برطانوی اسپیشل فورسز نے پاکستان سمیت گیارہ مسلمان ملکوں میں خفیہ کارروائی کی: گارڈین کی رپورٹ

ویب ڈیسک

موقر برطانوی روزنامہ اخبار ’دا گارڈین‘ نے منگل کو اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ برطانوی اسپیشل فورسز نے گذشتہ بارہ برسوں کے دوران پاکستان سمیت انیس ممالک میں خفیہ کارروائیاں کیں، جن میں آٹھ عرب اور تین مسلمان ملک شامل ہیں

میڈیا لیکس کی بنیاد پر تحقیقی گروپ ’ایکشن آن آرمڈ وائلنس‘ (اے او اے وی) کی ایک رپورٹ میں ان ممالک کی فہرست دی گئی ہے، جہاں 2011ع سے برطانیہ نے ایلیٹ یونٹس بھیجے۔ آپریشنز میں یرغمالیوں کو چھڑانا، ان کو وہاں سے نکالنا، تربیت اور تحفظ شامل تھا

عرب دنیا میں الجزائر، عراق، لیبیا، عمان، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن میں یونٹس بھیجے گئے۔ مسلم اکثریتی ممالک افغانستان، پاکستان اور مالی میں بھی یونٹس بھیجے گئے

شام میں 2013ع میں منصوبہ بند فضائی مہم سے قبل بمباری کے ممکنہ مقامات کی نشاندہی کرنے کے لے یونٹس بھیجے گئے تھے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں اس مہم کے خلاف ووٹ دیا گیا تھا

اے او اے وی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں انتہائی خطرناک مشنز کے احکامات براہ راست وزیر اعظم یا وزیر دفاع کی جانب سے جاری کیے گئے اور انہیں انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا

اس رپورٹ میں آپریشنز کی نگرانی پر سوال اٹھایا گیا ہے

واضح رہے کہ جنگی کارروائیوں کے لیے اگرچہ برطانوی پارلیمنٹ سے منظوری لازمی ہے، لیکن چھوٹے پیمانے پر اسپیشل فورسز کی کارروائیاں ارکانِ پارلیمنٹ کے علم کے بغیر کی جا سکتی ہیں اور کمیٹی کی تحقیقات کے تابع نہیں ہیں

سنہ 2015ع میں اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایس اے ایس کو مشرق وسطیٰ میں اسلام پسند رہنماؤں کو پکڑنے اور ہلاک کرنے کی خود مختاری دی تھی۔ یہ فیصلہ تیونس میں ہونے والے حملے کے بعد کیا گیا، جس میں ایک ہوٹل کے اندر تیس برطانوی مارے گئے تھے

اس سال کے شروع میں برطانیہ کی اسپیشل فورسز کی اس وقت جانچ پڑتال کی گئی، جب ایک عوامی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان یونٹوں نے 2010ع سے 2011ع کے درمیان افغانستان میں طالبان کے پچاس سے زیادہ مبینہ ارکان کو ماورائے عدالت قتل کیا

اے او اے وی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر آئن اوورٹن نے کہا ”گذشتہ ایک دہائی کے دوران متعدد ممالک میں برطانیہ کے خصوصی دستوں کی وسیع پیمانے پر تعیناتی، شفافیت اور جمہوری نگرانی کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیتی ہے۔ ان مشنوں کے لیے پارلیمانی منظوری اور سابقہ جائزے کا فقدان انتہائی پریشان کن ہے“

اے او اے وی کے مطابق گذشتہ ماہ سوڈان میں جھڑپیں شروع ہونے کے بعد برطانیہ کی اسپیشل فورسز نے خرطوم سے برطانوی سفارت کاروں اور ان کے اہلِ خانہ کے ایک چھوٹے سے گروپ کے انخلا کی نگرانی کی اور انہیں دارالحکومت کے شمال میں واقع ایک ہوائی اڈے پر منتقل کیا

اے او اے وی نے جس رجحان کا ذکر کیا ہے، وہ ایلیٹ آپریشنز کی رازداری کے تحفظ کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، اس کا سہرا پیراشوٹ رجمنٹ، رائل میرینز اور رائل ایئر فورس کو دیا گیا، ان کے شمولیت کے بارے میں کسی اسپیشل فورس یونٹ کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی

اس سال کے شروع میں لیک ہونے والی دستاویزات میں یہ بھی انکشاف ہوا تھا کہ روسی حملے کے دوران یوکرین میں اسپیشل فورسز کے تقریباً پچاس ارکان موجود تھے

اے او اے وی کی رپورٹ کے جواب میں برطانوی وزارت دفاع کے ترجمان کا کہنا تھا ”یہ حکومتوں کی دیرینہ پالیسی ہے کہ وہ برطانیہ کی سپیشل فورسز کے بارے میں کوئی تبصرہ نہ کریں.“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close