آسمان پر ایک گھڑ سوار (امریکی ادب سے منتخب افسانہ)

ایمبروز بیرس (مترجم: سیّد سعید نقوی)

1861ع کے موسم خزاں کی ایک سنہری دوپہر، ایک سپاہی جنوبی ورجینیا کی ایک سڑک کے کنارے پتوں کے ایک ڈھیر پر لیٹا تھا۔ وہ پیٹ کے بل اوندھا یوں لیٹا ہوا تھا کہ اس کے پاؤں انگلیوں کا سہارا لیے ہوئے تھے اور اس کا سر بائیں بازو پر رکھا تھا۔ اپنے سیدھے ہاتھ میں اس نے اپنی بندوق نرمی سے پکڑی ہوئی تھی۔ اگر اس کے ہاتھ پاؤں یوں ترتیب سے نہ بکھرے ہوتے اور اس کی پیٹی پر بندھی گولیوں کا بکس ایک تال سے نہ ہل رہا ہوتا، تو وہ بالکل مردہ ہی لگتا۔ وہ اپنے فرض کی بجا آوری کی جگہ پر سویا ہوا تھا۔ یوں دیکھ لیے جانا اس کی زندگی کا اختتام ہوتا، کیوں کہ اس کے جرم کی واقعی اور قانونی سزا موت ہی تھی۔

پتوں کا یہ ڈھیر، جس پر وہ لیٹا ہوا تھا، سڑک کے ایک موڑ پر تھا، جو جنوب کی سمت تیزی سے چڑھ کر ایک مقام پر مغرب کی جانب مڑتی ہے اور چوٹی کے ساتھ کوئی سو گز تک دوڑتی چلی جاتی ہے۔ یہاں پھر وہ جنوب کی جانب گھوم کر جنگل سے کئی خم دار پیچ کھا کر گزرتی ہے۔ اس دوسرے موڑ کا ایک نمایاں حصہ ایک بڑے پتھریلے ٹیلے کی ہموار سطح تھی۔ شمال کے رخ پر باہر نکلتا ہوا ٹیلہ، جس سے وادی کی پوری گہرائی پر نظر رکھی جا سکتی تھی، جہاں سے سڑک چڑھ کر اوپر آ رہی تھی۔ یہ ٹیلہ ایک اونچی ڈھلوان کا سرا تھا۔ اس کے حاشیے سے پھینکا ہوا پتھر، تیزی سے سیدھا کوئی ہزار فٹ نیچے صنوبر کے درختوں کی پھننگ پر جا گرتا۔ جس کٹاؤ پر سپاہی لیٹا تھا، وہ اسی ڈھلوان کا ایک اور چبوترا تھا۔ اگر وہ بیدار ہوتا تو یقیناً ایک وسیع منظر اس کے سامنے بکھرا ہوتا، نہ صرف سڑک کا وہ چھوٹا ٹکڑا اور وہ باہر کو چھجا بنائے ٹیلہ، بلکہ اس کے نیچے پوری ڈھلوان کے خد و خال بھی۔۔ شاید یہ دیکھ کر اسے چکر آ جاتا۔

سوائے اس وادی کی شمالی ترائی کے، یہ غیر آباد علاقہ جنگلات سے گھرا تھا۔ شمال میں ایک قدرتی چراہ گاہ تھی، جس میں بہتا جھرنا وادی کے سرے سے تو نظر نہیں آتا۔ یہ کھلا میدان کسی مکان کے پچھواڑے سے زیادہ وسیع نہیں لگتا تھا، لیکن حقیقت میں وہ کئی ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا۔ اس کا سبزہ اطراف کے جنگلات سے زیادہ شاداب تھا۔ چراہ گاہ کے اس پار عظیم ڈھلوانوں کا ایک سلسلہ تھا، اسی نوع کی جس پر ہم کھڑے جنگل کا نظارہ کر رہے ہیں، جس سے گزر کر کسی طرح یہ سڑک اس چوٹی تک پہنچ گئی ہے۔ اس مقام سے لیے جائزے سے تو واقعی یہ وادی بالکل بند لگتی تھی، اور یہ سوچنا پڑتا تھا کہ یہ سڑک جس نے وادی سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر لیا تھا، وہ اس کے اندر داخل کیسے ہوئی ہوگی۔۔ اور یہ جھرنا جو کوئی ہزار فٹ نیچے اس چراہ گاہ سے گزر رہا تھا، کہاں سے آ کر کہاں جاتا ہے؟

[2]

کوئی علاقہ اتنا جنگلی اور دشوار نہیں ہوتا، جب تک کہ انسان اسے میدانِ جنگ نہ بنا دے۔ اس جنگل کی ترائی میں پوشیدہ فوجی چوکیاں، جہاں سو سے بھی آدھے آدمی باہر نکلنے کے راستوں پر مامور ہوتے تو پوری فوج کو فاقہ زدہ کر کے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیتے۔ وفاقی انفنٹری کے پانچ رجمنٹ موجود تھے۔ گزشتہ تمام رات و دن پیش قدمی کے بعد اب وہ آرام کر رہے تھے۔ رات گئے وہ پھر سڑک پر آجائیں گے، اس جگہ تک چڑھ جائیں گے جہاں وہ بے وفا سنتری اس وقت سویا ہوا ہے۔ وہ پہاڑی کی دوسری ڈھلوان سے اتر کر درمیان شب دشمن کے کسی کیمپ کو جالیں گے۔ یہ سڑک کیوں کہ اس کے عقب کو جاتی تھی، تو انہیں امید تھی کہ وہ انہیں بے خبری میں جا لیں گے۔ ناکامی کی صورت میں ان کی صورت حال انتہائی مخدوش ہو جاتی، کسی حادثے یا نگرانی سے اگر دشمن کو ان کی حرکت کی خبر ہو جاتی تو وہ یقیناً ناکام ہوجاتے۔

پتوں کے ڈھیر پر سویا سنتری، کارٹر ڈروز نامی ورجینیا کا ایک جوان تھا۔ وہ متمول ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا۔ مغربی ورجینیا کے پہاڑی علاقوں میں دولت سے جو تن آسانی اور امیرانہ زندگی ممکن تھی، وہ اسے مہیا تھی۔ جہاں وہ لیٹا تھا، وہاں سے اس کا گھر محض چند میل کے فاصلے پر تھا۔ ایک صبح اس نے ناشتے کی میز پر کھڑے ہو کر نہایت سکون لیکن سنجیدگی سے اعلان کیا تھا کہ ”والد گرامی، گرافٹن میں ریاست کی ایک رجمنٹ آ گئی ہے، میں اس میں شامل ہونے جا رہا ہوں۔“

[3] باپ نے اپنے شیر جیسا سر اٹھا کر ایک لمحے کے لیے بیٹے کی جانب دیکھا، پھر بولا ”ٹھیک ہے میاں، تمھارے خیال میں تمھارے جو بھی فرائض ہیں، جاکر انہیں انجام دو۔ورجینیا جس کے لیے تم ایک غدار ہو، تمھارے بغیر بھی سلامت رہے گا۔ اگر ہم دونوں اس جنگ میں بچ گئے، تو اس مسئلے پر دوبارہ گفتگو کریں گے۔ جیسا کہ تم ڈاکٹر سے سن ہی چکے ہو، تمھاری ماں کی حالت نازک ہے۔ وہ چند ہفتوں سے زیادہ ہمارے درمیان نہیں رہے گی۔ لیکن اس کے پاس جو وقت بھی بچا ہے وہ بہت قیمتی ہے، اور بہتر یہ ہے کہ اسے ملوث نہ کیا جائے۔“

تو کارٹر ڈروز احتراماً اپنے باپ کے سامنے جھکا، جس نے انتہائی روایتی انداز میں، اپنے ٹوٹے دل کو چھپا کر اس کے سلیوٹ کا جواب دیا۔ وہ اپنے بچپن کا گھر چھوڑ کر سپاہی بننے چلا گیا۔ اپنے ضمیر، بہادری، انہماک اور جرأت مندی کی بدولت وہ جلد ہی اپنے ساتھیوں اور افسروں کی نظروں میں آ گیا۔ یہ ان ہی خوبیوں اور ان مضافات کے بارے میں اس کے علم کا شاخسانہ تھا کہ وہ اس انتہائی بیرونی چوکی پر اس خطرناک فرض پر مامور تھا۔ تھکن بہرحال فرائض پر غالب آ گئی اور وہ سو گیا تھا۔ اب یہ کون کہہ سکتا ہے کہ اس کے خواب میں کسی نیکی یا بدی کے فرشتے نے آ کر اسے اس مجرمانہ غفلت سے بیدار کیا تھا۔ سہ پہر کے پرسکون سناٹے میں، بنا کسی صوت و حرکت کے، قسمت کے کسی ان دیکھے پیام بر نے اس کے پپوٹوں پر انگلیاں پھیری تھیں۔ اس کی روح کے کانوں میں بیداری کے وہ جادوئی الفاظ پھونکے، جو کسی انسانی ہونٹوں سے تو ادا نہیں ہوئے، نہ کسی انسانی یاد میں در آئے۔ اس نے خاموشی سے اپنا سر پتوں سے اٹھا کر، پردہ پوش پودوں کے اس پار دیکھا، تو اچانک اس کی اپنی بندوق پر سیدھے ہاتھ کی گرفت مضبوط ہو گئی۔۔

اس کا پہلا احساس تو لطیف، جمالیاتی تھا۔ اس عظیم پایہ ستون نما ڈھلوان کے ٹیلے پر، آسمان کے پسِ منظر میں ایک شاندار گھڑ سوار بے حس و حرکت کھڑا تھا۔ وہ سوار گھوڑے کی پشت پر سیدھا، سپاہیانہ انداز میں ایسے سوار تھا، جیسے کوئی یونانی دیوتا چکنے پتھر سے ایسے تراشا گیا ہو کہ حرکت اس پتھر میں مقید ہو گئی ہو۔ اس کا بھورا لباس اس کے اطراف میں مدغم ہو گیا تھا۔ اس کا ساز و سامان اور گھوڑے کی زین شام کے سایوں کا حصہ بن گئی تھیں، اور اس جانور کی کھال پر بھی کوئی نشان نمایاں نہ تھا۔ کاربائن بندوق، جس کی نال کو کاٹ کر بہت مختصر کر دیا گیا تھا، زین کی موٹھ پر رکھی، سیدھے ہاتھ کی گرفت میں تھی۔ لگام تھامے اس کا بایاں ہاتھ نگاہوں سے اوجھل تھا۔ کھلے آسمان پر اس گھوڑے کی شبیہ مہارت سے تراشا مجسمہ لگ رہی تھی، جیسے ہوائوں کے پار ڈھلوانوں کا نظارہ کر ہی ہو۔ سوار کا چہرا ایسا ترچھا رخ تھا کہ صرف اس کی کنپٹی اور داڑھی ہی نمایاں تھی۔ وہ نیچے وادی کے دامن میں جھانک رہا تھا۔ آسمانی پسِ منظر نے یہ خطرہ مزید ابھار کر واضح کر دیا تھا۔ پھر اس پر ایک سپاہی کی حسیّت، جو دشمن کو قریب جان کر بیدار ہو جاتی ہے، اس سے دشمن کے زیادہ بے خوف اور کثیر التعداد ہونے کا اندیشہ ہوا۔

[4] ایک لمحے کے لیے ڈروز کو یہ وہم ہوا کہ وہ شاید جنگ کے اختتام تک سوتا رہ گیا ہے، اور اب ایک فاتحانہ تاریخ کا جشن منانے کے لیے آرٹ کا یہ نادر نمونہ اس ٹیلے پے ایستادہ کیا گیا ہے۔۔ وہ تاریخ، جس کا وہ اب ایک شرمناک باب تھا۔ لیکن اس گروہ کی خفیف سی حرکت سے اس کا یہ وہم زائل ہو گیا۔ بغیر اپنے پاؤں کو حرکت دیے، اس گھوڑے نے اپنا جسم کنارے سے ذرا پیچھے کھینچ لیا تھا۔ اس کا سوار پہلے کی مانند بے حس و حرکت ہی رہا تھا۔

پوری طرح بیدار اور صورت حال کی اہمیت سے چوکنا ہو کر، ڈروز نے بندوق کا بٹ اپنے رخسار سے لگا کر نالی کو جھاڑی کے اندر دور تک داخل کر دیا۔ بندوق کے گھوڑے پر انگلی رکھ کر اس نے شست سے گھڑ سوار کے سینے کے اہم ترین حصے کا نشانہ باندھا۔ لبلبی پر ہلکا سا دباؤ اور کارٹر ڈروز کا ضمیر کچوکے لگانا بند کر دیتا۔۔ اسی لمحے گھڑ سوار نے سر گھما کر اپنے پوشیدہ دشمن کی جانب دیکھا، جیسے وہ اس کے چہرے، اس کی آنکھوں میں جھانک رہا ہو۔۔ اس کے بہادر، ہمدرد دل کے اندر تک دیکھ رہا ہو۔۔ تو کیا جنگ میں اپنے کسی ایسے دشمن کو مار دینا اتنا ہولناک ہے کہ جس نے ہماری اور ہمارے ساتھیوں کی سلامتی کا راز جان لیا ہو؟ ایک دشمن، جس کی معلومات اس کی فوج کی تعداد سے بھی زیادہ خطرناک تھی!

کارٹر ڈروز بالکل پیلا پڑ گیا، اس کے بازو خوف سے شل ہو گئے، جب اس نے سڈول سیاہ اجسام کے گروہ کو آتش فشاں آسماں پر ڈوبتے اور ابھرتے دیکھا۔ وہ دائروں کی مانند متحرک تھے۔ اس کا ہاتھ اپنے ہتھیار کی گرفت کھو بیٹھا، اس کا سر بھی ڈھلک کر نیچے ہوگیا، یہاں تک کہ اس کا چہرا ان پتوں سے مس ہونے لگا، جن پر وہ لیٹا ہوا تھا۔

کچھ ہی دیر میں اس کا چہرا پھر زمین سے بلند ہو گیا۔ اس کے ہاتھوں نے بندوق پر اپنی جگہ سنبھال لی۔ انگشتِ شہادت لبلبی پر جم گئی۔ اس کا دل، دماغ و نگاہ صاف تھے، ضمیر پُرسکون۔۔ حجت تمام ہو چکی تھی۔ وہ اس دشمن کو زندہ گرفتار کرنے کی امید نہیں رکھتا تھا۔ اسے للکارنے کا مطلب اسے خبردار کرنا ہوتا، تاکہ وہ بھاگ کر اپنے کیمپ میں ساتھیوں تک یہ مہلک اطلاع پہنچا دے۔ اس کا سپاہیانہ فرض بہت واضح تھا۔

اس شخص کو گھات لگا کر ہلاک کر دینا ضروری تھا۔ لیکن ضروری تو نہیں! ممکن ہے کہ اسے کچھ بھی پتہ نہ چلا ہو۔ وہ شاید اس منظر کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو رہا ہو۔ اگر اسے زندہ رہنے دیا جائے تو ممکن ہے وہ مڑ کر بے فکری سے وہیں واپس لوٹ جائے جہاں سے وہ آیا تھا۔ یقیناً اس کے اگلے قدم سے یہ واضح ہوجائے گا کہ اس نے کوئی معلومات حاصل کی ہے یا نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ محض اس کی توجہ کی شدت رہی ہو۔

[5] ڈروز نے اپنا سر گھما کے ہواؤں کے پردوں کے نیچے گہرائی کی جانب دیکھا، جیسے کسی شفاف سطح سمندر سے اس کے پیندے میں جھانک رہا ہو۔ اس نے سر سبز چراہ گاہ میں آدمیوں اور ان کے گھوڑوں کی ایک خم کھاتی قطار دیکھی۔ درجنوں پہاڑی چوٹیوں کی نظروں کے عین سامنے، کوئی احمق کماندار اپنے تابع سپاہیوں کو کھلے آسمان تلے گھوڑوں کی پیاس بجھانے کی اجازت دے رہا تھا۔ ڈروز نے وادی سے نگاہیں ہٹا کر دوبارہ اپنی بندوق کی شست سے آسمان پر اس سپاہی اور اس کے گھوڑے کو دیکھا۔ لیکن اس بار اس کا نشانہ وہ گھوڑا تھا۔ اس کی یاد میں کسی الہامی فرمان کی مانند اس کے باپ کے الوداعی الفاظ ابھرے ”کچھ بھی ہو، تم اپنا فرض انجام دینا“ اب وہ پر سکون تھا۔ اس کے دانت مضبوطی سے لیکن بنا کسی سختی کے جمے ہوئے تھے۔ اس کی حسیّات کسی سوئے ہوئے بچے کی مانند پرسکون تھیں۔ اس کے جسم کے عضلات رعشے کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ شست باندھتے ہوئے اس نے جو سانس روک لی تھی، اب وہ رواں اور دھیمی تھی۔ فرض غالب آ گیا تھا۔ روح نے جسم کو ہدایت دی ”سکون سے، بنا حرکت کیے۔۔۔“ اس نے بندوق چلا دی۔

وفاقی فوج کا ایک افسر، جو معلومات کی تلاش میں یا مہم جوئی کی فطرت سے مجبور ، وادی میں اپنے خفیہ پڑاؤ کو چھوڑ کر، بے ارادہ ڈھلوان کی ترائی میں ایک کھلے حصے تک پہنچ گیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ مزید آگے بڑھنے سے کیا فوائد ممکن تھے۔ اس سے کوئی چوتھائی میل دور ، لیکن بظاہر ایک پھینکے ہوئے پتھر کے فاصلے پر صنوبر کے درختوں کے دامن سے ایک بہت بڑے ٹیلے کا چہرا ابھر رہا تھا۔ وہ اتنی اونچائی تک بلند تھا کہ اس کا اوپر کا کنارہ آسمان پر ایک واضح لکیر کی مانند تھا۔ اس کی جانب تو دیکھنے سے بھی چکر آتا تھا۔ نیلے آسمان کے پردے کے سامنے، ترائی کی جانب آدھے راستے تک یہ ایک واضح افقی تصویر تھی، اور وہ زیادہ دور پہاڑیاں بھی کم نیلی تو نہ تھیں۔ وہاں سے نیچے درختوں کے سروں تک، اس چکرا دینے والی چوٹی کی سمت نگاہیں بلند کرنے سے، اس افسر کو ایک حیرت منظر دکھائی دیا۔ گھوڑے کی پشت پر سوار ایک جوان ہواؤں کو چیرتا وادی میں اتر رہا تھا۔

وہ سوار فوجی انداز میں سیدھا بیٹھا تھا، زین مضبوطی سے کَسی ہوئی تھی۔ اس نے لگام سختی سے تھام رکھی تھی، تاکہ اس کا گھوڑا زیادہ تیزی سے اترائی میں نہ اتر جائے۔ اس کے ننگے سر پر لمبی ایال کسی کلغی کی مانند لہرا رہی تھی۔ اس کے ہاتھ گھوڑے کے بالوں کے غبار میں پوشیدہ تھے۔ اس جانور کا جسم ایسے متوازن تھا، جیسے اس کے کھر ہر قدم پر زمینی مزاحمت کا مقابلہ کر رہے ہوں۔ اس کی چال کسی سرپٹ دوڑ سے کم نہ تھی۔ لیکن افسر کی نگاہوں کے سامنے ہی وہ تھم گئی۔ چاروں پاؤں ایک ساتھ ایسے آگے بڑھے، جیسے چھلانگ لگا رہا ہو۔۔ کیا ہی قابل دید دوڑ تھی۔

[6] آسمان پر اس گھڑ سوار کے سائے نے اس افسر کو حیران و خوفزدہ کردیا۔ وہ جو خود کو کسی نئے آسمانی صحیفے کا چنیدہ مصنف تصور کرہا تھا۔ اپنے جذبات سے ایسا مغلوب ہوا کہ اس کے گھٹنے جواب دے گئے، اور وہ گر پڑا۔ عین اسی وقت اس نے درختوں میں کچھ گرنے کی آواز سنی، ایک آواز جو بنا کوئی گونج پیدا کیے ختم ہو گئی، اور پھر سناٹا چھا گیا۔
وہ افسر کچھ کانپتا ہوا دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا۔چھلے ہوئے گھٹنوں کی مانوس سنسناہٹ نے اس کے حواس بحال کرنے میں مدد کی۔ اپنی ہمت جمع کرکے وہ ڈھوان سے ترچھا دور بھاگا ۔ اس کے دامن سے دور اس مقام تک، جہاں اسے اس آدمی کے ملنے کی امید تھی۔ ظاہر ہے اس میں وہ ناکام رہا۔ اپنی اچٹتی نگاہ میں اس کا تصور اس خوبصورت مظاہرے کی شان، شوکت اور ارادے سے ایسا مزیّن ہوا تھا کہ اسے یہ خیال ہی نہیں رہا کہ آسمان کی گھڑ سوار فوج کی پیش قدمی کا رخ ترائی کی جانب ہے۔ اس کی متلاشی نگاہیں اس ڈھلوان کے دامن میں اپنا مطلوبہ ہدف دیکھ سکتی تھیں۔ آدھے گھنٹے بعد وہ اپنے کیمپ واپس پہنچ گیا۔

یہ افسر بہت دانا تھا۔ وہ ایک ناقابلِ یقین سچائی بیان کرنے کا نتیجہ جانتا تھا۔ اس نے جو دیکھا تھا وہ بیان نہیں کیا، لیکن جب کماندار نے اس سے پوچھا کہ کیا اپنی نگہبانی کے دوران اس نے پیش قدمی کے موافق کچھ دریافت کیا ہے، تو وہ بولا: ”جی جناب، جنوب کی سمت سے اس وادی میں اترنے کی کوئی سڑک نہیں ہے۔“ کماندار جو بہتر جانتا تھا، مسکرا دیا۔

گولی چلانے کے بعد پرائیوٹ کارٹر ڈروز نے اپنی بندوق دوبارہ بھری، اور اپنا چوکیداری کا فرض دوبارہ سنبھال لیا۔ بمشکل دس منٹ گزرے ہوں گے کہ ایک ریاستی سارجنٹ، ہاتھوں اور پاؤں کے بل گھسٹتا اس کے پاس آیا، ڈروز نے اپنا سر گھمایا، نہ ہی اس کی جانب مڑ کر دیکھا۔ وہ شناسائی کا کوئی اشارہ دیے بغیر وہ بے حس و حرکت لیٹا رہا۔

”تم نے گولی چلائی تھی؟“ سارجنٹ نے سرگوشی کی

[7] ”جی۔۔“
ـ”کس چیز پر؟“
”ایک گھوڑا۔۔۔ وہ وہاں، بہت دور ایک ٹیلے پر کھڑا تھا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اب وہ وہاں نہیں ہے، وہ ڈھلوان سے گر گیا تھا۔“

اس کا چہرا سفید پڑ گیا تھا، لیکن اس نے مزید کوئی جذبہ ظاہر نہیں کیا۔ یہ جواب دے کر اس نے اپنی نگاہیں موڑ لیں، اور خاموشی اختیار کرلی، سارجنٹ کچھ سمجھ نہ سکا۔

”دیکھو ڈروز“ ایک توقف کے بعد وہ بولا، ”اسرار پھیلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ میرا حکم ہے کہ مکمل رپورٹ دو۔ کیا گھوڑے پر کوئی سوار بھی تھا؟“

”جی۔۔۔“

”کون؟“

”میرے والد۔۔“

سارجنٹ اپنے پاؤں پر بلند ہوا، اور وہاں سے چل دیا۔ ”خدایا!“ وہ بولا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close