مصنف، مؤرخ، ماہر آثارِ قدیمہ، سماجی کارکن اور انسانی حقوق کے تحفظ کی تحریک کے رکن گل حسن کلمتی اپنے سیکڑوں چاہنے والوں کو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے، کلمتی کی عمر 66 سال تھی، وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ ان کے جسم میں موجود خون میں شامل پلیٹ لیٹس کم ہونے سے ان کی بیماری شدت اختیار کر گئی تھی
گل حسن کلمتی 5 جولائی 1957 کو کراچی کے مضافاتی علاقہ گڈاپ کے گاؤں ملا عرضی گوٹھ میں پیدا ہوئے۔ کلمتی نے کراچی یونیورسٹی سے شعبہ صحافت سے ایم اے کی سند حاصل کی تھی۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز اسکول کے استاد کی حیثیت سے کیا، وہ کراچی ضلع کونسل میں ملازم ہوئے
گل حسن کی بارہ کتابیں شائع ہوئیں ، وہ کراچی کی قدیم تاریخ سے حیران کن حد تک واقف تھے۔ انھوں نے کراچی اور اس کے متصل علاقوں ٹھٹہ اور لسبیلہ وغیرہ کے بارے میں تحقیق کی، یوں وہ کراچی کے بارے میں اتھارٹی مانے جاتے تھے۔ گل حسن کلمتی کو اپنے علاقہ سے ایسا عشق تھا کہ زندگی کے آخری مرحلہ تک اس کی ترقی کے بارے میں سوچ و بچار کرتے رہے
ان کا تعلق نچلے متوسط طبقہ سے تھا۔ انھوں نے اپنی جوانی میں بائیں بازو کی تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کی، وہ کارل مارکس اور اینگلس کے فلسفہ سے آگاہ ہوئے۔ انھوں نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں داخلہ لیا۔ یہ وہ وقت تھا جب دائیں بازو کی طلبہ تنظیم عروج پر تھی مگر گل حسن کلمتی کو شعبہ صحافت سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ گل حسن کلمتی نے کراچی ڈسٹرکٹ کونسل میں ملازمت حاصل کی۔ یوں انھیں اپنے علاقہ کے عوام کی خدمت کرنے کا موقع ملا
انھوں نے کراچی کی قدیم تاریخ کو اپنا موضوع بنایا۔ گل حسن نے ملیر، گڈاپ ، لیاری اور لسبیلہ اور مکران کے علاقوں پر خاص طور پر تحقیق کی۔ گل حسن نے ان علاقوں کے قدیم مقامات کے بارے میں لکھا۔ گڈاپ کے علاقے کی بڑی قدیم تاریخ ہے۔ گل حسن نے اس علاقہ میں آباد مختلف قبائل کے بارے میں تحقیق کی اور پھر اپنی کتابوں کے ذریعہ عوام تک منتقل کیا۔ گل حسن اس بلوچ ہیرو چاکر نوتک کلمتی کا خاص طور پر ذکر کرتے تھے، جس نے انگریزوں کے خلاف کلمہ حق بلند کیا
اس لڑائی میں ایک انگریز فوجی افسر، جس نے بلوچوں کی بے عزتی کی تھی، مارا گیا اور اس کی اہلیہ کو گرفتار کر کے دور قلات کے علاقہ میں بھیج دیا گیا تھا۔ لسبیلہ کے نواب کے دباؤ پر انگریز عورت کو واپس کیا گیا۔ چاکر نوتک ایک جھڑپ کے بعد گرفتار ہوا۔ انگریزوں کی عدالت نے اس کو سزائے موت دی۔ اس مجاہد نے اپنی آخری خواہش ظاہر کی کہ اس کو اونچے مقام پر پھانسی دی جائے، اس وقت کراچی کا علاقہ ڈالمیا سب سے بلند علاقہ تھا، یوں مجاہد کو ڈالمیا کی پہاڑی پر پھانسی دی گئی
گل حسن نے تاریخ، جغرافیہ، سوشیالوجی، قانون اور صحافت جیسے اہم مضامین کی کتابوں کا عرق ریزی سے مطالعہ کیا تھا، یوں وہ اس خطہ میں مختلف وجوہات کی بناء پر قبائل کی ہجرت کے اسباب کو بہت خوبصورتی سے بیان کرتے تھے۔ ان کی کراچی کی تاریخ، ثقافت اور مفید معلومات پر مبنی کتاب ’’کراچی سندھ جی مارئی‘‘ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی
گل حسن نے بی بی سی لندن کی اردو سروس سے وابستہ سینئر صحافی رضا علی عابدی کی کتاب ’’شیر دریا‘‘ کا سندھی میں ترجمہ کیا۔ رضا علی عابدی نے یہ کتاب دریائے سندھ کی تاریخ پر لکھی ہے۔ گل حسن کلمتی سمجھتے تھے کہ ماحولیات کے بچاؤ اور قدیم باشندوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ملیر ضلع میں قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے اقدامات کیے جائیں
گل حسن کلمتی نے سینئر مزدور رہنما عثمان بلوچ، یوسف مستی خان اور خالق جونیجو کے ساتھ مل کر Indigenous people’s alliance کے نام سے تنظیم قائم کی۔ اس تنظیم نے برسوں جدوجہد کی۔ گل حسن کلمتی اور ان کے ساتھیوں کا بیانیہ تھا کہ اس علاقے میں آثارِ قدیمہ کو بھی نقصان ہو رہا ہے، صرف ماحولیات ہی کو نقصان نہیں ہو رہا بلکہ ملیر کے قدیم باسی اقلیت میں تبدیل ہو رہے ہیں۔
یہ ایک پر امن تحریک تھی مگر اس کے بیانیہ کو ذرایع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر بھرپور کوریج ملی تھی۔ گل حسن کلمتی اور ان کے ساتھیوں پر مقدمات قائم ہوئے۔ گل حسن نے بہت کچھ بہادری سے برداشت کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ سندھ میں آباد تمام لوگ سندھی ہیں، اس لیے سندھ کے حقوق کے لیے شہری اور دیہی علاقوں کے لوگوں کو مشترکہ جدوجہد کرنی چاہیے
پروفیسر ڈاکٹر ٹیپو سلطان، خالق جونیجو، عثمان بلوچ، یوسف مستی خان اور مقتدا منصور مرحوم وغیرہ نے سیف سندھ سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔ سیف سندھ سوسائٹی نے مردم شماری، نچلی سطح تک اختیار کے بلدیاتی اداروں، کراچی سپر میونسپل کارپوریشن کے قیام جیسے اہم موضوعات پر آگاہی کے لیے سیمینارز، لیکچر اور ڈسکشن کے پروگرام کرائے۔ گل حسن گڈاپ سے خاص طور پر سیف سندھ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے پی ایم اے ہاؤس آتے۔ انہیں تقریباً 20 سے 25 میل کا فاصلہ عبور کرنا پڑتا مگر گل حسن اپنی بیماری کے دوران بھی سیف سندھ کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے آتے تھے
معمر مزدور رہنما عثمان بلوچ جو آج کل امریکا میں زیرِ علاج ہیں، کلمتی کے انتقال پر سخت رنجیدہ ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ یوسف مستی خان کی رحلت کے بعد گل حسن کلمتی کا انتقال سندھ کی مزاحمتی تحریک کے لیے سب سے بڑا نقصان ہے۔ کلمتی رسول بخش پلیجو اور جی ایم سید سے متاثر تھے مگر، بقول عثمان بلوچ، وہ متعصب سندھی نہیں تھے۔ معروف دانش ور نصیر میمن کا بیانیہ ہے کہ گل حسن کلمتی نے علم صرف لائبریری میں رکھی کتابوں سے ہی حاصل نہیں کیا بلکہ ان کا سب سے بڑا ذریعہ سندھ کے عوام تھے
مظلوم عوام کے لیے ساری عمر جدوجہد کرنے والے کراچی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر ریاض نے کلمتی کی کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا جو ابھی شایع نہیں ہوئی ہے، وہ گل حسن کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گل حسن کلمتی ایک نایاب انسان، اپنے آپ کو جپسی گردانتے۔ کراچی کی تاریخ کا کھوج لگاتے، اپنے ہی گڈاپ پر قبضہ کی مخالفت کے مزاحمتی دانشور، گل حسن عظیم آدمی تھے۔
بشکریہ: ایکسپریس نیوز