بھارتی سینیما کی مختلف اصناف کی طرح یہاں مختلف مزاج کے فلمساز رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نام انوراگ کشیپ کا بھی ہے، جو حقیقی زندگی میں خون دیکھ کر بیہوش ہو سکتے ہیں اور کسی کے جنازے میں جانے کا سوچ کر ہی ان کے ہاتھ پاؤں کانپ جاتے ہیں
تاہم اگر آپ انوراگ کی فلمیں دیکھی ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پردے پر ایسے مناظر دکھانا ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں
انوراگ کی فلموں میں زیادہ تر سماجی مسائل کو اجاگر کیا جاتا ہے، یعنی منشیات، سگریٹ نوشی، بچوں کے ساتھ بدسلوکی، ڈپریشن اور تناؤ جیسے مسائل
لیکن بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ انوراگ خود بھی ان مسائل سے گزرے ہیں اور اسی لیے وہ ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں، جہاں نفرت اور تشدد کا عنصر شامل ہو
بھارتی سینیما میں اپنی لیے منفرد مقام پیدا کرنے والے انوراگ کے فلم کیریئر کو تیس سال مکمل ہوچکے ہیں اور وہ ایک تنقیدی طور پر سراہے جانے والے ہندوستانی فلم ڈائریکٹر اور اسکرین رائٹر ہیں
انوراگ کشیپ گورکھپور، اتر پردیش میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد ریاستی بجلی بورڈ کے لیے کام کرتے تھے، حالانکہ وہ وارانسی اور سہارنپور سمیت کئی شہروں میں پلے بڑھے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم دہرادون میں اور آٹھ سال کی عمر سے گوالیار کے سندھیا اسکول میں حاصل کی۔ انہیں بچپن سے ہی فلموں کا شوق تھا، اور یہاں تک کہ پانچ سال کی عمر میں، وہ قریبی فلم کلب اور اوپن ایئر تھیٹر میں ’کورا کاغذ‘ اور ’آندھی‘ جیسی ہندی فلمیں دیکھتے تھے۔ اس کا خاتمہ اس وقت ہوا جب اس نے اسکول کی تعلیم شروع کی
چونکہ کشیپ سائنسدان بننا چاہتے تھے، اس لیے وہ بنیادی طور پر اپنی اعلیٰ تعلیم کے لیے دہلی گئے اور ہنسراج کالج (یونیورسٹی آف دہلی) میں بایولوجی کے کورس میں داخلہ لیا۔ انہوں نے 1993 میں گریجویشن کیا. اپنے کالج کے دنوں میں، انہوں نے دوبارہ فلمیں دیکھنا شروع کیں اور منشیات اور شراب کی لت میں بھی مبتلا ہو گئے۔ وہ الجھن میں اور افسردہ تھے اور ایک اسٹریٹ تھیٹر گروپ جنا ناٹیہ منچ میں شامل ہو گئے تھے۔ انہوں نے بہت سارے اسٹریٹ ڈرامے انجام دیئے
اسی سال، چند دوستوں نے انہیں عالمی سنیما سے متعارف کرایا۔ انہوں نے "ان پر زور دیا کہ وہ انڈیا کے بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں ڈی سیکا ریٹرو اسپیکٹیو دیکھیں”۔ دس دنوں میں، انہوں نے فیسٹیول میں کل 55 فلمیں دیکھی، اور ڈی سیکا کی ’بائیسکل تھیوز‘ وہ فلم تھی، جس نے انہیں سب سے زیادہ متاثر کیا
وہ کہتے ہیں ”میں نے تمام مختلف زاویوں سے فلمیں دیکھی ہیں، اور ایک طرح سے، آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان فلموں نے میری زندگی اور میرے لیے اس کے معنی کو مکمل طور پر بدل دیا“
صرف وہ ایک فلمی میلہ، کیریئر فلم فیسٹیول اور ڈی سیکا نے کشیپ پر گہرا اثر ڈالا۔ وہ فلموں کے ساتھ کچھ کرنا چاہتے تھے، اور اس لیے وہ جون 1993 میں اپنی جیب میں پانچ ہزار روپے لے کر ممبئی پہنچے۔ ایک ’اچھے ہوٹل‘ میں چند دن ٹھہرنے کے بعد رقم ختم ہو گئی۔ انہوں نے اگلے آٹھ مہینے سڑکوں پر، اونچی جگہوں پر، ساحل پر سوتے ہوئے، پانی کے ٹینک کے نیچے، اور سینٹ زیویئر کالج کے لڑکوں کے ہاسٹل میں گزارے
وہ پرتھوی تھیٹر میں کام تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے، لیکن ان کا پہلا ڈرامہ ادھورا رہ گیا کیونکہ ہدایت کار کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد وہ مکرند دیش پانڈے کے گروپ سمرنگن میں شامل ہو گئے، لیکن وہاں سے چلے گئے کیونکہ وہ ’زندگی کا سامنا نہیں کر سکتے تھے۔‘
وہ اداکاری کرنا چاہتا تھے، لیکن وہ اس ساری مایوسی کے ساتھ اداکاری نہیں کر سکے۔ اس کے بعد کشیپ نے مین (I) کے نام سے ایک آٹھ صفحات کا ڈرامہ لکھا، جس نے کالج کے ڈرامہ فیسٹیول میں اچھا کام کیا، اور لوگوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ لکھنے میں اپنا کیریئر بنائیں۔ کشیپ کے ڈرامے کو گووند نہلانی اور سعید مرزا جیسے ہدایت کاروں نے سراہا تھا۔ نہلانی کلاسک کاموں پر مبنی ایک ٹیلی ویژن سیریز پر کام کر رہے تھے، اور انہوں نے کشیپ کو دو کتابیں دیں – ہنریک ابسن کا ایک ڈرامہ اور فرانز کافکا کا دی ٹرائل – تاکہ وہ ان پر مبنی اسکرپٹ لکھ سکیں۔ کشیپ نے دی ٹرائل پڑھا اور نہلانی کو بتایا کہ کتاب کو صرف ایک اینیمیشن فلم بنایا جا سکتا ہے، باقاعدہ نہیں۔ نہلانی نے انہیں دوبارہ غور کرنے کو کہا۔ لیکن کتابوں نے کشیپ کو اتنا الجھا دیا تھا کہ وہ سوچنے لگے کہ وہ کچھ نہیں جانتے! کشیپ نے نہلانی کو ٹالنا شروع کر دیا
وہ ڈیڑھ سال تک ہائبرنیشن میں چلا گئے، اور پڑھتا رہے۔ 1995 میں، ایک جاننے والے نے کشیپ کو ڈائریکٹر شیوم نائر سے ملوایا۔ جس دن ان کی ملاقات ہوئی، کشیپ نے اسکورسی کے ٹیکسی ڈرائیور کو نائر کے مقام پر ایک خراب وی سی آر پر اور مٹی ہوئی ٹیپ کا استعمال کرتے ہوئے دیکھا۔ فلم نے اسے متوجہ کیا. "میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں،” کشیپ نے نائر سے کہا، اور انہوں نے اگلے چند دن ایک کونے میں بیٹھے گزارے جب سریرام راگھون، سریدھر راگھون، اور شیو سبرامنیم جیسے لوگ چیزوں پر بات کر رہے تھے۔ سریدھر نے انہیں کتابوں کی دنیا سے متعارف کرایا — جیمز ایم کین جیسے مصنفین۔ ٹیم دو پروجیکٹس پر کام کر رہی تھی، جن میں سے ایک ڈاکو ڈرامہ آٹو نارائن تھا، جو سیریل کلر آٹو شنکر کی زندگی پر مبنی تھا۔ دوسری فلم کشیپ کی لکھی تھی۔ آٹو نارائن میں تاخیر ہوئی کیونکہ سبرامنیم کا لکھا ہوا اسکرپٹ کام نہیں کر رہا تھا۔ کشیپ نے اسکرپٹ کو دوبارہ لکھا اور اس کا کریڈٹ حاصل کیا، اور دوسری فلم کو ختم کردیا گیا۔ لیکن کشیپ نے اب خود کو ثابت کر دیا تھا، اور اس لیے اسے وی سی آر اور ٹیلی ویژن سیٹ تک رسائی مل گئی۔ اس نے ویڈیو ٹیپس لانا شروع کیں اور کئی دن فلمیں دیکھنے میں گزارے
کشیپ کو پہلا بڑا بریک اس وقت ملا جب اداکار منوج باجپائی، جو داؤد پر کام کر رہے تھے، نے پروڈیوسر ڈائریکٹر رام گوپال ورما کو آٹو نارائن دکھایا۔ ورما کو کشیپ کا کام پسند آیا اور انہوں نے ستیہ کے لیے اسکرپٹ لکھنے کے لیے ان کی خدمات حاصل کیں
ایک انٹرویو میں انوراگ کشیپ نے بتایا تھا ”میں ممبئی آنے کے بعد سڑک کنارے بھی سوتا تھا۔ کبھی کبھی سو پاتا تھا، کبھی ڈنڈا مار کر اٹھا دیا جاتا تھا۔۔۔ فٹ پاتھ پر لوگ لائن سے سوتے تھے اور سونے کے لیے چھ روپے دینے پڑتے تھے“
وہ ٹرین سے ممبئی سیدھا پرتھوی تھیٹر پہنچنے تو انھیں کہا گیا ’یہ ہوٹل نہیں تھیٹر ہے‘
ان کا کہنا ہے کہ جب وہ ممبئی آئے تو ان کی جیب میں صرف پانچ ہزار روپے تھے
وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں ”کوئی بندہ وہاں (فٹ پاتھ کا) انچارچ تھا اسے چھ روپے دینے پڑتے تھے تاکہ کوئی صبح چھ بجے تک نہ اٹھائے“
وہ اپنا سوٹ کیس ساتھ رکھتے تھے، جس میں اکثر کتابیں ہوتی تھیں۔ ”میں واحد شخص تھا جو پھرتھوی تھیٹر کھلنے سے پہلے وہاں کا باتھ روم استعمال کر سکتا تھا“
انوراگ کا شمار بالی وڈ کے ان ہدایتکاروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے ایک الگ راستہ اختیار کر کے اپنی ایک خاص پہچان بنائی۔ ان کی فلمیں بھلے ہی ہمیشہ تنازعات میں گھری رہیں، لیکن یہی ان کی خاصیت رہی ہے کہ انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا
یقیناً انہوں نے فلمسازی کی ایک مختلف قسم اور نئی تعریف بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ بھی ان کا خاصہ رہا ہے کہ انھوں نے نئے فنکاروں کو بھرپور مواقع فراہم کیے ہیں
انہوں نے نوازالدین صدیقی کو بڑا بریک دیا۔ نواز کے علاوہ وکی کوشل کو بھی انوراگ نے ہی موقع دیا، جو آج نوجوان فنکاروں میں بہت باصلاحیت مانے جاتے ہیں۔ انوراگ نے وکی کو اسسٹنٹ کے طور پر اپنی فلم ’گینگز آف وسے پور‘ میں شامل ہونے کا موقع دیا تھا
ایک ٹیلی ویژن سیریل لکھنے کے بعد کشیپ کو رام گوپال ورما کے کرائم ڈرامہ ’ستیہ‘ (1998) میں شریک مصنف کے طور پر بڑا چانس ملا اور انہوں نے ’پانچ‘ کے ساتھ ہدایتکاری کی شروعات کی جو سنسرشپ کے مسائل کی وجہ سے کبھی تھیٹر میں ریلیز نہیں ہوئی
1999 میں، کشیپ نے اسٹار اسکرین ایوارڈز میں ستیہ کے لیے بہترین اسکرین پلے کا ایوارڈ جیتا تھا
اگلے سال ان کی مختصر فلم Last Train to Mahakali نے اسی ایوارڈز میں اسپیشل جیوری ایوارڈ جیتا تھا
انہوں نے ’بلیک فرائیڈے‘ (2004) میں ہدایتکاری کی۔ یہ فلم حسین زیدی کی 1993 کے بمبئی دھماکوں کے بارے میں کتاب پر مبنی تھی۔ کیس کا فیصلہ آنے تک یہ فلم دو سال تک روکی گئی تھی
بلیک فرائیڈے، نے لاس اینجلس کے تیسرے سالانہ انڈین فلم فیسٹیول (2005) میں گرینڈ جیوری پرائز جیتا، اور وہ 57ویں لوکارنو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول (2004) میں گولڈن لیپرڈ (بہترین فلم) کے لیے نامزد ہوئے
اسکرین رائٹر کے طور پر، انہوں نے اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نامزد کینیڈین فلم واٹر (2005) کا اسکرپٹ بھی لکھا۔ وہ عصری ہندی سنیما میں سب سے زیادہ ہمہ گیر اور شاندار فلم سازوں میں شمار کیے جاتے ہیں
انوراگ کشیپ کی ’نو سموکنگ‘ (2007) نے منفی تبصروں کے ساتھ باکس آفس پر خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ان کی ’دیو ڈی‘ (2009) دیو داس کی ایک جدید شکل تھی، جسے کامیابی ملی
پھر سماجی و سیاسی ڈرامہ ’گلال‘ (2009)، تھریلر ’دیٹ گرل ان یلو بوٹس‘ (2011) اور ’گینگز آف وسے پور‘ (2012) سے ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا
انوراگ کشیپ نے بعد میں تنقیدی طور پر سراہی جانے والی ’دی لنچ باکس‘ اور ’شاہد‘ (دونوں 2013) کو مشترکہ طور پر پروڈیوس کیا، جو پہلے انگریزی زبان میں بہترین فلم کے لیے بافٹا ایوارڈ نامزدگی حاصل نہیں کر پائے تھے۔ ان کی اگلی فلمیں ’انتھولوجی‘، ’بامبے ٹاکیز‘ (2013) اور ’اگلی‘ (2014) تھیں
2016 میں کشیپ نے ’رمن راگھو 2.0‘ کی ہدایت کاری کی۔ یہ فلم سیریل کلر رمن راگھو سے متاثر تھی۔ ان کی اگلی فلم اسپورٹس ڈرامہ ’مکاباز‘ تھی جو 2018 میں ریلیز ہوئی
اسی سال انہوں نے بھارت کی پہلی نیٹ فلکس سیریز کرائم تھریلر ’سیکرڈ گیمز‘ کی مشترکہ ہدایت کاری کی، جو وکرم چندر کے اسی نام کے ناول اور رومانوی ڈرامہ ’من مرضیاں‘ پر مبنی تھی۔ وہ ایک فلم پروڈکشن کمپنی گڈ بیڈ فلمز کے شریک بانی بھی ہیں
آپ انوراگ کی رنبیر کپور اور انوشکا شرما کے ساتھ فلم ’بامبے ٹاکیز‘ کی تاریخ کے بارے میں ضرور جانتے ہونگے۔ انوراگ کو اس فلم کے فلاپ ہونے پر اتنا صدمہ لگا کہ انہوں نے فلمی دنیا کو الوداع کہنے کی دھمکی بھی دے ڈالی
انوراگ ہمیشہ سنسر بورڈ کے اقدامات کی مذمت کرتے آئے ہیں۔ فلم ’اُڑتا پنجاب‘ (2016) کی ریلیز کے موقع پر سنسر بورڈ نے اس پر کئی اعتراض اٹھائے تھے اور اس پر تنازع بھی ہوا تھا
انوراگ کا تنازعات سے گہرا تعلق ہے۔ چاہے بات ان کے فلموں کی ہو یا پھر متنازع بیانات، سوشل میڈیا پر پوسٹس، خاندانی تعلقات یا فلمی برادری میں شراکت داروں کے ساتھ لڑائیوں کی ہو
چند سال قبل ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ وہ بچپن میں جنسی ہراسانی کا شکار ہوئے۔ انوراگ کے مطابق ”میرے ساتھ تقریباً گیارہ سال تک جنسی ہراسانی ہوتی رہی۔ تاہم اب میں نے اس شخص کو معاف کر دیا ہے۔ جس وقت انھوں نے میرے ساتھ ہراسانی کی تو ان کی عمر بائیس سال تھی۔ جب میں ان سے کئی سال بعد ملا تو انھوں نے اس پر پچھتاوا بھی ظاہر کیا۔۔ میرے لیے اسے بھولنا آسان نہیں تھا۔ میں اسی تناؤ، مایوسی اور غصے میں ممبئی آیا تھا۔ ابتدائی برسوں میں یہاں بھی محنت کی لیکن کالکی نے ڈپریشن سے باہر آنے میں میری بہت مدد کی“
انوراگ نے پہلی شادی 1997 میں آرتی بجاج سے کی لیکن دونوں نے 2009 میں طلاق لے لی۔ دونوں کی ایک بیٹی عالیہ ہے، جن کی عمر انیس سال ہے۔ بعد میں انوراگ نے اداکارہ کالکی سے 2011 میں شادی کر لی۔ لیکن یہ شادی بھی زیادہ دیر نہ چل سکی اور 2015ع میں دونوں میں علیحدگی ہو گئی
منفرد اداکار منوج باجپئی، جنہوں نے انوراگ کی کئی فلموں میں کام کیا ہے، کہتے ہیں ”ایک بہت ہی غیر منظم شخص سے ایک منظم شخص تک، ایک بے چین شخص سے ایک مستحکم شخص تک، غصے سے پرسکون شخص تک، میں اس سفر کا گواہ تب سے رہا ہوں، جب وہ صرف بائیس سال کے تھے۔۔ ان کا سفر مشکل لیکن شاندار ہے۔ وہ اس بات سے کبھی نہیں ڈرتے۔ انوراگ کو ہمیشہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کا حل بھی وہ خود تلاش کرتے ہیں“
منوج باجپئی کا کہنا ہے ”آج وہ ایک اہم موڑ پر ہیں۔ انھوں نے اپنے سینیما کا سکہ جمایا ہے۔ وہ نئے فلم سازوں کے لیے تحریک کا ذریعہ ہیں۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کا یہ سفر دیکھا ہے۔ میں دل کی گہرائیوں سے ان کا احترام کرتا ہوں“
بلیک فرائیڈے میں ان کے ساتھ کام کرنے والے پوون ملہوترا کہتے ہیں ”انہوں نے فلموں میں اپنے لیے ایک جگہ بنائی ہے اور ہمیشہ روایت سے ہٹ کر کام کیا ہے۔ وہ ہندی فلموں کی بیرونی ممالک مارکیٹنگ کرنے والے پہلے آدمی تھے، جو کہ این ایف ڈی سی (انڈیا میں نیشنل فلم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن) کبھی نہ کر سکا“
انوراگ کی فلم ’گینگز آف وسے پور‘ سے اسٹار بننے والے نوازالدین صدیقی کا کہنا ہے ”انوراگ نے اپنی فلموں میں اپنے اردگرد کے کرداروں کو جس طرح جگہ دی، یہ کوئی نہیں کرسکا ہے۔۔ ان کا اپنا انداز ہے جو منفرد رہا ہے اور آج بھی زندہ ہے۔“