بدین میں امیر شاہ سیم نالے کے کنارے قدیم گاؤں آسیلی پر آسیب زدہ جگہ کا گمان ہوتا ہے۔ چند سال پہلے تک بھرا پُرا یہ گاؤں اب مکینوں سے خالی ہو چکا ہے اور ٹوٹے پھوٹے مکانوں، سونی گلیوں اور اجاڑ راستوں پر اب ڈھونڈے سے بھی کوئی انسان دکھائی نہیں دیتا
لوک سجاگ میں شائع رضا آکاش کی ایک رپورٹ کے مطابق بدین کی تحصیل گولاڑچی کی حدود میں یہ گاؤں تقریباً ایک صدی تک آباد رہا ہے۔ تاہم اب اس کے تمام باسی ہجرت کر کے بدین شہر اور گردونواح میں منتقل ہو چکے ہیں۔ انہی لوگوں میں شامل کاشف قادر میمن بتاتے ہیں کہ وہ آسیلی میں پیدا ہوئے تھے، جہاں ان کا خاندان کئی نسلوں سے آباد تھا۔ ان کے اجداد کی قبریں بھی وہیں ہیں لیکن اب چاہتے ہوئے بھی وہ اپنے گاؤں میں واپس نہیں جا سکتے
کاشف قادر میمن بدین کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں پڑھاتے ہیں۔ ان کے مطابق ”آسیلی کی ویرانی کا سبب امیر شاہ سیم نالہ (گونی پھلیلی آؤٹ فال ڈرین) ہے، جسے ماتلی میں واقع انصاری شوگر مل میں الکوحل بنانے والے ڈسٹلری یونٹ سے خارج ہونے والے زہریلے مواد نے آلودہ کر دیا ہے“
رپورٹ کے مطابق نالے سے نکلنے والی گیسوں سے گاؤں کے لوگ بیمار ہو کر مرنے لگے تو سبھی نے اپنی زمینیں اونے پونے داموں بیچ کر شہروں کو ہجرت کر لی
آسیلی کے قریب سیم نالے کی دوسری جانب ترائی نامی قصبہ ہے، جس کی آبادی پانچ ہزار ہے۔ یہاں رہنے والے اسلم آزاد سموں بتاتے ہیں ”سیم نالے سے زہریلی گیسوں اور بدبو کے اخراج سے ناصرف ترائی بلکہ آس پاس کے دیہات میں رہنے والے تمام لوگوں کی صحت و زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور لوگ تیزی سے نقل مکانی کرتے جا رہے ہیں“
گولاڑچی کے مشرق میں واقع قصبے کھور واہ کے لوگوں کو درپیش حالات بھی اس سے مختلف نہیں ہیں۔ یہ قصبہ گونگڑو سیم نالے کے کنارے واقع ہے، جو ٹںڈو محمد خان کی شاہ مراد شوگر مل اور سجاول کی دیوان شوگر مل کے ڈسٹلری یونٹ کی گندگی سے اٹ چکا ہے
کھور واہ کے سماجی کارکن عبدالغنی چنا بتاتے ہیں کہ کبھی یہ علاقہ سُگداسی چاول کے ذائقے اور خوشبو کے لئے مشہور تھا لیکن اب یہاں بدبو کے مستقل ڈیرے ہیں
امير شاہ اور گونگڑو بدین اور سجاول اضلاع سے گزرنے والے بڑے سیم نالے ہیں۔ انہیں بارشوں کے موسم میں بدین، سجاول اور ٹنڈو محمد خان کے سیلابی پانی کو سمندر تک پہنچانے کے مقصد کے تحت بنایا گیا تھا، لیکن پچھلے بیس سال سے یہ دونوں نالے ان اضلاع کی شوگر ملوں کی ملکیتی ’گٹر لائن‘ بن کر رہ گئے ہیں
سندھ میں تیس شگر ملیں چل رہی ہیں، جن میں تیرہ انہی تینوں اضلاع میں واقع ہیں۔ ان میں بدین اور ٹنڈو محمد خان میں پانچ پانچ جبکہ سجاول میں تین ملیں قائم ہیں۔ نومبر سے جون تک یہ ملیں روزانہ ہزاروں ٹن زہریلا فضلہ ان سیم نالوں میں ڈالتی ہیں
رپورٹ کے مطابق انصاری شوگر مل کے ڈسٹلری یونٹ کا زہریلا مواد امیر شاہ سیم نالے میں ڈالا جاتا ہے، جبکہ دیوان شوگر ملز اور شاہ مراد مل کا پانی گونگڑو نالے میں چھوڑا جاتا ہے۔ اس طرح بدین، گولاڑچی، میرپور بٹھورو اور جاتی تحصیلوں میں آٹھ سو سے زیادہ دیہات کی پانچ لاکھ آبادی ان نالوں سے براہ راست متاثر ہو رہی ہے
تعلقہ ہسپتال گولاڑچی کے ڈاکٹر رمضان آرائیں کا کہنا ہے ”سیم نالوں کے زہریلے پانی کے باعث ان علاقوں میں ہیپاٹائٹس اور کینسر جیسے خطرناک امراض پھوٹ پڑے ہیں۔ نالوں کے آس پاس دیہات میں جلد کے امراض اور الرجی کے ساتھ سانس کی بیماریاں اور پھیپڑوں کا کینسر بھی عام ہو گیا ہے۔“
گونگڑو نالے کے کنارے ایک سو گھروں پر مشتمل گوٹھ سومار لوٹھیو کے رہنے والے رشید لوٹھیو کہتے ہیں ”نالے کا آلودہ پانی مویشیوں کی صحت کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ اسی گاؤں کے غلام لوٹھیو کی پانچ بکریاں اور بچایو ملاح کی تین بھینسیں اس نالے کا پانی پی کر مر گئی ہیں“
بدین، سجاول اور ٹنڈو محمد خان کے سیکڑوں دیہات میں پھیلے سیم نالوں کا آلودہ پانی پینے سے اب تک لاتعداد مویشی ہلاک ہو چکے ہیں
بدین میں محکمہ لائیو اسٹاک کے ویٹرنری افسر ڈاکٹر عمران میمن بتاتے ہیں کہ امیر شاہ اور گونگڑو سیم نالوں کے آس پاس علاقوں میں چالیس سے پچاس فی صد بھیڑ بکریوں، گائے بھینسوں اور اونٹوں کی اموات انہی نالوں کے زہریلے پانی سے ہوتی ہیں
وہ بتاتے ہیں ”اس علاقے میں دسمبر سے جون تک چھ مہینے پینے کے پانی کا شدید بحران ہوتا ہے۔ جب جانوروں کے لئے صاف پانی میسر نہ ہو تو وہ سیم نالوں سے پانی پی لیتے ہیں اور پیٹ کی بیماریوں، کئی طرح کے ٹیومر اور کینسر کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں مویشی ان نالوں کے پانی میں رہتے ہیں، جس سے انہیں جلدی بیماریاں آ لیتی ہیں“
امیر شاہ اور گونگڑو سیم نالوں کی تباہ کاری ان کے دو سو کلومیٹر تک پھیلے کمانڈ ایریا میں عام دکھائی دیتی ہے۔ ایک تو یہ نالے شوگر ملوں کے زہریلے مواد سے اٹے پڑے ہیں اور پھر ان کی صفائی کرنے یا ان کے کنارے مضبوط بنانے کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہر سال بارشوں میں ان کے بند ٹوٹ جاتے ہیں اور زہریلا پانی کھیتوں میں داخل ہو کر انہیں بنجر کر دیتا ہے
امیر شاہ سیم نالے کے کنارے واقع بچل حجام گاؤں کے غفور حجام سولہ ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں، جہاں کبھی وہ چاول، سورج مکھی، گندم اور سرسوں کاشت کیا کرتے تھے لیکن اب ان کی زمین ویران پڑی ہے
وہ بتاتے ہیں ”ہر سال بارشوں کے موسم میں اس نالے میں شگاف پڑ جاتا ہے، جس سے نالے کا زہریلا پانی زرعی زمینوں میں پھیل کر انہیں خراب کر دیتا ہے“
بچل حجام کے قریب آسیلی جیسے ایک اجڑے گاؤں مٹھو میمن کے زمیندار رمضان میمن نے بتایا کہ اس گاؤں کے لوگوں کی ڈھائی ہزار ایکڑ زرعی زمین ہر سال آنے والے زہریلے پانی سے تباہ ہو گئی ہے جس کے بعد تمام لوگ شہر کو نقل مکانی کر گئے ہیں
سندھ کے ساحلی علاقوں میں ماحولیات پر تحقیق کرنے والے ابوبکر شیخ کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق ہر مل میں ایسا فلٹر اور ٹریٹمینٹ پلانٹ لگانا لازم ہے، جس کے ذریعے فضلے کو صاف کر کے ماحول کو نقصان سے بچایا جا سکے۔ اگر اس قانون پر عمل کیا جائے تو ملوں سے خارج ہونے والے پانی کو اَسی سے نوے فی صد تک صاف کیا جا سکتا ہے
ابوبکر شیخ کہتے ہیں ”شوگر ملوں کا ڈسٹلری یونٹ سارا سال چلتا رہتا ہے، جس میں ایتھانول الکوحل کشید کیا جاتا ہے۔ گنے کے رس سے ایک لیٹر الکوحل کشید کرنے کے لئے پندرہ لیٹر پانی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے، مگر یہ ملیں اس حد سے دس پندرہ گنا زیادہ پانی استعمال کرتی ہیں“
جب یہ پانی کشید کے عمل سے گزر کر خارج ہوتا ہے تو اس میں کئی طرح کے کیمیائی مادے شامل ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان میں سے جو پانی میں حل نہیں ہو سکتے وہ سطح آب پر تہہ بنا لیتے ہے، جس کے باعث پانی میں آکسیجن کی مقدار کم ہو جاتی ہے اور آبی مخلوق ہلاک ہو جاتی ہے۔
ایک شوگر مل کے اہلکار نے بتایا کہ شوگر مل کے فضلے کو صاف کرنے کے پلانٹ کی تنصیب پر چھ کروڑ روپے سے زیادہ خرچہ آتا ہے اور اس کو چلانے کے اخراجات الگ ہیں، اس لئے مل مالکان پلانٹ لگانے سے گریز کرتے ہیں
قانون دان ڈاکٹر روشن علی کہتے ہیں ”تحفظ ماحولیات ایکٹ 1997ء کے تحت کوئی بھی فرد یا کمپنی کوئی زہریلا کیمیائی مادہ یا فضلہ عام ماحول میں خارج نہیں کر سکتے۔ ایسا کرنے کی صورت میں کمپنی کو جرمانہ اور اس کے مالک کو دو سال قید کی سزا ہوگی اور کمپنی پر پابندی بھی عائد کی جا سکتی ہے۔ اس قانون کے تحت سینئر سول جج ماحولیاتی میجسٹریٹ ہوتا ہے مگر سندھ میں کوئی بھی ایسی عدالت نہیں ہے، جو ماحول کو تحفظ دے“
یا رہے کہ سپریم کورٹ کے قائم کردہ سندھ واٹر کمیشن کے سربراہ ریٹائرڈ جسٹس امیر ہانی مسلم نے جنوری 2019ء میں ایک فیصلے میں کہا تھا کہ تمام شوگر ملوں میں پانی صاف کرنے کے پلانٹ کی موجودگی ضروری ہے لیکن اس حکم پر عمل نہیں کیا گیا
اس معاملے میں گولاڑچی کے اسسٹنٹ کمشنر ہاشم مسعود نے ردعمل دیتے ہوئےکہا کہ انہیں عہدے سنبھالے زیادہ دن نہیں ہوئے اور وہ جلد ہی سیم نالوں میں زہریلا مواد پھینکنے والی شوگر ملوں کو نوٹس جاری کریں گے۔