گزشتہ روز پاکستان کے دفتر شماریات کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اس سال مئی میں، 2022ع کے مئی کے مقابلے میں افراطِ زر کی شرح 37.97 فیصد رہی۔ اس عرصے کے دوران پورے جنوبی ایشیا میں کسی بھی دوسرے ملک میں افراطِ زر کی شرح اتنی زیادہ نہیں تھی
قبل ازیں گزشتہ ماہ ہی دفتر شماریات نے بتایا تھا کہ رواں برس اپریل میں صارفین کی طرف سے اشیائے ضرورت کی خریداری کے لیے اد اکی جانے والی قیمتوں کا انڈکس (کنزیومر پرائس انڈکس یا سی پی آئی) 36.5 فیصد رہا تھا
سی پی آئی کی یہ شرح پاکستان میں ملکی دفتر شماریات کی طرف سے ریکارڈ کردہ آج تک کی سب سے اونچی شرح تھی
جنوبی ایشیا کی سطح پر پاکستان میں افراطِ زر کی شرح کا 38 فیصد ہو جانا، بحران زدہ ملک سری لنکا میں ریکارڈ کی گئی ایسی ہی شرح سے بھی کہیں زیادہ بنتا ہے۔ مئی میں سری لنکا میں افراطِ زر کی شرح 25.2 فیصد رہی تھی
پاکستانی دفتر شماریات نے بتایا کہ سالانہ بنیادوں پر 38 فیصد اضافے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ماہانہ بنیادوں پر بھی افراطِ زر کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ گزشتہ ماہ پاکستان میں افراطِ زر کی شرح اس سال اپریل کے مقابلے میں تقریباً 1.6 فیصد زیادہ ہو گئی
دفتر شماریات کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پچھلے ماہ پاکستان میں اشیائے ضرورت میں سے سب سے زیادہ اضافہ سبزیوں، دالوں اور مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں ریکارڈ کیا گیا
پاکستان میں افراط زر کی شرح میں اس سال کے اوائل میں اس وقت سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جب وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکج کی اگلی قسط کے حصول کے لیے ایسے مالیاتی اقدامات کیے تھے، جنہوں نے عوام جو مہنگائی کے جہنم جھونک دیا
ان اقدامات کا فیصلہ بھی اسلام آباد حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر اور اسی کی عائد کردہ شراط کے تحت کیا تھا۔ تاہم اس کے بعد بھی پاکستانی حکومت کو رقوم کی وہ اگلی قسط ابھی تک نہیں مل سکی، جس کے لیے یہ اقدامات کیے گئے تھے
پاکستانی دفتر شماریات کے مطابق ملک میں افراطِ زر کی شرح اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ مئی 2022ء کے مقابلے میں مئی 2023ء میں آمد و رفت اور سامان کی نقل و حمل پر آنے والی لاگت میں بھی 50 فیصد سے زائد کا اضافہ ہو چکا تھا
پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور مالیاتی مرکز کراچی میں ایک سرمایہ کار محمد سہیل نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ”افراطِ زر کی اتنی اونچی شرح غریبوں اور متوسط طبقے کے شہریوں کو سب سے بری طرح متاثر کرتی ہے۔ اس لیے کہ اس شرح میں اگر صرف ایک فیصد بھی اضافہ ہو، تو ایسے سماجی طبقات کو ضروریات زندگی کے اخراجات پورا کرنے کے لیے دستیاب مالی وسائل یکدم ناکافی ہو جاتے ہیں۔“