سياسی مبصرين اور تجزيہ کاروں کی رائے ميں فوجی عدالتوں، ذرائع ابلاغ کو ڈرانے دھمکانے کی حکمت عملی اور وسيع پيمانے پر گرفتاريوں کے ذريعے پاکستان کے طاقت ور حلقے اور برسراقتدار قوتيں انتخابات سے قبل عمران خان کی مقبوليت کم کرنے کی کوششوں ميں ہيں
حالیہ صورتحال پر ايک نظر
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ايف پی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسٹيبلشمنٹ اور موجودہ حکومت کا سابق وزيراعظم عمران خان اور ان کی سياسی جماعت پاکستان تحريک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ ٹکراؤ لگ بھگ ايک سال سے جاری ہے۔ رواں ماہ عمران خان کی عارضی حراست جن مظاہروں کا سبب بنی، ان کو حکومت ‘رياست مخالف‘ قرار ديتی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور کارکن الزام لگاتے ہيں کہ عمران خان کی حکومت گرانے ميں مبینہ طور پر فوجی اسٹيبلشمنٹ کا بھی کردار تھا اور اسی لیے ان ميں کافی غم و غصہ پايا جاتا ہے
دوسری جانب حکومت نے عسکری املاک کو نقصان پہنچانے والے درجنوں ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کے ليے فوجی عدالتوں کا جو راستہ چنا ہے، اس کی ملکی اور بين الاقوامی سطح پر مذمت جاری ہے۔ دريں اثنا پی ٹی آئی سے وابستہ وکلاء، صحافیوں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہيں ڈرانے اور دھمکانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کيے جا رہے ہيں
بين الاقوامی تنظيموں اور تجزيہ کاروں کی رائے
سياسی تجزيہ کار حسن عسکری کا ماننا ہے کہ عمران خان کو واضح پيغام ديا جا رہا ہے کہ وہ فوجی اسٹيبلشمنٹ سے لڑ نہيں سکتے۔ خبر رساں ادارے اے ايف پی سے بات چيت ميں انہوں نے کہا، ”جماعت کے لوگوں کو دباؤ ڈال کر توڑا جا رہا ہے۔‘‘ اے ايف پی نے اس معاملے پر فوج کا رد عمل جاننے کے ليے جب رابطہ کيا تو کوئی جواب موصول نہ ہوا
ايمنسٹی انٹرنيشنل کے مطابق پارٹی سے وابستہ کئی رہنماؤں کی حراست کے تناظر ميں اب حاميوں ميں خوف پايا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے لیے سرگرم اس تنظیم کے مطابق انسداد دہشت گردی کے کافی غير واضح قوانين کو بھی بروئے کار لايا جا رہا ہے
اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر لاہور میں ايک گھريلو خاتون نے اے ایف پی کو بتايا کہ ان کے بيٹے کو پر امن احتجاج کرنے پر گرفتار کيا گيا اور تشدد کا نشانہ بنايا گيا۔ اسے نامعلوم نمبروں سے کاليں موصول ہو رہی ہيں اور کہا جا رہا ہے کہ اس کی نگرانی جاری ہے۔ وہ اب گھر سے باہر نہيں نکل رہا
انگريزی روزنامہ ‘ڈان‘ کے ایک اداريے ميں صورت حال کی مندرجہ ذيل الفاظ ميں عکاسی کی گئی ہے، ”ايک جانی پہچانی کہانی۔ ايک سياسی جماعت سمجھتی ہے کہ وہ ملک کی طاقتور فوجی اسٹيبلشمنٹ سے ٹکرا سکتی ہے۔ مگر سرخ لکير پار ہوتے ہی، خود کو ايک بے رحم، يکطرفہ جنگ کی صورتحال ميں پاتی ہے۔ اس سے بچنے کا واحد راستہ، وہی کيا جائے جس کی ان سے خواہش کی جائے‘‘
کراچی ميں کئی صحافيوں نے اے ايف پی کو بتايا کہ انہيں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے عمران خان کی ساکھ متاثر کرنے والی پريس بريفنگز کی وڈيوز موصول ہو رہی ہيں۔ ايک رپورٹر نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتايا کہ واٹس ايپ پر ‘آف دا ريکارڈ‘ مواد موصول ہو رہا ہے، جسے چلانا لازمی ہے
ايک اور صحافی کا دعویٰ تھا کہ اشاعت کے ليے پہلے ایک ہفتے ميں دو سے تين تيار شدہ تحریریں موصول ہو رہی تھیں، مگر ان کی ہفتہ وار تعداد چھ سے سات تک ہو گئی ہے
ولسن سينٹر کے ساؤتھ ايشيا انسٹيٹيوٹ سے وابستہ ماہر مائیکل کوگلمين کے مطابق موجودہ صورت حال سے ظاہر ہے کہ سويلين اور عسکری قيادت پی ٹی آئی کو مکمل طور پر توڑ دینا چاہتی ہیں
پاکستانی خواتین کی سیاست میں عملی شرکت کو دھچکہ
جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق نو مئی تک بہت فعال رہنے والی شگفتہ حسین (نام بدل دیا گیا) پی ٹی آئی سے قطع تعلق کے باوجود انتہائی خوف زدہ ہیں۔ تحریک انصاف کی ٹائیگر فورس کی راولپنڈی میں اس سابقہ کارکن کو خطرہ ہے کہ انہیں اب بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے
شگفتہ حسین بتاتی ہیں ”میں نے پاکستان تحریک انصاف سے استعفیٰ دے دیا ہے اور میں تمام واٹس ایپ گروپوں سے بھی نکل گئی ہوں، لیکن اس کے باوجود مجھے خوف ہے کہ اب بھی شاید مجھے گرفتار کر لیا جائے اور کسی جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ صرف پی ٹی آئی کا کارکن ہونا بھی ایک جرم بن گیا ہے‘‘
شگفتہ حسین کے مطابق ”یہ صورت حال دیکھ کر خواتین کارکن بہت پریشان ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں پڑھی لکھی خواتین پہلے ہی بہت زیادہ تعداد میں نہیں تھیں۔ پی ٹی آئی کی وجہ سے پڑھی لکھی خواتین نے عملی سیاست میں قدم رکھا تھا لیکن اب اس کریک ڈوان کے بعد وہ بہت مایوس ہیں‘‘
خیال کیا جاتا ہے کہ پنجاب کے کئی علاقوں سے خواتین کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کی پانچ سو سے زائد خواتین کارکنوں کی گرفتاری کی منظوری حکومت پنجاب نے کچھ دن پہلے ہی دے دی تھی
ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والی پی ٹی آئی کی ایک کارکن ثریا عدنان (نام بدل دیا گیا) کا کہنا ہے کہ نہ صرف خواتین کارکنان کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے بلکہ مرد کارکنوں اور پارٹی رہنماؤں کی گرفتاریوں کے بعد جو وفاداریاں تبدیل کرائی جارہی ہیں، ان میں بھی خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی دھمکیاں دی جارہی ہیں
سابق وزیر مملکت زرتاج گل کے قریب سمجھی جانی والی ثریا عدنان نے بتایا ”9 مئی کے واقعات کو بہانہ بنا کر تحریک انصاف کو مکمل طور پر ختم کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف خواتین کو گرفتار کیا جا رہا ہے بلکہ ان سے بدسلوکی بھی کی جا رہی ہے، جس سے کئی خواتین شدید خوف کا شکار ہیں‘‘
ثریا عدنان کے مطابق اس کریک ڈاؤن کے پیش نظر اب یہ مشکل لگتا ہے کہ پڑھے لکھے گھرانوں کی خواتین بھی عملی سیاست میں قدم رکھیں۔ انہوں نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’موجودہ حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ دشمنی میں تمام حدیں پار کر گئی۔ وفاداریاں تبدیل کرانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں کبھی خواتین کو گرفتار کیا گیا ہو۔‘‘
عوام بے بسی کا شکار ہیں
کئی ناقدین کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کوئی نظریاتی پارٹی نہیں اور اس میں شامل افراد کی بہت بڑی تعداد صرف عمران خان کی شخصیت کی وجہ سے ہی اس پارٹی میں ہے۔ تاہم کچھ مبصرین اس رائے سے بھرپور اختلاف بھی کرتے ہیں
تجزیہ نگار فریحہ ادریس کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ کریک ڈاؤن کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے خلاف بے پناہ طاقت استعمال کی گئی۔ 9 مئی کے شرمناک واقعات کو بہانہ بنا کر خواتین کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ اس دوران تشویشناک خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان گرفتاریوں کے دوران خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات بھی پیش آئے‘‘
فریحہ ادریس اس تاثر کو غلط قرار دیتی ہیں کہ پی ٹی آئی میں صرف غیر نظریاتی لوگ تھے۔ وہ کہتی ہیں ”ملائکہ بخاری نے بحیثیت رکن قومی اسمبلی زنا بالجبر کے خلاف قانون میں ترمیم میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ نظریاتی طور پر بہت مضبوط تھیں اور نظریے کے لیے ہی انہوں نے اپنی برطانوی شہریت بھی چھوڑی تھی۔ ان کی طرح اور بھی بہت سی نظریاتی خواتین تھیں، لیکن اب ان جیسی خواتین کا سیاست میں آنا شاید ممکن نہیں رہا‘‘
تحفظ حقوق نسواں کی کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ موجودہ کریک ڈوان کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اور خواتین سیاسی کارکنوں سے انتہائی نامناسب سلوک کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے خواتین کے لیے سیاست میں حصہ لینا آئندہ مشکل ہوجائے گا
انہوں نے کہا ”ہمارا معاشرہ قدامت پسند ہے۔ اس پدر سری معاشرے میں پہلے ہی عورت کے لیے سیاست میں حصہ لینا بہت مشکل ہے۔ اب زیادہ قدامت پسند آبادی والے علاقوں میں جب عورتیں سیاست میں حصہ لینے کے لیے اپنے بڑوں سے اجازت مانگیں گی، تو انہیں ایسے ہی مناظر دکھائے جائیں گے، جن میں پولیس خواتین سیاسی کارکنوں کو گھیسٹ رہی ہو۔‘‘
فرزانہ باری کے مطابق ان مناظر کا معاشرے پر گہرا اثر ہوگا۔ وہ کہتی ہیں ”اب خواتین کے لیے عملی سیاست میں شرکت کے راستے اور بھی مسدود ہو جائیں گے اور انہیں سیاست میں حصہ لینے کی اجازت مشکل سے ہی ملے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی نمائندگی اور بھی کم ہو جایے گی۔‘‘