مصنوعی ذہانت سے دنیا کی تباہی کی وارننگ محض ’سائنس فکشن‘ ہے: ماہر

ویب ڈیسک

آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک پروفیسر کا کہنا ہے ”مصنوعی ذہانت کے باعث ’ٹرمینیٹر منظرنامے‘ کا امکان ’صفر کے قریب‘ ہے“

ٹیکنالوجی اور ریگولیشن کی پروفیسر سینڈرا واچر نے سان فرانسسکو میں قائم سینٹر فار اے آئی سیفٹی کی جانب سے جاری کیے گئے ایک خط کو ’پبلسٹی سٹنٹ‘ (مشہوری حاصل کرنے کا حربہ) قرار دیا ہے، جس میں متنبہ کیا گیا تھا کہ ’یہ ٹیکنالوجی انسانیت کا صفایا کر سکتی ہے‘

واضح رہے کہ مذکورہ خط میں متنبہ کیا گیا تھا کہ ان خطرات کو فوری طور پر وبائی امراض یا جوہری جنگ کی طرح دیکھنا چاہیے۔ اس پر مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے بانیوں سمیت درجنوں ماہرین نے دستخط کیے تھے

برطانیہ کے وزیراعظم رشی سونک نے بدھ کو سینٹر فار اے آئی سیفٹی کے بیان کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ”حکومت اس معاملے کو بہت غور سے دیکھ رہی ہے“

تاہم پروفیسر سینڈرا واچر کا کہنا ہے کہ خط میں جو خطرہ ظاہر گیا وہ ’سائنس فکشن فینٹسی‘ ہے۔ انہوں نے اس کا موازنہ فلم ’دی ٹرمینیٹر‘ سے کیا

انہوں نے مزید کہا ”خطرات ہیں، سنگین خطرات ہیں، لیکن یہ وہ خطرات نہیں ہیں جو اس وقت سب کی توجہ کا مرکز ہیں۔۔ اس نئے کھلے خط میں جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے، وہ ایک سائنس فکشن تصور ہے، جو وقتِ حاضر کے مسئلے سے توجہ ہٹاتا ہے۔ تعصب، امتیازی سلوک اور ماحولیاتی اثرات سے وابستہ مسائل!“

پوری بحث کسی ایسی چیز پر کی جا رہی ہے جو ممکن ہے آنے والے چند سو برسوں میں ہو یا نہ بھی ہو۔ آپ اس کے بارے میں کچھ خاص نہیں کر سکتے کیونکہ یہ مستقبل بعید میں ہے

”لیکن میں تعصب اور امتیازی سلوک کو ناپ سکتی ہوں، میں ماحولیاتی اثرات کی پیمائش کر سکتی ہوں۔ درمیانے درجے کے ڈیٹا سینٹر کو ٹھنڈا کرنے کے لیے روزانہ تین لاکھ 60 ہزار گیلن پانی درکار ہوتا ہے، یہی وہ قیمت ہے جو ہمیں ادا کرنی پڑتی ہے۔ یہ ایک پبلسٹی سٹنٹ ہے۔ اس سے فنڈنگ آئے گی“

پروفیسر سینڈرا واچر نے کہا ”آئیے لوگوں کے نوکریوں سے نکلنے پر توجہ دیتے ہیں۔ ٹرمینیٹر کے منظر نامے سے ان چیزوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے“

وہ کہتی ہیں ”فی الحال ہم ٹیکنالوجی کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں، اس سے (مصنوعی ذہانت کی وجہ سے انسانی معدومیت کا) امکان صفر کے قریب ہے۔ لوگوں کو دوسری چیزوں کی فکر کرنی چاہیے“

واضح رہے کہ مصنوعی ذہانت کی ایپس آن لائن وائرل ہو گئی ہیں، صارفین مشہور شخصیات اور سیاست دانوں کی جعلی تصاویر پوسٹ کر رہے ہیں، اور طلبہ یونیورسٹی لیول کے مضامین تیار کرنے کے لیے چیٹ جی پی ٹی اور دیگر زبان سیکھنے والے ماڈلز کا استعمال کر رہے ہیں

لیکن مصنوعی ذہانت زندگی بچانے والے کام بھی کر سکتی ہے، جیسا کہ جیسے ایکس رے، اسکین اور الٹرا ساؤنڈ جیسی طبی تصاویر کا تجزیہ کرنے والے الگورتھم، جس سے ڈاکٹروں کو دل کی بیماریوں اور کینسر جیسی بیماریوں کی شناخت اور تشخیص کرنے میں مدد ملتی ہے

یہ بیان سینٹر فار اے آئی سیفٹی نے جاری کیا ہے، جو ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے، جس کا مقصد ’مصنوعی ذہانت سے سماجی سطح پر خطرات کو کم کرنا‘ ہے

اس میں کہا گیا: ’وبائی امراض اور ایٹمی جنگ جیسے دیگر سماجی سطح کے خطرات کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت سے معدومی کے خطرے کو کم کرنا بھی عالمی ترجیح ہونی چاہیے‘

پروفیسر سینڈرا واچر نے جس کھلے خط کی بات کی ہے، اس میں ٹیکنالوجی سے جڑے ماہرین نے لکھا تھا کہ مصنوعی ذہانت مستقبل میں انسانوں کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی ہے

گوگل ’ڈیپ مائنڈ‘ اور ’اینتھروپک‘ جیسی کمپنیوں کے سینئر مالکان سمیت اس ماہ کے شروع میں گوگل سے اپنی ملازمت چھوڑنے والے مصنوعی ذہانت کے بانی جیفری ہنٹن نے اس خط پر دستخط کیے ہیں، جنہوں نے یہ کہہ کر ملازمت چھوڑ دی تھی کہ ’غلط ہاتھوں میں مصنوعی ذہانت، لوگوں کو نقصان پہنچانے اور انسانیت کے خاتمے کے لیے استعمال ہو سکتی ہے‘

پروفیسر سنڈرا واچر اس ساری مہم کو مشہوری حاصل کرنے اور دنیا کو لاحق اصل خطرات اور مسائل سے توجہ ہٹانے کا حربہ قرار دیتی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close