کیا پودے بھی روتے ہیں؟ سائنسی تحقیق کیا کہتی ہے؟

ویب ڈیسک

فرزانہ نیناں اپنی ایک نظم میں لکھتی ہیں:
سمندر، بند آنکھوں سے اگر اپنے پپوٹوں میں
کبھی لبریز ہوتا ہے
اگر سوچوں کی لہریں، رفتہ رفتہ ٹوٹ جاتی ہیں
تو قسمت کے سرابوں پر،
اڑی رنگت کے چھینٹوں پر
وہ پیلے پیڑ کیوں روئے!

اگرچہ پیڑوں کے رونے کی یہ بات شاعرانہ پیرائے میں کی گئی ہے، لیکن پودوں اور پیڑوں کے رونے کے متعلق سائنس کیا کہتی ہے؟ کیا واقعی پیڑ پودے روتے ہیں

عام طور پر یہ بات تو ہم جانتے ہی ہیں کہ انسانوں اور جانوروں کی طرح پودے بھی بیرونی عوامل اور ارد گرد پیدا ہونے والی آوازوں پر رد عمل دیتے ہیں، جیسے کچھ پودوں کے پتے اور پھول سورج کی روشنی میں بند ہو جاتے ہیں۔ کچھ پودے پرندوں کے چہچہانے پر مخصوص رس یا نیکٹر خارج کرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ پودوں کے پاس سے اچانک بُو بھی محسوس کی جاتی ہے، جو ان کا کسی بیرونی دباؤ پر رد عمل ہوتا ہے

کچھ عرصہ قبل تل ابیب یونیورسٹی اسرائیل کے سائنسدانوں نے پودوں کی نفسیات پر تحقیق کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ پانی کی کمی یا خشک سالی، زخم لگنے اور کاٹنے سے پودے بہت مدہم آوازیں نکالتے ہیں، جو ہوا کے دوش پر سفر کرتی ہیں، انہیں ’الٹرا سونک ساؤنڈ‘ کہا جاتا ہے

سائنسدانوں نے ان آوازوں کو بیرونی دباؤ یا اسٹریس کی وجہ سے ’پودوں کے رونے‘ سے تشبہہ دی ہے۔ یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے ’سیل‘ میں شائع ہوئی ہے

اس تحقیق کے حوالے سے حال ہی میں تل ابیب یونیورسٹی سے وابستہ سائنسدان اور ٹیم لیڈر لیلاخ ہادانی نے بتایا ”ایسے پودے، جنہیں روزانہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ہر گھنٹے میں پینتیس سے زائد آوازیں نکالتے ہیں۔ ان کی نسبت وہ پودے، جو پانی کے بغیر کئی دن رہ سکتے ہیں، وہ بہت ’خاموش طبع‘ ہوتے ہیں اور ہر گھنٹے میں صرف ایک آواز نکالتے ہیں“

تل ابیب یونیورسٹی کی تحقیق میں لیلاخ ہادانی کے مطابق، ان کی ٹیم نے تمباکو اور ٹماٹر کے پودوں کو خاص ڈیزائن کردہ ڈبوں اور گرین ہاؤس میں رکھ کر تجربات کیے، جن کے ساتھ مائکرو فون بھی نصب کیے گئے تھے۔ ان ڈبوں کو ’ایکوسٹک چیمبر‘ کہا جاتا ہے۔ اس دوران نوٹ کیا گیا کہ پانی کی کمی یا کسی حصے کو کاٹنے سے یہ پودے آوازیں پیدا کرتے ہیں، جو ایک سیکنڈ سے بھی کم مدت کی ہوتی ہیں اور کچھ زیادہ خوشگوار بھی نہیں ہوتیں

ہادانی کے مطابق: چونکہ پودوں میں آواز پیدا کرنے والے عضو اور پھیپھڑے نہیں ہوتے، لہٰذا پودوں کی آوازوں کو سمجھنے کے لئے ان کی تحقیق کا مرکز پودوں کے زائیلم پر تھا۔ یہ ٹیوب نما حصے پودوں کی جڑوں سے پانی، نمکیات اور دیگر ضروری غذائی اجزاء تنے کے ذریعے پتوں تک پہنچاتے ہیں، جہاں سورج کی روشنی کی مدد سے پودے اپنی خوراک خود تیار کرتے ہیں

ہادانی وضاحت کرتی ہیں کہ جس طرح اسٹرا سے جوس پیتے ہوئے مائع تناؤ سے اوپر کھنچتا ہے، بلکل اسی طرح پودوں کے تنے میں پانی جڑ سے تنے اور پتوں تک سفر کرتا ہے۔ جب کبھی تنے میں کوئی ہوائی بلبلہ بنتا یا پھوٹتا ہے تو اس سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح کے بلبلے خشک سالی کے دوران زیادہ بنتے ہیں، جب زائیلم میں پانی کی کمی سے تناؤ بڑھتا ہے۔ مگر ان کی مکمل میکانیات کو سمجھنے کے لئے اِن پر ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے

تو پھر یہ آوازیں آخر ہمیں کیوں سنائی نہیں دیتیں؟ اس بارے میں لیلاخ ہادانی کا کہنا ہے ”اگرچہ گملوں میں لگے ہوئے چھوٹے پودے دیگر نباتات کی نسبت زیادہ آوازیں پیدا کرتے ہیں۔ یہ پودے عموما گھروں کے اندر کمروں، کچن، بالکونی یا ٹیرس میں لگے ہوتے ہیں مگر گھر کے مکینوں کو پودوں کا کراہنا یا رونا سنائی نہیں دیتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پودوں کی آوازیں ’الٹرا سونک‘ ہوتی ہیں، جن کی فریکوئنسی 20 سے 100 کلو ہرٹز کے درمیان ہوتی ہے۔ اتنی کم فریکوئنسی کی آوازیں انسانی کان نہیں سن سکتا، اگرچہ کچھ جانور جیسے چمگادڑ، چوہے، یا حشرات انہیں سن سکتے ہیں۔“
وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک طرح سے ہماری زندگی کے متوازی پودوں اور جانوروں کی دنیا ہے، جہاں وہ ایک دوسرے کو سن سکتے ہیں

تحقیق میں مشین لرننگ ماڈل کی مدد سے کیے گئے انکشاف کے متعلق لیلاخ ہادانی کہتی ہیں کہ ان کی تحقیق کا ایک مقصد پودوں کی نفسیات کو سمجھنا بھی تھا۔ کیونکہ جس طرح ماحول میں پیدا ہونے والی آوازوں سے پودوں پر منفی اور مثبت اثرات پڑتے ہیں بلکل اسی طرح پودوں کی آوازوں سے ان کے ارد گرد کا ماحول متا ثر ہوتا ہے

ہادانی کی ٹیم نے مشین لرننگ پروگرام کی مدد سے پودوں کے نفسیاتی پیرامیٹرز کو سمجھنے کی کوشش کی، جس سے انہیں ستر فیصد درست نتائج حاصل ہوئے۔ انہوں نے کمپیوٹر پروگرام کی مدد سے بیک گراؤنڈ میں موجود تمام آوازوں کو حذف کر کے ٹماٹر اور تمباکو کی آوازوں کو مانیٹر کیا

ہادانی کا کہنا ہے کہ گندم، مکئی، انگور وغیرہ کے پودوں کو بھی جب پیاس لگتی ہے تو وہ آواز یں نکالتے ہیں۔ ان کی ٹیم ان نباتات پر ابھی مزید تحقیق کر رہی ہے

ہادانی کے مطابق ان کی تحقیق کے نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں۔ وہ پر امید ہیں کہ یہ تکنیک مستقبل میں فارمنگ اور ہارٹیکلچر میں مثبت پیش رفت کے سلسلے میں بہت سود مند ثابت ہوگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close