سوشل میڈیا آنے کے بعد ہمارے ملک میں سیاحت کے شوق میں بے ہنگم اضافہ تو ہوا ہے لیکن سیاحتی اخلاقیات سے عاری ہونا بھی ایک المیہ بن کر سامنے آیا ہے
سیر و سیاحت کے شوقین افراد جس ملک کے مختلف سیاحتی مقامات، گلیشئرز، ندی نالوں، دریاؤں سرسبز علاقوں، چٹانوں اور آثارِ قدیمہ کو آلودہ کر رہے ہیں، جس سے ہمارے مجموعی معاشرتی رویے اخلاقیات اور تربیت کی خامیوں کا اظہار ہوتا ہے۔ بحثیت معاشرہ ہم معاشرتی اقدار، اخلاقیات اور اصولوں کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں
ایسا ہی ایک واقعہ گلگت بلتستان کی خوبصورت وادی ہنزہ میں پیش آیا، جہاں کچھ سیاح سماجی روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک گھر کے احاطے میں گھس گئے اور وہاں پھل توڑنے کے دوران نہ صرف درختوں کو نقصان پہنچایا بلکہ وہاں کچرا بھی پھیلایا
گھر کی مالک نشاط ریاض، جو کہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں، نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے ”ہم ذمہ دار سیاحت کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن نیچر ٹیررازم کی کوئی گنجائش نہیں“
نشاط ریاض نے ایک ٹویٹ میں لکھا ”افسوس ہے کہ کچھ پاکستانی سیاح ہنزہ میں ہمارے گھر میں گھس آئے، چیری کے درخت کی شاخیں توڑیں اور اردگرد کچرا بھی پھیلایا“
ان کا مزید کہنا تھا ”ہنزہ اپنی مہمانوازی کے لیے مشہور ہے۔ ہم اپنے مہمانوں کو تازہ پھل اور سبزیاں چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔“
انہوں نے سیاحوں کے اس رویے پر دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”کاش وہ ہم سے پہلے پوچھ لیتے اور پھل بھی لے لیتے لیکن درختوں اور جگہ کو نقصان نہ پہنچاتے۔
ہم ذمہ دار سیاحت کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن نیچر ٹیررازم کی کوئی گنجائش نہیں“
نشاط ریاض کے ٹوئٹر پر شکایت کرنے کے بعد دیگر سوشل میڈیا صارفین بھی سیاحوں کے غیر ذمہ دارانہ برتاؤ پر تنقید کرتے ہوئے نظر آئے
آفتاب احمد گورایہ نے لکھا ”یہ سیاحتی دہشت گردی کسی صورت میں قبول نہیں۔ اگر آپ خود کو ان سستی حرکتوں سے باز نہیں رکھ سکتے تو گھر پر ہی رہیں“
ایک اور صارف سیاحوں کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”انہیں علاقائی لوگوں کا کوئی احترام نہیں، کچرا یہیں چھوڑ جاتے ہیں، اجازت کے بغیر تصاویر بناتے ہیں اور بلا اجازت دھونس کے ساتھ کہیں بھی داخل ہوجاتے ہیں“
سید عباس علی شاہ کہتے ہیں ”ہنزہ کا کلچر اور مہمانوازی انتہائی خوبصورت ہے اور جو لوگ اسے نقصان پہنچاتے ہیں ان سے بُرا کوئی نہیں۔ اگر انہوں پوچھ لیا ہوتا تو یہ پھل انہیں مفت میں مل جاتے۔“