مجھے نہیں پتہ کہ خزنہ کے لیے کس طرح ممکن تھا کہ وہ ایک ہی وقت میں مردوں کے لئے نوحہ خواں بھی تھی اور دلہنوں کے لئےآرائش گر بھی – جب مجھے پہلی دفعہ اس کو دیکھنے کا موقع ملا تو میں نے امی اور ان کی سہیلیوں سے اس کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ میں نے اس وقت اسے دیکھا ، جب ہمارے ہمسائیوں میں سے ایک آدمی کی وفات ہوئی ، جس کی عمر 50 کے لگ بھگ ہوگی- جب ہماری ہمسائی نے آکے بتایا تو کچھ زیادہ حیرت نہ ہوئی ، بیماری نے اسے اندر سے ختم کر دیا تھا – ”حسن کی ماں! وہ مرگیا ہے اللہ ایسی آزمائش سے بچائے“ اس نے عام سے لہجہ میں بتایا – اس دن مجھے محسوس ہوا ، میں ایک خوشی سے بھرپور دن گزارنے والی ہوں، فوت ہونے والے آدمی کی ہمسائی ہونے کا میں نے پورا فائدہ اٹھایا-
گلی کے دوسرے بچوں کو لے کر میں چھپتے چھپاتے گھر کے اندر چلی گئی تاکہ مردہ شخص کا چہرہ ، اور اس کی بیوی اور بیٹیوں کو اس کے لئے روتے ہوئے دیکھ سکوں۔ ماتم خواں عورتیں تواتر کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو لہراتی، کچھ جملے بڑی لے کے ساتھ ادا کرتیں، جو انہوں نے پہلے سے یاد کر رکھے تھے ۔ میں نے اپنی دوست کا ہاتھ پکڑا ، چھپتے چھپاتے اس جگہ جا کے کھڑی ہوگئی جو دروازے سے زیادہ دور نہیں تھی اور بہت سے بچے پہلے سے ہی وہاں موجود تھے ، شاید وہ بھی ہماری طرح متجسس اور تھوڑی سی مہم جوئی کا تجربہ کرنا چاہتے تھے ۔ جس جگہ ہم کھڑے تھے، اچانک ایک بڑے سے ہاتھ نے ہم سب کو ایک طرف دھکیل دیا، یہ خزنہ کا ہاتھ تھا، لمبی چوڑی دروازے پہ موجود تھی۔
اس نے تیزی سے ایک پریشان کن نگاہ سے دیکھا ، اپنی انگلیوں کو پیچھے کی طرف کر کے دونوں چوٹیوں کو کھول دیا ، اپنی جیب سے ایک کالے رنگ کا اسکارف نکالا اور اپنے سر پہ باندھ لیا ، ایک خوفناک چیخ بلند کی (جس نے میرے چھوٹے سے دل کو خوفزدہ کر دیا) عورتوں میں سے گزرتے ہوئے وہ اس کونے تک گئی، جہاں اودے رنگ کا محلول پڑا تھا ، جو اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرے پہ مل لیا ۔ اس کا چہرہ بالکل ان ماسک کی طرح لگ رہا تھا جسے دکان دار مختلف تہواروں پہ اپنی دکانوں پہ سجاتے ہیں۔
پھر وہ واپس اس میت کے سر کی طرف کھڑی ہو کے ایک اور چیخ بلند کی اور بُری طرح اپنے سینے کو پیٹنا شروع کر دیا، کچھ ایسے الفاظ لے کی صورت ادا کرتی، جن کو عورتیں بھی اس کے پیچھے دہراتیں ۔ آنسو پہلے ہی ان کے چہروں سے مسلسل گر رہے تھے – ایسا لگ رہا تھا یہ ساری آہ و پکار خزنہ صرف مرنے والے کے لئے نہیں بلکہ گاؤں کے تمام فوت شدگان کے لئے کر رہی ہے ، کبھی وہ کسی عورت کے ساتھ اس کے بیٹے کے غم میں شریک ہو جاتی اور کبھی دوسری کے ساتھ اس کے شوہر ، یا کسی کے بھائی کے لئے ۔ آپ یہ بتا ہی نہیں سکتے تھے کہ مرنے والے کی ماں، بہن یا بیٹی کون ہے؟ جیسے ہی کوئی عورت اپنے رونے کی آواز بلند کرتی ، جس میں مبالغہ آرائی زیادہ ہوتی، خزنہ اس میں اپنی طرف سے مزید اضافہ کرتی جو بہت ہی خوفناک آہ و بکا کی صورت میں ہوتی ۔ بس پھر آنسوؤں کے گرنے میں تیزی آ جاتی، رونے کی آوازیں مزید بلند ہو جاتی اور دکھ کی فضا اور سوگوار ہو جاتی –
اس تمام منظر کا محور خزنہ تھی – ایک نہ رکنے والی زبان ، ایک الو جیسی آواز اور حزن و ملال کو بیان کرنے کی مکمل صلاحیت کے ساتھ ۔ ۔ کوشش کا صلہ اس کی محنت کے مطابق ہی ہوتا ہے، خزنہ کی ریاضت نے اس کے اندر اس دکھ کی کیفیت کو بہت پائیدار کر دیا تھا۔ مجھے یاد ہے جب آدمی مردہ شخص کا جنازہ اٹھانے آئے تو خزنہ نے کس طرح ان کو واسطے دیے کہ وہ جانے والے کو بہت احتیاط سے اٹھائیں، اس دنیا سے اس کا تعلق ختم کرنے میں اتنی جلدی نہ کریں۔ یہ سلسلہ مزید جاری رہتا اگر ایک آدمی، جو اس ساری لفاظیت سے تنگ آ گیا، اس نے اسے ایک طرف دھکیلا اور اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ میت کو اٹھانے میں کامیاب ہو گیا ۔ کالے رومال ایک دفعہ پھر لہرائے، عورتوں کی آہ و بکا میں تیزی آ گئی کچھ اپنے شوہروں کو رو رہی تھیں، کچھ اپنی ماؤں کو ۔ ایسے میں خزنہ کی چیخ و پکار نے درجنوں عورتوں کے رونے کو پیچھے چھوڑ دیا ۔
جب جنازہ کو آدمیوں کا دستہ دور لے گیا اور میت کے اوپر پڑی ٹوپی ادھر ادھر ہلتی نظر آ رہی تھی ، آنکھوں سے اوجھل ہو گئی تو خزنہ بھی خاموش ہو کے بیٹھ گئی ۔ یہ وہ وقت تھا جب عورتوں کو تھوڑا سا آرام کا وقت مل گیا۔ وہ غم کی اس کیفیت سے باہر آ گئیں جو ان پر غالب تھی ۔ کھانا کمروں میں کسی ایک میں لگانے میں اک دوسرے کی مدد کرنے لگیں۔
خزنہ نے سب سے پہلے اپنا منہ دھویا، اپنی آستین کو بازوں سے اونچا کیا ، اور جو کچھ اس کے ہاتھ آیا اسے اپنے بڑے سے منہ سے بھر لیا ۔ میں جو بچوں کے درمیان کھڑی تھی ، دیکھا جو کچھ نیچے گرتا خزنہ اسے اپنے لباس کے سامنے والے حصے میں ڈال لیتی ۔ موقع کی مناسبت کو بھانپتے ہوئے اس نے ایک تھکی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ”یہ تھوڑا سا مسعودہ کے لئے ہے۔۔ جب میں نے موت کی خبر سنی تو اس کے لئے کچھ نہ پکا سکی ۔ موت والے گھر سے کھانا ویسے بھی باعث ثواب ہوتا ہے۔“ مجھے اس دن پتہ چلا خزنہ ایک مختلف عورت ہے مرنے والے سے زیادہ موت اس کے لئے اہم ہے ۔ میں اس کا بڑا سا کھلا منہ ، خوفناک ہاتھ اور کھلے گھنگھر یالے کالے بال کبھی بھی نہ بھلا سکی ۔
میں جب بھی سنتی کوئی آدمی فوت ہوا ہے تو اپنے دوستوں کو لے کر فوراً اس کے گھر کی طرف بھاگتی، جس کے پیچھے ایک ہی خواہش پنہاں ہوتی کہ کچھ دلچسپ دیکھنے کو ملے گا۔ واپس آ کر سب کچھ اپنی ماں کو بتاتی، اگر وہ وہاں نہ گئی ہوتی ۔ لیکن وہاں میری توجہ مرنے والے کی بجائے ساری خزنہ کی طرف ہوتی ، اسے دیکھ کر میری آنکھوں میں چمک آ جاتی ۔ اس کے ہاتھ جن سے وہ اپنے چہرے، سر اور سینے کو بڑی طرح پیٹتی ، الفاظ کو کچھ اس لہجے میں بیان کرتی کہ غم زدہ خاندان کے زخم گہرے ہو جاتے، حتیٰ کی دوسرے آنے والے بھی اس درد کو محسوس کئے بغیر نہ رہ سکتے ۔
ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ خزنہ کو مجھے ایک شادی میں دیکھنے کا اتفاق ہوا مجھے اپنی آنکھوں پہ یقین نہ آیا ، وہ اپنے انہی سیاہ بالوں کے ساتھ جو بہت سلیقہ سے پھولوں کے ساتھ بندھے ہوئے تھے ۔ اس کا بد وضع چہرہ ، لیکن اس پہ ملے پاؤڈر نے اسے کی ہئیت کو اس سے بالکل مختلف بنا دیا تھا، جس پہ خزنہ نے اودا رنگ ملا تھا ۔ اس کی آنکھیں بڑی لگ رہی تھیں کیونکہ اس نے ان کے دونوں طرف کاجل لگا رکھا تھا اس کے بازو محتلف بریسلٹ سے بھرے ہوے تھے (کون کہتا ہے کی موت فائدہ مند نہیں ہے) اس کا منہ قہقہوں کی وجہ سے مسلسل کھلا ہوا تھا وہ صرف اس وقت بند کرتی، جب وہ اپنے پیلے دانتوں سے چیوگم چباتی ۔ مجھے احساس ہوا خزنہ کو دلہنوں کے ساتھ بھی وہی رویہ رکھنا پڑتا ہے جو وہ مردوں کے ساتھ روا رکھتی ہے ۔ اس کا کام شادی کے دن کی صبح کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ۔ سب سے پہلے وہ دلہن کے چہرے کو شیرا نما محلول سے چہرے کے بال صاف کرتی پھر اس کی بھنوؤں پہ پنسل لگا کر ان کی شکل بناتی، ساتھ ساتھ دلہن کو اس کی جنسی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کرتی جو عموماً سرگوشی کی شکل میں ہوتی یا جو کچھ وہ کہتی اسے صرف سرگوشی میں ہی ادا کیا جا سکتا تھا۔ اگر دلہن کے گال سرخ پڑ جاتے تو وہ ہنس کے آنکھ مار کر اسے بتاتی کی کچھ ہی دنوں میں وہ ان تمام امور میں ماہر ہو جائے گی لیکن شرط یہ ہے کہ وہ خوشبو والے صابن سے نہائے اور سر پہ تیل لگاتی رہے ، یہ وہ اشیا ہیں جنہیں دلہنیں خود یا خزنہ کے ذریعے منگوا سکتی ہیں ۔ شام کو عورتیں اپنے آپ کو خوبصورتی سے سجائے، اور خوشبو سے معطر کئے دلہن کے گرد جمع ہو جاتیں جو ایک مخصوص جگہ پر براجمان ہوتیں۔ خزنہ کی خوشی اس دن آسماں کو چھو رہی تھی۔
وہ رقص کا محور تھی، عورتوں کے ساتھ گھومتے ہوئے ، ان کہی باتیں کرتی جو انہیں ہنسنے پہ مجبور کرتی تھیں، انھیں آنکھ مارتے ہوئے ۔ عین اسی وقت دلہا دلہن کو اپنے ساتھ لے کر جانے کے لئے آ گیا۔ خزنہ نے فوراً انھیں کمرے تک پہنچانے کی ذمےداری سنبھالی، جہاں اسے ایک گارڈ کے فرائض ادا کرنا تھے – مجھے سمجھ نہ آتی کہ خزنہ ہمیشہ سے نئے نیلے جوڑوں کے دروازوں پہ کھڑا ہونے کے لئے کیوں آمادہ رہتی کچھ گھبرائی ہوئی انتظار کرتی جیسے ہی اشارہ ملتا دلہا کی آمد کا (جلد یا بدیر) وہ طربیہ کلمات ادا کرنا شروع کر دیتی، جس کا دولہا کے گھر والے پہلے ہی انتظار کر رہے ہوتے – آدمی اپنی مونچھوں کو مروڑنا اور تاؤ دینا شروع کرتے ، عورتیں بھی ان کے ساتھ خوشی کے نغمات گانا شروع کر دیتیں-
خزنہ جب گھر واپس جاتی تو خوشی اس کے جسم ، روح، آنکھوں اور جیب سے بھی جھلک رہی ہوتی تھی –
عورتوں کی شدید خواہش تھی کی خزنہ کو بھی ایسی خوشیاں دیکھنا نصیب ہوں، جو اس کی بیٹی مسعودہ کی شکل میں ملنا تھیں۔ خزنہ کی شادی واحد ایسی چیز تھی جس کو خانہ کو بھی شدت سے انتطار تھا۔ یہی وجہ تھی کی وہ چوڑیاں اور دوسری چیزیں اکٹھا کرتی رہتی تھی کیونکہ اس کا دنیا میں خزنہ کے علاوہ اور کوئی نہ تھا اور جو کچھ وہ شادیوں اور فوتگی کی رسموں سے اکٹھا کرتی وہ سب اس نے اسے ہی دینا تھا –
لیکن قدرت خزنہ کو خوش دیکھنا نہ چاہتی تھی – میں وہ دن کبھی نہ بھلا پاؤں گی۔۔ سخت گرمی تھی اور ٹائفائد بخار کا نشانہ خزنہ کے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔ کوئی ایسا دن نہ جاتا جب کوئی اس کا نشانہ نہ بنتا ، کہا جاتا ھے خزنہ کو ایک دن میں تین تین فوتگیاں بھگتنا پڑتی تھیں۔ بیماری نے مسعودہ کا کچھ بھی نہ چھوڑا بخار اس کی انتڑیوں تک جا پہنچا، موت کو اس پہ کوئی رحم نہ آیا، خزنہ کی فریادوں اور دعاؤں کے باوجود ۔ گاؤں کے لوگوں نے صبح اٹھتے ہی بچی کی موت کی خبر سنی۔۔ وہ سب حیرت زدہ تھے کہ بچی کی زندگی کہاں سے ختم ہوئی؟ خزنہ اپنی ہی بیٹی کی موت پہ کیسے ماتم کناں ہوگی؟ اتنے بڑے صدمے پہ اس کی زبان سے کس طرح کے رزمیہ جملے ادا ہوں گے؟ آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد ہمسائے کس طرح اس کی مزاحمت کا سامنا کر پائیں گے؟
تجسس اور دکھ نے مجھے گھیر رکھا تھا میں خزنہ کے گھر کی طرف چل پڑی، ڈھیروں ایسی عورتوں کے ساتھ جو اس کے گھر کی طرف جا رہی تھی، جن کے لئے اس کا قرض اتارنے کا وقت آگیا تھا – گھر کا ایک ہی کمرہ تھا جس میں بیس سے زیادہ لوگ نہیں سما سکتے تھے۔ ہم زمین پہ ہی بیٹھ گئیں اور جو داخل نہ ہو سکیں وہ دروازے پہ کھڑی رہیں۔ میری نظر چہروں پہ پڑتے ہوئے خزنہ کو تلاش کر رہی تھی کیونکہ اس کی آواز نہی آرہی تھی اور یہ بات میرے لیے شدید حیرت کا باعث تھی۔ جب میری نظر اس پہ پڑی وہ رو نہیں رہی تھی خاموش تھی بالکل ساکِت۔۔ کمرے کے ایک کونے میں پڑی، نہ سر پہ کالا رومال باندھ رکھا تھا، نہ کوئی ملال اس کے چہرے پہ تھا اور نہ ہی وہ اپنے ہاتھوں سے چہرے کو پیٹ اور کپڑے پھاڑ رہی تھی۔۔۔ پہلی دفعہ میں نے ایسی عورت کا چہرہ دیکھا جس کے جذبات منافقت اور دھوکہ دہی سے بالکل عاری تھے ۔ یہ ایسی عورت کا چہرہ تھا جو سخت تکلیف میں تھی۔۔ ایسی تکلیف، جو موت جیسی تھی۔۔ یہ ایک گونگا کر دینے والا غم تھا، ایسا غم جس کا تصور صرف وہ کر سکتے ہیں، جو خود اس سے گزرے ہوں۔
کچھ عورتوں نے رونے اور بین کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے ان کی طرف انتہائی مایوس کن نظروں سے دیکھا، جیسے اس ہمدردی سے اسے نفرت ہو۔۔ اس لیے وہ سب انتہائی حیرت زدہ خاموش ہو گئیں۔۔ جب آدمی اس مخلوق کا جسم اٹھانے آئے ، جس کے لئے خزنہ کے جذبات منافقت اور دھوکہ سے پاک تھے، لیکن اس وقت بھی وہ نہ تو روئی اور نہ ہی اپنے کپڑے پھاڑے بلکہ انتہائی نفرت اور بدحواس نظروں سے انھیں دیکھتی رہی۔۔ وہ ان کے پیچھے چلنا شروع ہوگئی (جیسے کوئی مخبوط الحواس ہو) جب وہ جنازہ لے کر قبرستان کی طرف جا رہے تھے، وہاں جاکر اس نے اپنا سر اس قبر پر رکھ دیا، جس جگہ انوں نے وہ چھوٹا سا جسم مٹی کے حوالے کیا تھا وہ کتنے گھنٹے وہاں بیٹھی رہی، صرف اللہ جانتا ہے۔۔۔
لوگ جنازے کے بعد مختلف رویوں کے ساتھ واپس لوٹے کہ خزنہ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ۔ کچھ کے خیال میں وہ پاگل ہو گئی تھی، اس لیے بالکل نارمل دکھائی دے رہی تھی۔ کچھ کا خیال تھا، چونکہ وہ اپنے سارے آنسو دوسروں کے لئے بہا چکی تھی، اس لیے اپنی بیٹی کے لئے نہ رو سکی۔ کچھ تو ایسے بھی تھے، جن کے خیال میں چونکہ رونے کا معاوضہ نہی ملنا تھا، اس لیے وہ خاموش تھی بالکل تھوڑے سے لوگ تھے، جنہوں نے کچھ بھی کہنا مناسب خیال نہ کیا اور اسے خزنہ پہ چھوڑ دیا – اس کی خاموشی- سب کچھ بیان کررہی تھی –
English Title: Tears for Sale
Written by: Samira Azzam (Palestine)