نشہ ان کی رگ و پے میں اس حد تک سرایت کر گیا تھا کہ انہوں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت تک گوارا نہ کی تھی کہ دنیا کی کوئی چیز ایسی بھی ہے، جس کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے. جاہ و حشمت انہیں ورثے میں ملتی تھی اور اپنی خاندانی روایت پر پوری طرح قائم رہتے تھے۔ انفرادی طور پر ان میں ایسے لوگ بھی تھے، جن کی ذات قابل قدر اور شخصیت جاذب نظر تھی۔ کچھ لوگ ذہین بھی تھے لیکن مجموعی طور پر ان کا تاثر عوام کی زندگی پر اچھا نہیں تھا۔

یہاں ایک لطیفہ قابل ذکر ہے ویانا یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم کا ایک پروفیسر ذرا بیباک واقع ہوا تھا۔ مقابلے کے امتحان میں جب وہ ممتحن تھا، ایک نوعمر لڑکا اس کے سامنے پیش ہوا، یہ "اسی خاندانوں” والے کنبے کا ایک فرد تھا۔ لڑکا بالکل کورا تھا اور کسی سوال کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا. پروفیسر نے تمسخر کے طور پر اسے مخاطب کر کے کہا "نواب زادہ صاحب۔۔۔ یہ تو میری طاقت سے باہر ہے کہ میں آپ کو گورنر کے عہدہ پر متمکن نہ ہونے دوں۔ اتنا ضرور کر سکوں گا کہ یہ فیصلہ ایک سال کے لیے ملتوی ہو جائے”

اس دور میں زندگی کے ہر شعبے میں ابہام تھا۔ ظاہری طور پر سیاسی جماعتیں موجود تھیں، انتخاب لڑے جاتے تھے، پارلیمنٹری مباحثے ہوتے تھے، قانون پاس کیے جاتے تھے اور ان کے تعمیل کے لیے دفاتر بھی موجود تھے اور بظاہر یہی ہوتا تھا کہ ملک میں جمہوریت کے اصولوں پر حکومت کا نظام چل رہا ہے لیکن یہ محض دکھاوا اور دھوکا تھا، جس سے بیرونی دنیا کو مغالطہ دیا جاتا

اس زمانے میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لئے ضروری تھا کہ "اوپر کے طبقے” کی سفارش ہو. اگر کوئی براہ راست ان تک نہیں پہنچ سکتا تو ایسے لوگوں کی تلاش ہوتی جن کو اس طبقے نے اختیارات دے رکھے تھے اگر کوئی یہ چاہتا تھا کہ قانون کی حدود کے اندر رہ کر اپنا مقصد حاصل کرلے تو یہ ناممکن تھا، مطلب براربری کے لیے ایسے ذرائع اختیار کرنا لازمی تھا۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے جو اعلانات کیے جاتے تھے، ان کا تعلق اصل فیصلے سے کم ہوتا تھا. قول و فعل میں کافی تضاد تھا۔

متوسط طبقہ کے لوگ اشرافیہ کے نقشے قدم پر چلنا باعثِ افتخار سمجھتے تھے، اس نقالی میں ذرا سی بات کا دھیان رکھا جاتا تھا. یہودیوں کا امیر طبقہ بھی کافی آگے بڑھ آیا تھا، ان کا مذہب اب ان کے راہ میں رکاوٹ نہ تھا بلکہ دولت کی فراوانی ان کو آگے لانے میں مدد دے رہی تھی۔

نتیجہ یہ ہوا کہ امیر اور غریب یہودی میں فرق ہونے لگا، برسراقتدار طبقہ کا طرز زندگی بہت دلفریب اور مرعوب کن ہوتا تھا اور اس کا اثر بہت گہرا۔۔۔۔ اس زمانے میں "امارات” کا لفظ ہر قسم کی وضع داری امیرانہ ٹھاٹھ، جاذبیت اور مرعوب کرنے کی بلند ترین تعریف کے مترادف تھا. متوسط طبقے کے لوگ لباس اور اوضاع و اطوار کے اظہار میں کوشش کرتے کہ انہیں اشرافیہ میں سمجھا جائے۔ یہ حسِین دھوکہ دینے کے لیے معقول ٹِپ دی جاتی اور دل کھول کر ل روپیہ پیسہ خرچ کیا جاتا، حالانکہ ان میں سے اکثر لوگ ایسے تھے، جن کی گھریلو زندگی بالکل معمولی تھی. ویانا بھر میں ٹِپ لینے اور دینے کا اتنا رواج تھا کہ جب کوئی کسی کے ہاں جاتا، دروازہ کھولنے والا خادم بھی ٹپ کا طالب ہوتا۔

ایک طنز نگار نے لکھا ہے کہ "حشر کے دن ویانا کے لوگ سب سے پہلے چیز جو دیکھیں گے وہ ایک ہاتھ ہوگا، جس نے ان کا تابوت کھول ہوگا اور وہ ہاتھ ٹِپ کے لئے پھیلا ہوگا۔”

ٹِپ کرنا جاگیردارانہ نظام ایک ممتاز پہلو تھا۔ جو شخص "امارات” سے تعلق رکھتا، اس کی اس رسم سے روگردانی تحقیر کا باعث تھی اور اپنی ذلت و تحقیر کون برداشت کر سکتا ہے، اس لیے کبھی ایسا موقعہ ہی نہ آنے دیا جاتا تھا.

شیر محمد اختر کی کتاب سگمنڈ فرائڈ (حالات زندگی اور نظریات) کتاب سے ماخوذ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close