ترکی میں اتوار اٹھائیس مئی کو ہونے والے صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کی رائے دہی کے نتیجے میں موجودہ صدر رجب طیب ایردوآن نے قطعی اکثریت حاصل کر لی۔ ایردوآن اب سن 2028 تک سربراہِ مملکت کے منصب پر فائز رہیں گے
واضح رہے کہ تقریباً 85 ملین کی آبادی والے ملک ترکی میں اتوار کے روز ہونے والی رائے دہی میں قریب 64 ملین رائے دہندگان کو اس لیے صرف دو ہفتے بعد ہی ایک بار پھر ووٹنگ کے لیے کہا گیا تھا کہ 14 مئی کے دن انہی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار قطعی اکثریت حاصل نہیں کر سکا تھا
تب موجودہ صدر ایردوآن بہت معمولی فرق سے قطعی اکثریت یعنی 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے اور ان کے قریب ترین حریف ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے سیکولر رہنما کمال قلیچ دار اولو رہے تھے، جو اتوار کی رائے دہی میں ان کے واحد حریف بھی تھے
ترکی کی سپریم الیکشن کونسل (وائے ایس کے) کے چیئرمین احمت یینیر نے باضابطہ طور پر الیکشن کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ طیب ایردوآن 52.16 فیصد ووٹ حاصل کر کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ یہ کل دو کروڑ 77 لاکھ ووٹ بنتے ہیں
انہوں نے بتایا کہ 99.43 فیصد بیلٹ باکسز کھولنے کے بعد اردوغان کے حریف کلچداروگلو کو 47.86 فیصد ووٹ ملے
صدر اردوغان فتح کے بعد دارالحکومت انقرہ پہنچے جہاں وہ صدارتی محل کے باہر بڑی تعداد میں جمع اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”آپ نے ہمیں دوبارہ یہ ذمہ داری دی ہے۔ ہم سب مل کر اسے ترکی کی صدی بنائیں گے“
اس سال ترکی جدید جمہوریہ ترکی کے سو سالہ سالگرہ منا رہا ہے۔ ایردوآن نے صدارتی محل سے تقریر کرتے ہوئے کہا ”ترک تاریخ کے سب سے اہم انتخابات میں سے ایک میں آپ نے ترکی کی صدی کا چناؤ کیا۔ یہ وقت متحد اور اکٹھے ہونے کا ہے۔ اب یہ کام کرنے کا وقت ہے۔ ہماری اولین ذمہ داری ان شہروں کی آبادکاری ہے جو چھ فروری کے زلزلے میں تباہ ہوئے تھے اور اس کے ساتھ لوگوں کو بہتر زندگیاں حاصل کرنے میں مدد کرنا ہے“
انہوں نے کہا اپوزیشن جماعت نے 2018 میں 146 سیٹیں حاصل کی تھیں لیکن سنہ 2023 میں 169 اس لیے حاصل کیں کیونکہ انہوں نے باقی جماعتوں سے اتحاد کیے، ’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مضبوط ہوئے۔‘
ایردوآن نے یاد کروایا کہ پیر کو سلطنتِ عثمانیہ کو استنبول فتح کیے ہوئے 570 برس ہو جائیں گے ”وہ ہماری تاریخ میں ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا، جس نے ایک صدی کو ختم اور ایک نئے باب کا آغاز کیا تھا۔ مجھے امید ہے کہ یہ الیکشن بھی ویسا ہی ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے“
کیا اپوزیشن کو جیتنے کی امید بھی تھی؟
کہا جا رہا تھا کہ اگر ایردوآن کے حریف کو ان کی پچیس لاکھ ووٹوں کی برتری کو ختم کرنا ہے تو انھیں ایک معجزے کی ضرورت ہوگی۔ وہ معجزہ نہیں ہو سکا اور اب ایردوآن اگلے پانچ سال کے لیے بھی صدر رہیں گے۔ مبصرین کے مطابق ان کی پارلیمان میں پوزیشن کمزور ہوئی ہے لیکن اب بھی اپنے وسیع اختیارات کے باعث ان کی گرفت مضبوط ہے
اگر سچ پوچھا جائے تو ایردوآن کے حریف قلیچ دار اولو کے اتحادیوں کو بھی اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ ایردوآن کو ہرا سکیں گے۔ تاہم اس کے باوجود متحدہ حزبِ اختلاف کے رہنما نے یقینی شکست نظر آنے کے باوجود ہار تسلیم نہیں کی
تجزیہ نگار پال کربی کے مطابق ترک صدر اپنے ملک میں تو ایک طاقتور رہنما ہیں ہی لیکن وہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک اہم رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں، جو ویسے تو مغرب کے نیٹو اتحاد کا حصہ ہیں لیکن ان کی نظریں وقت کے ساتھ مشرق کی طرف ہیں
روس اور یوکرین دونوں کے رہنماؤں نے انھیں فتح پر فوری طور پر مبارکباد پیش کی ہے کیونکہ ایردوآن نے اس جنگ میں ثالث کا کردار ادا کیا ہے اور وہ گذشتہ برس بحیرہ اسود سے گندم کی تجارت برقرار رکھنے کے حوالے سے مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کر چکے ہیں
وہ اکثر ایک مشکل نیٹو اتحادی کے طور پر جانے جاتے ہیں کیونکہ وہ کچھ تحفظات کی وجہ سے سویڈن کے اتحاد کا حصہ بننے کے خلاف ایک رکاوٹ بنے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ سویڈن کے وزیرِ اعظم الف کرسٹیرسن نے ایردوآن کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ’ہماری مشترکہ سکیورٹی مستقبل میں ترجیح رہے گی۔‘
اردوغان کی جانب سے روسی میزائل ڈیفنس سسٹم خریدنے کا فیصلہ بھی ان کے نیٹو اتحادیوں کے لیے ہضم کرنا مشکل تھا
یہ بات ان کی اہمیت کا مظہر ہے کہ انھیں برطانیہ، فرانس، اور یورپی یونین کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک سے ہی مبارکباد موصول ہوئی ہے
کمال اتاترک کے بعد ترکی کے سب سے طاقتور رہنما
سلطنتِ عثمانیہ کی فوج کے سابق کمانڈر مصطفیٰ کمال اتاترک نے جمہوریہ ترکی کی بنیاد 1923 میں رکھی تھی اور اس میں ’سیکولر‘ طرزِ حکومت (دراصل اسلام مخالف) کی شروعات ہوئی تھیں جو ایک روایتی طور پر قدامت پسند معاشرے میں کرنا مشکل تھا
اس کے بعد سے ملک کی فوج نے چار مختلف حکومتوں کو گرایا جو ان کے نزدیک سیکولرازم کے نظریے کے لیے خطرہ تھیں۔ کئی دہائیوں سے معاشرے کے اسلام پسند حصے کو اس بات کا احساس رہتا تھا کہ اسے ریاست کی جانب سے جبر کا سامنا ہے
رجب طیب ایردوآن (جو خود 1999 میں اس لیے جیل گئے تھے کیونکہ انہوں نے نام نہاد سیکولر ریاست پر تنقید کی تھی) نے سنہ 2003 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے سخت گیر اور جابرانہ سیکولر طرزِ حکمرانی میں تبدیلی لائی ہے۔ اس کے باعث انھیں ترکیہ کے عوام خاص طور پر اسلام پسند حلقوں سے غیر مشروط حمایت حاصل ہو گئی ہے
وقت کے ساتھ انہوں نے اپنی پوزیشن مضبوط کرتے ہوئے کئی اسلام مخالف قوانین کو ختم کیا، اپنے اتھارٹی میں اضافہ کیا اور فوج کے کردار کو محدود کر دیا ۔ وہ پہلے ملک کے وزیرِ اعظم تھے تاہم وہ سنہ 2014 میں صدر بن گئے۔ سنہ 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد انہوں نے اپنے اختیارات میں ڈرامائی انداز میں اضافہ کر لیا
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی سیاسی زندگی پر ایک نظر
ایردوآن کو جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال پاشا کے بعد ملک میں اب تک کا سب سے مضبوط حکمران خیال کیا جاتا ہے
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اس سال کے آغاز میں اپنے اقتدار کی دو دہائیاں مکمل کیں۔ ان بیس سالوں کے دوران انہوں نے پہلے بطور وزیر اعظم اور بعد میں صدر کے طور پر ترکیہ کی باگ دوڑ سنبھالے رکھی
انہتر سالہ ایردوآن نے اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں ایک مصلح کے طور پر انسانی حقوق اور آزادیوں کو توسیع دی۔ ان کے ایسے ہی قدامات کے نتیجے میں اس اکثریتی مسلم ملک کی یورپی یونین کی رکنیت کے لیے مذاکرات شروع کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ تاہم بعد میں ان پر سخت گیر رویہ اپنانے کا الزام عائد کیا گیا
ذیل میں چند نکات کی مدد سے ان سیاسی زندگی کا مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے
27 مارچ 1994: ایردوآن اسلامک ویلفیئر پارٹی کے ٹکٹ پر استنبول کے مئیر منتخب ہوئے
12 دسمبر 1997: عدالت نے ایک نظم پڑھنے پر نام نہاد سیکولر قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں ایردوآن کو ’نفرت بھڑکانے‘ کے جرم میں چار ماہ قید کی سزا سنائی
14 اگست 2001: ایردوآن نے اسلامک ویلفیئر پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنے اصلاح پسند ونگ کے دیگر ارکان کے ساتھ مل کر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی، یا اے کے پی کی بنیاد رکھی
3 نومبر 2002: اپنے قیام کے صرف ایک سال بعد اے کے پی نے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کر لی، تاہم ’سزا یافتہ‘ ہونے کی وجہ سے ایردوآن ان انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے تھے
9 مارچ 2003: ایردوآن اپنے پر سے سیاسی پابندی ہٹائے جانے کے بعد ایک خصوصی الیکشن میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور صرف پانچ روز بعد ہی اپنے ایک ساتھی کی جگہ وہ وزیر اعظم بن گئے
3 اکتوبر 2005: ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے بات چیت شروع کی
22 جولائی 2007: ایردوآن نے انتخابات میں مجموعی طور پر 46.6 فیصد ووٹ حاصل کیے
20 اکتوبر 2008: حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث فوجی افسران اور دیگر شخصیات کے خلاف ٹرائلز کا پہلا سلسلہ شروع ہوا
12 ستمبر 2010: ایردوآن نے آئینی تبدیلیوں پر ریفرنڈم جیت لیا، جس کے تحت حکومت کو ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری، فوج کے اختیارات کم کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کا اختیار ملا کہ صدر کا انتخاب پارلیمنٹ کے بجائے قومی ووٹ سے ہو
12 جون 2011: ایردوآن نے عام انتخابات میں 49.8 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی
10 اگست 2014: ایردوآن نے براہ راست انتخاب کے ذریعے ترکی کے پہلے صدراتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی
7 جون 2015: اے کے پی نے پارلیمان میں اپنی اکثریت کھو دی۔ اس کے بعد ایک خودکش حملے سمیت کئی مہینوں کے عدم تحفظ کے بعد نومبر میں دوبارہ انتخابات میں اس پارٹی نے اپنی کھوئی ہوئی پارلیمانی اکثریت دوبارہ حاصل کر لی
15 جولائی 2016: صدر ایردوآن کی حکومت ایک انتہائی شدید فوجی بغاوت سے بچ گئی کیونکہ عوام نے فوج کے خلاف سخت مزاحمت شروع کر دی۔ اس کوشش کا الزام ایردوآن کے ایک سابق اتحادی فتح اللہ گولن کے پیروکاروں پر لگایا گیا۔ اس کے بعد حکومت نے گولن کی تنظیم کے ارکان کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کیا
16 اپریل، 2017: ایک ریفرنڈم میں ترک ووٹروں نے ملک کا سیاسی نظام پارلیمانی جمہوریت سے ایگزیکٹو یا صدارتی نظام پر منتقل کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ ناقدین اسے ایردوآن پر مشتمل ’ایک آدمی کی حکمرانی‘ کہتے ہیں
24 جون 2018: ایردوآن ایک مرتبہ پھر انتخابات میں 52.59 فیصد ووٹ لے کر ایگزیکٹو اختیارات کے ساتھ ترکی کے پہلے صدر بن گئے
22 جون 2019: اے کے پی کو اس وقت ایک بڑا دھچکا پہنچا، جب وہ استنبول کے میئر کے لیے انتخابات میں ہار گئی۔