میرے ہمسفر وہی پرانے اور آپ کے شناسا ہیں ماسوائے لالہ اعجاز کے کہ وہ جولائی 2016ء میں اس دار فانی سے اپنے ابدی گھر جا چکے ہیں۔ چوہدری ریاض احمد، ملک مشتاق ساتھ ہیں، جبکہ لالہ اعجاز کی یادیں۔ کچھ نئے ہمسفر بھی ہیں جیسے میرے پھوپھی زاد بھائی قیس مظہر حسین۔ پاک فضائیہ کے سابق لڑاکا ہوا باز۔ پاک بھارت معرکہ 1965 ءکے غازی۔ میرا چھوٹا بھائی شہباز احمد حمید۔ وہ عمر میں مجھ سے چھوٹا لیکن امارت میں بڑا ہے۔ رحم دل، فیاض اور سیدھا سادہ۔ میرا برادر نسبتی عمران انور یہ نیک اور ہنس مکھ ہیں اور عدنان دلاور تابعدار اور ذمہ دار۔البتہ اس سفر میں ایک اور نئی مسافر بھی ہیں۔ اس طلسماتی کردار سے ملاقات بھی عجب بہانہ تھی، جس کا ذکر آگے ہوگا۔ فزکس میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ ذات کی کشمیرن، وعدے کی سچی، من کی کھری، جو ٹھان لیا سو ٹھان لیا۔ زندگی جینے کا سلیقہ جانتی ہیں۔ ان کو لوگ ”عافیہ“ کے نام سے جانتے ہیں مگر وہ اس کتاب کی ”نین“ ہیں۔
دریائے سندھ ہر موسم کا بڑا دریا ہے۔ ہر سال اس میں دریائے نیل سے دوگنا پانی آتا ہے۔ خیرہ کن پہاڑی چوٹیوں، سنگلاخ چٹانوں اور پاکستان کے میدانی علاقوں سے بہتا یہ عظیم دریا بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ میدانی علاقوں میں اس کی روانی دیکھنے لائق ہے۔ جنوب ایشیائی ثقافتوں میں اس کی ثقافت کا ذکر بڑی آن بان اور شان سے کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ زمین کی سیرابی کے ساتھ ساتھ اس کی آغوش میں لال و گوہر بھی پیوستہ ہیں۔ پاکستان کی زرعی معیشت کی ترقی کا بڑا انحصار موسم کے بعد دریائے سندھ کے پانیوں پر ہے۔
بلند و بالا تبت سے نکلنے والے اس دریا کے راستے میں حائل عظیم پہاڑ پیچ دار راستوں سے اسے ہانکتے لاتے ہیں۔ سکردو اور ہوند کے مقامات پر اسے پھیلنے کی مختصر سی جگہ ملتی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے میدانوں میں پہنچ کر ہانکے جانے کی بجائے یہ اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ کالا باغ اور اپنے ڈیلٹا کے درمیان یہ انسانوں، جانوروں اور فصلوں کو پانی کی صورت زندگی عطا کرتا ہے اور ان میں تباہ کن طغیانی کی شکل میں موت بھی تقسیم کرتا ہے۔ ان میدانی علاقوں میں سردی کے موسم میں یہ تنگ دھاروں کی صورت بہتا ہے، جس میں جا بجا چھوٹے چھوٹے جزیرے اور ریت کے بالے سر اٹھائے نظر آتے ہیں جبکہ گرمی کے موسم میں یہ اس قدر پھیل جاتا ہے کہ ایک کنارے سے دوسرا کنارہ دکھائی نہیں دیتا۔ بقول ایک سیاح: ”یہ کوئی دلچسپ منظر نہیں لیکن دریا خود ایک پر شکوہ منظر ہے۔“
ہمالیہ کو دیکھ کر سندھو کے حجم پر حیران ہونا کوئی بڑی بات نہیں لیکن اس دریا کا ایک احترام ضرور ہے، جسے بنانے اور پانی دینے کے لئے دنیا کے بلند ترین مقامات سے تقریباً 10 ہزار ندیاں،چشمے اس میں شامل ہوتے ہیں
میں نے اس سفر نامے کو منفرد انداز میں لکھا ہے، مکالمے کی صورت۔ جو میرے، مرے ہمسفروں اور دریائے سندھ کے درمیان دوران سفر ہوئے ہیں۔ مجھے امید ہے آپ کو یہ انداز اچھا لگے گا۔
میں اس عظیم دریا کو کتاب میں”سندھو“ ہی لکھوں گا کہ شاید یہ ہماری ثقافت اور تاریخ کے قریب تر ہے اور یہی نام ہمارے بزرگوں نے بھی اسے دیا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس نام میں مجھے اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔ سندھو سے میرا پیار اور دوستی کا رشتہ ہے اور پیار کے رشتوں کو ہمیشہ اسی نام سے بلاتے ہیں جو پکارنے والے کو خوش کن لگے
سندھو تبت سے جانب شمال بہہ کر بھارت میں داخل ہوتا ہے اور پھر بھارت سے جنوبی سمت بہتا پاکستان میں۔ سارے راستے اس کے کنارے آباد لوگ اس کی پوجا کرتے ہیں۔ سندھو دور جدید میں پاکستان کی وحدانیت کی پہچان بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں تین ہزار ایک سو اسی(3180) کلو میٹر کا سفر 5 ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی تاریخ، ثقافت، جغرافیہ اور سیاحت میں لے جاتا ہے۔ شاید سندھو ان سب کا سنگم ہے۔ یہ صرف سندھو کی کہانی نہیں بلکہ قدیم و جدید دور کی تاریخ، بدلتے جغرافیہ، بجھتی ثقافت، کمزور پڑتی عمارتوں اور دم توڑتی سیاحت کی جھلک بھی خود میں لئے ہے
سفرنامے دراصل جغرافیہ کے مضمون کی بڑی خدمت بھی ہیں۔ یہ کتاب سفرنامہ بھی ہے، سندھو دریا کی تاریخ بھی اور اس کے کنارے بسنے والوں کی روایات، مشکلات اور تمدن کی کہانی بھی ہے۔ کہیں میں سندھو کے کنارے کنارے چلا ہوں، کہیں کشتی میں پہنچا ہوں، کہیں پکی سڑک اور کہیں کچے راستے پر جیپ دوڑاتا بل کھاتا پہنچا ہوں، اس لئے ممکن ہے اس کہانی میں سندھو جیسی روانی کی تشنگی محسوس ہو۔ ویسے یہ انسان کی لکھی ہے جو خطا کار ہے جبکہ سندھو قدرت کا تحفہ ہے، انمول اور ہر لحاظ سے مکمل۔۔ کسی تاریخی حوالے یا کتابت کی غلطی کی نشاندہی کو کھلے دل سے تسلیم کروں گا کہ کسی کو بھی کسی علم میں دسترس نہیں۔
اللہ ہم سب سے راضی ہو۔ آمین
مورخہ؛یکم جنوری 2023ءشہزاد احمد حمید
میری سلطنت۔ سندھو کی زبانی
ہاں تو یہ میں ہوں دریاﺅں کا باپ ”اباسین“۔ میری اپنی راجدھانی کشمیر کے بلند و بالا پہاڑی سلسلے سے ہوتی ہمالیہ، ہندوکش، قراقرم کی وادیوں سے گزرتی بحیرہ عرب کے ساحلوں تک پھیلی ہے۔ ہزاروں میل لمبی اس سلطنت کا میں ایسا حکمران ہوں، جو باپ کی طرح شفیق ہے تو استاد کی طرح سخت بھی۔۔ میں زرخیز مٹی سے ہریالی کی لالی بھی بانٹتا ہوں اور تند و تیز لہروں سے بے سمت آبادیوں کو تہہ خاک بھی کرتا ہوں۔ میرے کنارے بے شمار قبائل، قومیں اور تہذیبیں بھی آباد رہیں۔ قومیں اور قبائل آتے رہے جاتے رہے مگر میں ہوں کہ بہے چلا جا رہا ہوں۔ اپنی روانی اپنی موج میں۔۔ میں اپنی سلطنت میں کسی کی مداخلت کو ہر گز پسند نہیں کرتا۔ جو مجھ پر انحصار اور اعتبار کرتے ہیں، میں ان سے پیار کرتا ہوں اور جن سے میں پیار کرتا ہوں وہ رب کی رضا سے سدا ہرے بھرے رہتے ہیں۔ میری سلطنت بے شمار آبشاروں، ندیوں، نالوں اور گلیشیئرز سے تخلیق ہوئی ہے۔ یہ سب میری حکمرانی کو مانتے ہوئے مجھے پانیوں کے تحفے دیتے ہیں۔ میں اس تحفے کو لاکھوں ایکڑ رقبوں میں بانٹ دیتا ہوں۔ جہاں کھیت کھلے ان سونا چاندی اور زندگی کے جواہر اگلتے ہیں۔ یہی اللہ کا حکم بھی ہے ”کہ میری نعمتوں کو میرے بندوں میں بانٹ دو۔“
ہاں میں سپت سندھو ہوں، سوہنڑاں سندھ ہوں، سائیں مہران ہوں، پاخیر اباسین ہوں۔ ہزاروں سال سے یونہی بہتا پانی بانٹتا، کہانیاں تخلیق ہوتے دیکھتا آ رہا ہوں۔ میں اداس بھی ہوتا ہوں اور خوش بھی۔ اداسی اس وقت ہوتی ہے جب حضرت انسان میرے پانیوں میں زہریلے کمیکلز شامل کرتے ہیں اور خوشی اس وقت ملتی ہے جب میرے پانیوں سے سیراب ہونے والی زمینیں سبزہ اور سونا اگلتی خود سے جڑے دہقانوں اور انسانوں کی زندگی مسکانوں سے بھر دیتی ہیں۔
ہاں! میں اپنی سلطنت کا شہنشاہ ہوں۔۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.