دس کلومیٹر بلندی سے گرنے والی ایئر ہوسٹس زندہ کیسے بچی؟

ویب ڈیسک

بلغراد – آج سے ٹھیک پچاس سال قبل ایک ایئر ہوسٹس جہاز کے حادثے کے بعد تینتیس ہزار فٹ یا دس کلومیٹر کی بلندی سے گریں، لیکن حیرت انگیز طور پر اتنی اونچائی سے گرنے کے باوجود وہ بعد میں اپنی کہانی سننانے کے لیے زندہ رہیں

گنیز بک کے مطابق یہ آج تک کسی شخص کا سب سے زیادہ بلندی سے بغیر پیراشوٹ کے گر کر زندہ بچ جانے کا رکارڈ ہے

یہ 26 جنوری 1972ع کی بات ہے، جب جے اے ٹی یوگوسلاو ایئر لائن کے ایک جہاز نے ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن سے سربیا کے شہر بلغراد کے لیے اڑان بھری

اس جہاز میں مجموعی طور پر اٹھائیس افراد سوار تھے، جب کہ تیئیس سالہ ویسنا ولکووچ فضائی میزبان کے فرائض سرانجام دے رہی تھیں

اب اسے اتفاق کہیے یا تقدیر کا پھیر کہ اس دن ویسنا کی ڈیوٹی نہیں تھی، لیکن ایئر لائن نے ویسنا نام کی ایک اور ایئرہوسٹس سے ان کا نام خلط ملط کر کے انہیں فلائٹ پر بھیج دیا

ایوی ایشن سکیورٹی میگزین کو ایک انٹرویو میں ویسنا مے بتایا تھا کہ انہوں نے اس غلطی کی نشان دہی نہیں کی، کیونکہ انہیں ڈنمارک جانے کا بہت شوق تھا

”اس چھوٹی سی غلطی کا مطلب یہ تھا کہ مجھے پہلی بار ڈنمارک جانے کا موقع مل گیا۔ میں بہت خوش تھی۔ میں ہمیشہ شیریٹن ہوٹل میں ٹھہرنے کے خواب دیکھا کرتی تھی اور مجھے وہاں ایک رات کے لیے کمرہ مل گیا۔“

ابھی جہاز کو اڑان بھرے بمشکل ایک گھنٹہ ہی گزرا تھا اور جہاز چیکوسلاویکیا کے اوپر سے گزر رہا تھا کہ اس کے سامان والے حصے میں ایک زوردار دھماکہ ہوا، جس سے کاک پٹ جہاز کے فیوزی لاج سے الگ ہو گیا اور پچھلے حصے کے بھی دو ٹکڑے ہو گئے

اس کے بعد کیا ہوا، ویسنا کا ذہن اس بارے میں بالکل خالی ہے۔ انہوں نے 2008ع میں نیویارک ٹائمز کو ایک انٹرویو میں بتایا ”میں مسافروں کے ساتھ بات چیت کر رہی تھی اور اس کے بعد مجھے جب ہوش آیا تو خود کو ایک ہسپتال میں پایا“

البتہ حادثے کی تحقیقات کرنے والے حکام کے مطابق دھماکے کے وقت ویسنا جہاز کے پچھلے حصے میں تھیں۔ دُم والا یہ حصہ تینتیس ہزار فٹ نیچے ایک برف سے ڈھکے ایک پہاڑی علاقے میں گرا

جہاز کے ٹکڑے آسمان سے گرتے دیکھ کر برونو ہونڈکے نامی ایک لکڑہارا موقعے پر پہنچ گیا اور اس نے ویسنا کو جہاز کے ملبے میں سے نکالا۔ اس حادثے میں بقیہ تمام ستائیس افراد موقعے پر ہی ہلاک ہو گئے تھے

اس حادثے کی وجوہات کا ٹھیک ٹھیک علم نہیں ہو سکا، البتہ یوگوسلاویہ کے حکام کے مطابق کروئیشیا کی کٹر قوم پرست تنظیم ’اتساشا‘ کے دہشت گردوں نے جہاز میں ایک سوٹ کیس بم رکھا تھا

سوال یہ ہے کہ ویسنا اتنی بلندی سے گرنے کے بعد کیسے بچیں؟ ’لائیو سائنس‘ نامی ایک ویب سائٹ کے مطابق دس کلومیٹر کی بلندی سے گرنے والے شخص کو زمین تک پہنچنے میں تقریباً تین منٹ لگتے ہیں اور اس کی رفتار 190 کلومیٹر کے لگ بھگ ہوتی ہے

جہاز سے گرنے والے افراد پر صرف کششِ ثقل ہی عمل نہیں کرتی، بلکہ ہوا بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ کئی کلومیٹر کی بلندی سے گرتے ہوئے شخص کے عمودی سفر میں ہوا کا خاصا عمل دخل ہوتا ہے اور بیچ میں کوئی تیز جھکڑ اسے اڑا کر کہیں سے کہیں لے جا سکتا ہے اور اس کی رفتار کو بھی کم کر سکتا ہے

ویسنا کی خوش قسمتی یہ تھی کہ وہ جہاز کی دُم والے حصے کے اندر پھنس گئی تھیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ پروں کی وجہ سے یہ حصہ لہراتا ہوا زمین پر آیا ہوگا اور زمین سے تصادم کے وقت سے اس کی رفتار نسبتاً کم رہی ہوگی

مزید یہ کہ یہ حصہ برف سے ڈھکے ہوئے جنگل کے اندر پہلے درختوں سے ٹکرایا پھر برف کی موٹی تہہ میں آ کر دھنس گیا، جس سے ٹکر کی شدت مزید کم ہو گئی، جو ویسنا کی جان بچانے میں مددگار ثابت ہوئی

جبکہ ایک اور وجہ یہ بتائی گئی کہ ویسنا کا بلڈ پریشر قدرتی طور پر کم رہتا تھا۔ انہوں نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ جب وہ ایئرہوسٹس بننے کے لیے میڈیکل ٹیسٹ دینے گئیں، تو اس سے پہلے خوب کافی پی تاکہ ان کا بلڈ پریشر بڑھ جائے اور انہیں فیل نہ کر دیا جائے

ڈاکٹروں کے مطابق اگر ویسنا کا بلڈپریشر زیادہ ہوتا تو ان کا دل پھٹنے کا امکان تھا۔ اس کے علاوہ کم بلڈ پریشر کی وجہ سے ان کا خون بھی عام لوگوں کی نسبت کم بہا

ویسنا کی جان ضرور بچی، جسم نہیں۔ انہیں اس حادثے کے بعد متعدد چوٹیں آئیں اور ان کے علاج کے لیے انہیں کئی ماہ ہسپتال میں گزارنے پڑے

انہوں نے بتایا ’سب سے زیادہ چوٹ دماغ کو آئی۔ میری کھوپڑی کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور ریڑھ کی ہڈی کے تین مہرے ٹوٹ گئے تھے۔ ایک مہرہ بالکل چکنا چور ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے میں اپنی ٹانگیں ہلا نہیں سکتی تھی۔‘

اس کے علاوہ ان کی دونوں ٹانگیں اور پیڑو کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی تھی

ریڑھ کی چوٹوں کی وجہ سے ویسنا کمر سے نیچے بدن کو حرکت دینے کے قابل نہیں رہی تھیں، لیکن دو مہینے بعد وہ چلنے کے قابل ہو گئیں

انہوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ’میں ٹوٹ گئی تھی، اور ڈاکٹروں نے مجھے دوبارہ سے جوڑ دیا۔ کسی کو توقع نہیں تھی کہ میں بچ جاؤں گی۔‘

سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ویسنا کو اس حادثے کے بارے میں کچھ یاد نہیں

وہ کہتی ہیں کہ جب ہوش میں آنے کے بعد انہوں نے اپنے والدین کو ہسپتال میں دیکھا تو حیران ہو کر پوچھا کہ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟

وہ کہتی ہیں کہ جب مجھے علاج کے لیے ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال میں جہاز کے ذریعے منتقل کیا جا رہا تھا، تو ڈاکٹروں نے کہا کہ وہ مجھے انجیکشن دے کر سلا دیں گے تاکہ جہاز پر سوار ہوتے وقت مجھے خوف محسوس نہ ہو۔

”میں نے انکار کر دیا۔ میں دوبارہ جہاز میں سفر کرنے کا سوچ رہی تھی۔ یاد رکھیں کہ حادثے کی کوئی یاد میرے دماغ میں محفوظ نہیں رہی تھی۔ میں آج دن تک جہاز میں سفر کرنے سے لطف اندوز ہوتی ہوں اور مجھے جہاز سے بالکل ڈر نہیں لگتا۔“

اس حادثے نے ویسنا کو سیلیبریٹی بنا دیا۔ دنیا بھر کے اخباروں نے یہ خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے ان کے علاج کی ذمہ داری اٹھا لی

جب وہ اپنے ملک یوگوسلاویہ لوٹیں تو اس وقت کے حکمران مارشل ٹیٹو نے انہیں اعزاز سے نوازا

ویسنا نے یوگوسلاو ایئر لائن سے دوبارہ بطور ایئرہوسٹس ذمہ داریاں سنبھالنے کی درخواست کی، مگر ہوائی کمپنی نے انہیں زمینی کام دے دیا

ویسنا کہتی ہیں ”وہ اتنی مشہور ہو گئیں کہ لوگ جہاز میں سفر کے دوران انہیں پہچان لیتے تھے اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ان کے قریب بیٹھیں تاکہ اگر پہلے کی طرح کوئی حادثہ ہو تو ویسنا کی اچھی قسمت کی وجہ سے وہ بھی بچ جائیں۔“

تاہم خود ویسنا اپنے آپ کو خوش قسمت نہیں سمجھتیں۔ وہ کہتی ہیں ”ہر کوئی سمجھتا ہے میں خوش قسمت ہوں، لیکن وہ غلطی پر ہیں۔ اگر میں واقعی خوش قسمت ہوتی تو میرے ساتھ یہ حادثہ ہی پیش نہ آتا۔“

ویسنا کی کہانی جتنی بھی حیرت انگیز سہی، لیکن ان کے علاوہ بھی کئی لوگ ایسے ہیں جو جہازوں سے گر کر بچ نکلے

دوسری جنگ عظیم کے دوران چونکہ بہت زیادہ جہاز تباہ ہوئے اس لیے بلندی سے گرنے کے زیادہ ریکارڈ بھی اسی جنگ کے دوران بنے

ایسے افراد میں سب سے زیادہ بلندی سے گرنے والے روسی فضائیہ کے لیفٹین ایوان چسلوف ہیں، جن کا جہاز 1942 میں تیئیس ہزار فٹ کی بلندی پر جرمن لڑاکا طیاروں کا نشانہ بن کر تباہ ہو گیا

چسلوف کہتے ہیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر اپنا پیراشوٹ نہیں کھولا تاکہ وہ دشمن طیاروں کی زد سے بچ کر نیچے دور کہیں جا کر پیراشوٹ کھولیں مگر اس دوران آکسیجن کی کمی کی وجہ سے وہ بےہوش ہو گئے اور زمین پر گر پڑے

1943ع میں امریکی ہواباز ایلن میگی کا طیارہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران فرانس کے اوپر جہاز تباہ ہو گیا۔ بائیس ہزار فٹ یا ساڑھے چھ کلومیٹر کی بلندی سے وہ ایک ٹرین اسٹیشن کی چھت پر گرے اور شدید زخمی ضرور ہوئے، مگر زندہ رہے

دوسری جنگِ عظیم ہی کے دوران روسی ہواباز نکولس الکیمیدے اٹھارہ ہزار فٹ کی بلندی سے جہاز تباہ ہونے کے بعد گرے اور بچ گئے

ٹیلی ویژن کی مشہور ایڈونچر پسند شخصیت بیئر گرلز بھی جہاز سے بلا پیراشوٹ گر کر بچے ہیں

1996ع میں وہ افریقی ملک زیمبیا میں پیراشوٹ سے کودنے کی مشق کر رہے تھے کہ ان کا پیراشوٹ خراب ہو گیا اور وہ سولہ ہزار فٹ کی بلندی سے گر پڑے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close