دکھ کی جاگیر میں ہل نہ چلائیں، باہر نکلیں

حسنین جمال

شہباز تاثیر کی وڈیو دیکھ کے صرف ایک بات سمجھ آتی ہے، تلخ وقت گزر جائے تو اس میں سے نکل آئیں۔ اسے یادداشت کا حصہ مت بنائیں

شہباز اغوا ہوئے اور تقریباً چار سال مغوی رہے، انہیں تاوان کے لیے اٹھایا گیا تھا، ان پر تشدد کی ویڈیوز ان کی والدہ کو بھیجی جاتیں اور کہا جاتا کہ انہیں مکمل دیکھیں، ویڈیو کے بیچ میں ہی ہمارا پیغام ہوگا

سوچیں کہ بیٹے کی کمر سے گوشت نوچا جا رہا ہے اور اسے پتہ ہے کہ ماں دیکھے گی!

بی بی سی کو انٹرویو میں شہباز تاثیر نے بتایا کہ جب رہائی کا وقت آیا تو میں نے سوچا کہ اگر میں یہاں سے نکلتے ہوئے وہ سارا دکھ اور تکلیف ساتھ لے کر جاؤں گا، جو ادھر میں نے بھگتا، تو میں رہائی محسوس نہیں کر سکوں گا، میں ہمیشہ قید رہوں گا

شہباز تاثیر ماضی کی قید میں نہیں رہنا چاہتے تھے۔ نیا حال، فریش مستقبل چاہتے تھے تو انہوں نے کسی حساب کتاب کا سوچے بغیر اس ساری اذیت کو پھلانگا اور باہر نکل آئے

یہ سوچ انہیں نیلسن منڈیلا کی بائیوگرافی سے ملی اور ہم لوگ جو کتابیں نہیں پڑھتے، ہمیں ان کی وڈیو سے

کہنا آسان لگتا ہے۔ جب کوئی ڈاکٹر، ماہر نفسیات یا ہمدرد دوست آپ سے کہتا ہے کہ بس جی، ہو گیا جو ہونا تھا، اب اسے بھول جائیں۔ بندے کا دل کرتا ہے اگلے کی باقاعدہ پھینٹی لگائے کہ تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے کہ میرے ساتھ کیا ہوا تھا؟

بات لیکن وہی ہے کہ مشکل وقت کو آپ کب تک اپنے ساتھ گھسیٹ سکتے ہیں؟

جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں، آپ کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں، جن کی خواہش ہے کہ آپ کے چہرے پہ وہ مسکراہٹ آئے جو اس خاص حادثے سے پہلے ہوا کرتی تھی ۔۔۔ کیا وہ سب بھی تھک ہار کے آپ کا وہ موہنا چہرہ بھول جائیں؟

دوست سمجھتے ہیں، اولاد جانتی ہے، بھائی بہن کو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کس اذیت میں ہیں لیکن وہ جو مرضی کر لیں آپ نے قید سے باہر تب آنا ہے جب آپ چاہیں گے۔ نہیں چاہتے تو دنیا میں ایسی کوئی طاقت نہیں، جو آپ کو رہا کروا سکے۔

چاہنے، خوش رہنے کی خواہش کرنے اور واپس زندگی کی طرف لوٹنے کی سوچ جب پہلے دن آپ کے دماغ میں آتی ہے تو سمجھ جائیں کہ اب ایکشن کا وقت ہے۔

کوئی دوست نہیں، سننے والا موجود نہیں تو اپنی ساری تکلیف ایک کاغذ پر لکھیں اور اسے کونے میں رکھ دیں۔ دوسری بار لکھیں، تیسری بار لکھیں ۔۔۔ لکھ نہیں سکتے تو خود اپنی آواز ریکارڈ کریں، بولیں اور تین چار بار اپنی ساری تلخی اس آڈیو میں انڈیل دیں

آپ کو لگے گا کہ بوجھ ہلکا ہوا ہے۔ دو چار دن بعد وہ سب کچھ پڑھیں، جتنی بار لکھا تھا سارے کاغذ پڑھیں، جتنی بار ریکارڈ کیا تھا ساری آواز سنیں ۔۔۔ کوئی نئی تفصیل دماغ میں آتی ہے تو اسے بھی نوٹ کر لیں

تین چار ہفتے بعد آپ کو لگے گا کہ بوجھ کم ہے۔ جب یہ محسوس ہونا شروع ہو جائے تو بس وہ کاغذ جلا دیں، پانی میں بہا دیں اور آڈیو اگر کوئی ہے تو ڈیلیٹ کر دیں

زندگی کا ایک پورا باب اس طرح بند نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ جو رہائی کا عمل ہے، آپ کو لگے گا کہ اس میں کچھ بہتری آئی ہے۔ بعد میں چاہیں تو کسی اچھے دوست سے اس بارے میں بات کی جا سکتی ہے

ایک بہت بڑی غلطی آج کل ذہنی مسائل پہ مشورہ دینے والے یہ کرتے ہیں کہ متاثرہ شخص کو سب کچھ لکھ کر یا ریکارڈ کرنے کے بعد اسے ’پبلک‘ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ مت کیجے، یہ ہرگز نہ کریں!

آپ کی تلخ یادیں، آپ کے دکھ، آپ کی شرمندگی، آپ کی پریشانی، آپ کی اذیت، وہ سب کچھ اگر آپ لوگوں کے سامنے لانے یا کسی کو دکھانے کے لیے ریکارڈ کریں گے تو کہیں نہ کہیں آپ ڈنڈی مار جائیں گے۔ اپنے لیے لکھیں، سب کچھ لکھیں اور بس پھر اسے تلف کر دیں!

دکھ کی جاگیر وسیع ہوتی ہے لیکن اس کے اندر مسلسل ہل چلانا فصلیں تباہ کرنے کے علاوہ کسی کام نہیں آتا۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close