تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح بھارت میں بھی انسانی حقوق پر آواز اٹھانا یا ان کا مطالبہ کرنا غیر سرکاری تنظیموں کا خاصہ سمجھا جاتا تھا، مگر 1995ء میں اعلیٰ اختیاراتی قومی حقوق انسانی کمیشن کے قیام نے بھارت میں اس موضوع کو غیر سرکاری یا انسانی حقوق کی تنظیموں کے دفاتر یا ان کی سالانہ رپورٹوں سے نکال کر اس کو بطور ایک سنجیدہ ایشو متعارف کرایا
مجھے یاد ہے 2002ء میں گجرات میں ہوئے مسلم کش فسادات نے دیگر امن پسند شہریوں کی طرح مجھے بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ سینیئر ساتھی کہتے تھے کہ فسادات تو ملک میں ہوتے ہی رہتے ہیں، اس میں نیا کچھ نہیں ہے۔
1984ء میں تو اسی طرح کے فسادات میں سکھوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی تھی۔ اس موقع پر ہمارے کئی رشتہ داروں نے جان بچانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے تھے، مگر گجرات کے فسادات شاید پہلے فسادات تھے، جو ٹی وی یا دیگر میڈیا پر دکھائے گئے۔ لہٰذا میرا ان سے متاثر ہونا لازمی تھا
بھارت میں فسادات کے ملزمان کو شاید ہی کبھی سزا ہوتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پولیس کے ایک سینیئر سابق افسر وبھوتی نارائین رائے، جنہوں نے اس موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ہے، کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پولیس اقلیتی فرقے کے تئیں متعصب ہوتی ہے۔ پھر یہ دونوں طرف کے افراد کی پکڑ دھکڑ کر کے ان کو سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ گجرات کے فسادات شاید واحد ایسے فسادات تھے، جہاں ملزمان کو عدالت نے سزائیں سنائیں۔ اس کا کریڈٹ قومی حقوق انسانی کمیشن کو جاتا ہے
اسی طرح 2001ء میں جب صوبہ راجستھان کے دھول پور ضلع میں ایک لڑکی کے ساتھ ایک سال تک جنسی زیادتی کی گئی اور ملزم کو گرفتار بھی نہیں کیا گیا، تو قومی حقوق انسانی کمیشن یا این ایچ آر سی نے مداخلت کرتے ہوئے صوبہ کی پولیس کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا، جس سے نہ صرف ملزم گرفتار ہو گیا، بلکہ متاثرہ خاندان کو معاوضہ بھی ملا
مگر بھارت میں جہاں دیگر اداروں کو زوال کا سامنا ہے، وہیں یہ ادارہ بھی تنزلی کا شکار ہے۔ گزشتہ نو سالوں میں اقلیتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے خلاف جو طوفان بدتمیزی برپا ہے، لگتا ہے کہ اس کمیشن نے بھی نیند کی گولی کھا لی ہے
2020ء میں، اتر پردیش کے ہاتھرس ضلع میں، ایک دلت لڑکی کو اونچی ذات کے ہندو مردوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کی لاش کو صوبے کی پولیس کی موجودگی میں آدھی رات کو کھیت میں جلا ڈالا۔ صوبائی حکومت سب کی نگاہوں کے سامنے ملزمان کو بچانے کی کوشش میں لگی رہی۔ مگر این ایچ آر سی نے بس ایک پوسٹ آفس کا کردار ادا کیا۔ شکایت کی خود جانچ کرنے کے بجائے، اس معاملے کو صوبے کی پولیس کے سپرد کر دیا۔ جہاں پولیس خود ہی ملزم تھی، وہ کیا تحقیق کرتی؟ متاثرہ خاندان آج تک انصاف کا منتظر ہے
سماج میں ذات پات کی تقسیم، اعلیٰ ذاتوں کے دبدبے اور پولیس کے مظالم کے باوجود بھارت کے ادارے، جس میں عدلیہ، آزاد میڈیا اور انسانی حقوق کمیشن شامل ہیں، مظلوموں کی داد رسی کر کے ان کے آنسو پونچھنے کا کام کرتے تھے۔ بین الاقوامی فورمز پر بھی جب بھارت کے حقوق انسانی کے ریکارڈ پر بحث ہوتی تھی، تو اس کے سفارت کار ملک کے اداروں کا حوالہ دے کر فخر سے کہتے تھے کہ ان کے ملک میں داخلی احتساب اور داد رسی کا نظام خاصا مضبوط ہے، اس لیے ان کو کسی بیرونی ادارے کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے
مگر گزشتہ کئی برسوں سے یہ ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ عملی طور پر یہ حکومت کے غلام بن چکے ہیں۔ قومی انسانی حقوق کمیشن کو تو ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے درجہِ اول کی ایکریڈیٹیشن دینے سے انکار کر دیا۔ اقوام متحدہ کی گلوبل الائنس آف نیشنل ہیومن رائٹس انسٹیٹیوشنز، جس کا بھارت بھی ایک ممبر ہے، کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کمیشن غیر فعال ہو چکا ہے
بھارت کی کئی غیر سرکاری تنظیموں نے اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارہ کی توجہ اس طرف دلائی کہ جب ہندو قوم پرست کا ایک طاقتور طبقہ اعلانیہ مسلم فرقے کی تباہی اور ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی باتیں کر کے اپنے پیرو کاروں کو ہتھیار اٹھانے پر اکساتا ہے، تو قومی انسانی حقوق کمیشن خاموش تماشائی بن کر بیٹھا دیکھتا رہتا ہے
کمیشن کے چیئرپرسن اور دیگر ارکان کی تقرری کا عمل ویسے تو پہلے بھی حکومت ہی کرتی تھی، مگر چونکہ یہ ادارہ بین الاقوامی برادری میں ملک کو سبکی سے بچاتا آیا ہے، اس لیے غیر جانبدار بھاری بھر کم اشخاص کو ہی اس کا سربراہ اور ممبر بنایا جاتا تھا، مگر اب اس میں نہ صرف منظورِ نظر چیئرمین لائے جاتے ہیں، جنہوں نے اپنے عدالتی سفر کے دوران حکومت کی مدد کی ہو، اس کے اراکین میں خفیہ تنظیموں کے اہلکاروں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ یہ افراد تو خود ہی حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہوتے ہیں، وہ کیا انصاف کریں گے؟
انسانی حقوق کے ماہر ہنری ٹیفاگنے، جو پیپلز واچ نامی این جی او چلاتے ہیں، کہتے ہیں، ”این ایچ آر سی اب صرف ایک پوسٹ آفس کی طرح کام کرتا ہے، جہاں اسے متاثرہ افراد کی شکایات موصول ہوتی ہیں، ضروری کارروائی کرنے کے لیے وہ ان شکایات کو صوبے کی پولیس کو بھیجتا ہے۔آخر اب شکایت ہی اسی پولیس کے خلاف ہو، تو وہ کیسے اس کا انجام تک پہنچائیں گے؟ ان سے کس قسم کے انصاف کی امید رکھی جا سکتی ہے؟“
تین دہائی قبل جب اس کمیشن کو بنایا جا رہا تھا، تو بھارت کی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ یہ سرکاری کمیشن لیپا پوتی کر کے حکومت کو الزامات سے بری کرنے کا کام کرے گا۔ اس کمیشن کا قیام ہی عالمی اداروں میں پنجاب اور کشمیر میں ہوئی انسانی حقوق کی زیادتیوں پر شدید تنقید کے بعد کیا گیا تھا، تاکہ عالمی کو برادری کو باور کرایا جا سکے کہ دار رسی کا انتظام ملک کے اندر ہی ہے
ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکیومنٹیشن سینٹر کے سربراہ روی نیر کہتے ہیں کہ ”این ایچ آر سی کے قیام کا پورا ڈیزائن غلط تھا۔ این ایچ آر سی کو خود مختار ادارہ بنانے کے بجائے، اسے وزارت داخلہ کے تحت رکھا گیا تھا، اس کا بجٹ، تقرریاں اور تفتیشی طریقہ کار سب یہی وزارت طے کرتی ہے۔ اس کی بنیاد ہی ایک بڑا فراڈ تھی“
جو کچھ اس کمیشن کے ساتھ اب ہوا ہے، وہ کسی نہ کسی وقت تو ہونا ہی تھا۔ اب تک تو اس نے بین الاقوامی برادری کو دکھانے کے لیے غیر جانبداری کا جو ہوا کھڑا کیا ہوا تھا، اب وہ آہستہ آہستہ تحلیل ہو رہا ہے۔ عالمی ایجنسیوں کو اب اس کے کام کرنے کے طریقہِ کار کا ادراک ہو چکا ہے۔ یہ معاملہ عالمی سطح پر بھارت کے لیے سبکی اور شرمندگی کا باعث بن رہا ہے۔۔ مگر کیا کیا جائے، شرمندگی اور سبکی تو اب حکومتی افراد نے بھون کے کھائی ہے۔ ان کو بین الاقوامی سبکی، نہ ہی اپنے عوام کے انسانی حقوق کی کوئی فکر ہے۔ اب ہم ناستک فلم میں کوی پردیپ کے اس گانے کو گنگنانے کے علاوہ کر ہی کیا سکتے ہیں:
دیکھ تیرے سنسار کی حالت کیا ہوگئی ہے بھگوان
کتنا بدل گیا انسان
سورج نہ بدلا، چاند نہ بدلا، نا بدلا رے آسمان
کتنا بدل گیا انسان، کتنا بدل گیا انسان
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)