پاکستان کی پہلی ڈجیٹل مردم شماری: سندھ کی قوم پرست جماعتوں کو کیا تحفظات ہیں؟

ویب ڈیسک

مردم شماری صرف آبادی کی گنتی کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے مسائل کا تخمینہ اور وسائل کی تقسیم کا فیصلہ کیا جاتا ہے، آبادی کے تناسب سے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کے ذریعے صوبوں کو فنڈز مہیا کرنا اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹے بھی مردم شماری کی بنیاد پر مختص کیے جاتے ہیں۔ اسمبلی میں نشستیں اور حلقہ بندی کا عمل بھی مردم شماری سے نتھی ہے

ان تمام امور کی بنا پر آدمشاری کے ساتھ حساسیت کا پہلو بھی جڑا ہوا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مردم شماری ہمیشہ سے ایک انتہائی متنازع امر رہا ہے اور ہر مردم شماری کے نتائج سیاست کی نذر ہوجاتے ہیں، 2017 کی مردم شماری کے نتائج بھی بری طرح تنازعات کا شکار ہوگئے تھے جس کے سبب دوبارہ مردم شماری کروانے کا فیصلہ کیا گیا، اس فیصلے پر رواں برس عمل درآمد ہوا

حالیہ مردم شماری کی خاص بات یہ ہے کہ یہ پاکستان کی پہلی ڈجیٹل مردم شماری ہے، جو اس وقت اپنے اختتامی مراحل میں ہے، اس کا مقصد 2017ء کی مردم شماری سے جڑے تنازعات کا خاتمہ اور شفاف طریقے سے آبادی کو شمار کرنا تھا، جس کے نتائج پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو اتفاق ہو

ڈجیٹل مردم شماری کے تحت خودشماری کا آغاز رواں برس 20 فروری سے ہی ہو گیا تھا جس میں شہریوں کو گھر بیٹھے ویب پورٹل کے ذریعے اپنی اور اپنے گھرانے کی معلومات کے خود آن لائن اندراج کی سہولت دی گئی تھی، بعدازاں مردم شماری کا فیلڈ آپریشن یکم مارچ سے شروع کیا گیا تھا جسے ابتدائی طور پر 4 اپریل کو مکمل ہونا تھا تاہم اس کی آخری تاریخ میں 5 بار توسیع کے بعد بالآخر 15 مئی کو اس کا فیلڈ آپریشن ختم ہو گیا

گزشتہ ماہ 22 مئی کو چیف مردم شماری کمشنر اور پاکستان ادارہ شماریات کے چیف اسٹیٹسٹیشن نعیم ظفر نے پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ پاکستان کی کل آبادی اب 24 کروڑ 95 لاکھ 66 ہزار 743 تک پہنچ چکی ہے

صوبے کے لحاظ سے آبادی کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے ہوئے نعیم ظفر نے کہا تھا کہ پنجاب اب بھی سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے، جس کی آبادی 12 کروڑ 74 لاکھ 74 ہزار سے زیادہ ہے جبکہ سندھ کی آبادی 5 کروڑ 79 لاکھ 31 ہزار ہے، اسی طرح خیبرپختونخوا کی آبادی 3 کروڑ 98 لاکھ 23 ہزار ہے۔ بلوچستان کی آبادی 2 کروڑ 19 لاکھ 77 ہزار افراد پر مشتمل ہے، جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی آبادی تقریباً 23 لاکھ ہے

تاحال حالیہ مردم شماری کے حتمی نتائج سامنے نہیں آئے لیکن مختلف سیاسی جماعتیں، سماجی گروہ اور ماہرین اس کے طریقہ کار اور ممکنہ نتائج پر شدید شکوک و شبہات کا اظہار کر چکے ہیں۔ سندھ کی قوم پرست جماعتیں اپنی شناخت کو درپیش خطرات کا اظہار کر رہی ہیں۔ مردم شماری کے حوالے سے سندھ کی قوم پرست جماعتوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے اور یہ جماعتیں اسے استحصال قرار دیتی ہیں

اس حوالے سے قومی عوامی تحریک کے سربراہ اور ماہرِ قانون ایاز لطیف پلیجو کہتے ہیں ”گزشتہ مردم شماری کے بعد دس سال بعد نئی مردم شماری کروائی جانی تھی لیکن اس بار ایک سازش کے تحت پانچ سال بعد مردم شماری کروائی جا رہی ہے، وقت سے پہلے مردم شماری کے انعقاد کا مقصد سندھ میں غیر قانونی تارکین کو آباد کرنا ہے“

ایاز لطیف کا کہنا ہے ”وفاقی ادارہ شماریات اب ایک خود مختار ادارہ نہیں رہا اور اس پر بہت زیادہ دباؤ ہے، غیر قانونی تارکینِ وطن کو آبادی میں شمار کرکے صوبے کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی سازش رچی گئی ہے“

وہ کہتے ہیں ”صوبے میں سیلاب کے بعد کی صورتحال لوگوں کی درست گنتی کو یقینی نہیں بنائے گی، سیلاب کی وجہ سے دو کروڑ لوگ اپنے علاقوں سے بے گھر ہو چکے تھے، ایسے بے گھر ہونے والوں کا شمار کیسے کیا جائے گا، مردم شماری کے انعقاد کا ایک مقصد مقننہ میں مخصوص گروہوں کی نشستوں کو بڑھانا تھا اور اس عمل سے صوبے کے باشندے اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے“

ایاز لطیف نے کہا ”سیلاب متاثرین کی بحالی اور غیر قانونی تارکین وطن کی بے دخلی تک مردم شماری نہیں ہونی چاہیے، ضلع اور ٹاؤن، ریونیو ذرائع، محققین اور مقامی میڈیا کی تفصیلات کے مطابق سندھ کی کل آبادی سار کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے، جس میں سے ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد کراچی ڈویژن اور چھ کروڑ بیس لاکھ سندھ کے بقیہ پانچ ڈویژن سے ہیں“

انہوں نے کہا ”اس حوالے سے میں نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کو خط بھی لکھے ہیں، جن میں انہیں کہا ہے کہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ اس حقیقت کے باوجود کہ بین الاقوامی اصولوں اور آئین کے مطابق ہر دس سال بعد ایک نئی مردم شماری کی ضرورت ہوتی ہے، کچھ گروہوں کے زیرِ اثر صرف پانچ سال بعد دوسری مردم شماری کروائی جا رہی ہے، آپ جانتے ہوں گے کہ سندھ کے لوگ مردم شماری پر پریشان ہیں اور اگر سندھ کے ساتھ ناانصافی ہوئی تو خاموش نہیں رہیں گے اور اس حوالے سے قومی عوامی تحریک اور سندھ کی دیگر سیاسی جماعتیں جنوری 2023ء سے خبردار کر رہی ہیں کہ اگر ان کے تحفظات دور نہ کیے گئے تو وہ نتائج کو مسترد کر دیں گے“

انہوں نے کہا ”تازہ ترین رپورٹس اور اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دیہی سندھ کی آبادی کو ایک خاص منصوبے کے تحت کم دکھایا گیا ہے اور مردم شماری کی تاریخ میں توسیع کے لیے چھ شہری اضلاع کا انتخاب امتیازی ہے اور یہ پالیسی سازوں کے دیہی سندھ کے حوالے تعصب کی عکاسی کرتا ہے“

عوامی تحریک کے صدر لال جروار کا کہنا ہے ”وفاقی حکومت وقت سے پہلے غیر قانونی اور غیر آئینی ڈجیٹل مردم شماری میں شناختی کارڈ کی شرط ختم کرکے سندھ میں مقیم لاکھوں افغانیوں، برمیوں اور دیگر غیر ملکیوں کو شمار کر کے سندھی قوم کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے“

لال جروار کہتے ہیں ”ڈجیٹل مردم شماری کا اعلان اس وقت کیا گیا جب سندھ کے بیشتر اضلاع بشمول خیرپور، نوشہروز فیروز، نواب شاہ، دادو، لاڑکانہ، قمبر شہداد کوٹ، سانگھڑ، میرپورخاص اور دیگر اضلاع سیلاب میں مکمل طور پر ڈوبے ہوئے تھے، لاکھوں لوگ جانیں بچانے کے لیے وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور لاکھوں گھر تباہ ہوگئے جبکہ دوسری طرف گھوٹکی شکارپور، کشمور، کندھ کوٹ، جیکب آباد جیسے علاقے فسادات، لاقانونیت، قبائلی دہشت گردی کا شکار ہیں، جہاں ڈاکوؤں کے ہاتھوں روزانہ لوگوں کے اغوا برائے تاوان کی وجہ سے یہ اضلاع نوگو ایریا میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ ان اضلاع میں مردم شماری کے عملے کی کمی کے باعث لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کی گنتی نہیں ہو سکی۔“

انہوں نے کہا ”عوامی تحریک سمیت سندھی عوام پہلے ہی ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی درخواست پر ہونے والی جعلی ڈجیٹل مردم شماری کو مسترد کر چکے ہیں، عوامی تحریک کا یہ واضح موقف رہا ہے کہ قبل از وقت ڈجیٹل مردم شماری میں لاکھوں افغانوں اور دیگر غیر ملکیوں کی گنتی کرکے، پانچ ہزار سال پرانی تاریخی قوم کی نسل کشی، سندھی قوم کے وجود اور وسائل پر حملہ اور سندھ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ ہے“

لال جروار نے کہا ”عوامی تحریک کا واضح مؤقف ہے کہ پہلے لاکھوں غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جائے، سندھ میں بڑھتی ہوئی بدامنی، لاقانونیت، قبائلی دہشت گردی اور ڈاکوؤں کا خاتمہ کیا جائے، امن و امان بحال کیا جائے اور سیلاب میں بےگھر ہونے والے لاکھوں افراد کے لیے مکانات تعمیر کیے جائیں، جس کے بعد سندھ میں مقررہ وقت پر صاف اور شفاف مردم شماری کروائی جائے“

اس حوالے سے قوم پرست رہنما اور جیے سندھ محاذ کے چیئرمین ریاض چانڈیو کا کہنا ہے ”اس ملک میں مردم شماری ہمیشہ متنازعہ رہی ہے، اسٹیبلشمنٹ اپنے مخصوص مفادات کے لیے مردم شماری کرتی ہے جس میں بڑا مفاد یہ ہے کہ ایک بڑا صوبہ آبادی کی بنیاد پر وفاق پر قابض ہے۔ یہ دنیا کا واحد وفاق ہے جہاں ملک کے وسائل اور ملکیت کو آبادی کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا ہے جس سے روزگار، ملازمتوں اور وسائل پر ایک ہی صوبے کو غلبہ حاصل ہے اور اپنے اس تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے بالخصوص سندھ میں غیر مقامی لوگوں کو آباد کرتا رہا ہے اور یہ سب اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے منصوبہ بندی کے تحت کیا جا رہا ہے“

ریاض چانڈیو کہتے ہیں ”پاکستان میں مردم شماری بھی انتخابات کی طرح ہمیشہ ایک فراڈ رہی ہے، 2023ء کی مردم شماری پر سندھ کو سخت اعتراضات تھے مگر پھر بھی خصوصی فرمائش پر پیپلز پارٹی کی سہولت کاری سے ڈجیٹل مردم شماری کر کے سندھ کے عوام میں مزید تشویش پیدا کردی گئی ہے۔ ہمیں اعتراض اس بات پر ہے کہ کراچی میں غیر ملکیوں بشمول افغانوں اور دیگر غیر قانونی مقیم باشندوں کو شمار کر کے صوبائی و قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھا کر سندھ کے تاریخی باشندوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازشیں کی جارہی ہے، لہٰذا سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے اس غیر منصفانہ مردم شماری کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے“

ریاض چانڈیو نے مزید کہا ”کراچی اور حیدرآباد کی آبادی میں مصنوعی اضافہ کر کے سندھ کے دیگر علاقوں کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے، کراچی کے حقیقی رہائشیوں کو شمار کیا جائے ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ مردم شماری کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ریاست عوام کے لیے تعلیم، روزگار اور خوراک سمیت دیگر انسانی سہولیات کے منصوبے لائے جائیں لیکن یہاں انسانی مردم شماری کا مطلب ہی فراڈ ہے اور اس فراڈ سے اسٹیبلشمنٹ، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم سمیت پیپلز پارٹی بھی سندھ کی تاریخی حدود کو محدود کرنے کی سازش میں ملوث ہیں“

انہوں نے کہا ”ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مردم شماری دوبارہ کروائی جائے جس میں سے غیر ملکیوں اور دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کو الگ کیا جائے“

کیا مردم شماری کے لیے دس سال کی مقرر کردہ فریکوئنسی تبدیل کرنا ٹھیک تھا؟

معروف تجزیہ نگار اور ڈیولپمنٹ پروفیشنل نصیر میمن اس حوالے سے کہتے ہیں ”سیاسی دباؤ پر مردم شماری کے لیے دس سال کی مقرر کردہ فریکوئنسی تبدیل کرنا ٹھیک نہیں تھا، اسی روایت کو برقرار رکھا جاتا جس طرح ہر دس برس بعد مردم شماری کی جاتی ہے۔ سب سے پہلے اس طریقہ کار پر سندھ کو خدشات رہے ہیں“

نصیر میمن نے کہا ”جب ڈجیٹل مردم شماری کا آغاز کیا گیا تو شروع میں ہی ہم نے کہا کہ اس کے لیے مقرر کیا گیا وقت غیرحقیقی ہے، بلاکس کی تعداد اور شمار کنندہ گان کی تعداد کا جب تعین کیا گیا تو مقررہ وقت ناکافی تھا“

نصیر میمن نے وضاحت کرٹے ہوئے کہا ”ڈجیٹل ڈوائسز کا استعمال پہلی بار ہو رہا تھا، اگر ان پر پہلے سے ہی تجربہ کیا جاتا تو ٹیکنیکل خرابیوں جیسے مسائل درپیش نہ ہوتے لیکن بدقسمتی سے اس پر بھی عمل نہ کیا گیا اور پھر جان بوجھ کر سیاسی دباؤ کی بنیاد پر ادارہ شماریات نے بالخصوص کراچی اور پنجاب کے بیس ہزار سے زائد بلاکس کو دوبارہ کھولا گیا لیکن سندھ کے دیگر اضلاع میں اس طرح کی کوششیں نہیں کی گئیں“

نصیر میمن کہتے ہیں ”جس طرح کراچی اور پنجاب میں دوبارہ گنتی کے لیے بلاکس کھولے گئے اور خصوصی ٹیمیں تعینات کی گئیں اگر یہی اقدام سندھ کے دیگر اضلاع کے لیے بھی کیے جاتے تو یہ سیاسی معاملہ نہ بنتا۔ جس طرح گنتی کی گئی، وہ سیاسی طور پر غلط طریقہ کار تھا۔ جس طرح سیاسی دباؤ کی بنیاد پر اعداد و شمار میں تبدیلی کی جا رہی ہے، اس سے خدشات جنم لے رہے ہیں اور ممکن ہے کہ حتمی نتائج متنازع بن جائیں گے کیونکہ اس پر پنجاب بھی مطمئن نہیں ہے اور سندھ کو بھی شدید خدشات ہیں“

نصیر میمن نے مردم شماری کو متنازع بنانے سے بچانے کے لیے کچھ تجاویز دیتے ہوئے کہا ”مردم شماری کو درست طریقہ کار کے تحت کرنا چاہیے اور طویل وقت تک اس کو جاری رکھنا چاہیے۔ ڈیٹا کی تصدیق کے لیے بھی طریقہ کار اپنانے چاہئیں اور جو بھی ڈیٹا موصول ہوتا ہے اس پر کم از کم حکومت کو رسائی ہونی چاہیے کہ اس کو ’کراس چیک‘ کر سکے اور اس کی تصدیق کر کے گزشتہ ڈیٹا سے موازنہ کر سکے“

انہوں نے مزید کہا ”تنازع کا سب سے زیادہ اہم سبب این ایف سی ایوارڈ اور پارلیمان میں نشستیں مختص کرنا ہے، این ایف سی تقسیم کے فارمولا کا اس وقت تناسب 82 ہے، جس کو بدتریج کم کرکے زیادہ سے زیادہ 50 فیصد تک لایا جائے جبکہ این ایف سی کے دیگر عوامل کو بڑھایا جائے، جس سے آبادی کے پیچھے صوبوں کے درمیان دوڑ کم ہوگی“

نصیر میمن کہتے ہیں ”پاکستان کو مردم شماری کو سرکاری اور نجی شعبے کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کرنا چاہیے نہ کہ سیاسی فیصلہ سازی کے لیے اس کو آلہ کار بنایا جائے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close