سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط: 4)

شہزاد احمد حمید

میں (سندھو) کون ہوں؟

”میں یہاں سنگی کھابب پر کھڑا دریائے سندھ کو زمین کی آغوش سے جنم لیتے دیکھ رہا ہوں۔“ سیون ہیڈن

دنیا میں بے شمار دریا ہیں نامور، منہ زور اور تاریخی۔۔ دریائے نیل کا ذکر اگر قرآن پاک میں ہے تو بہت سے دریاﺅں کا تذکرہ ہندوﺅں کی مقدس کتب میں بھی ملتا ہے۔ یونان اور فارس کی کہانیاں بھی دریاﺅں کے گرد گھومتی ہیں۔ عظیم یونانی شاعر ”ہومر“ نے بھی دریاﺅں اور سمندروں کا تذکرہ کیا ہے۔ انسانی زندگی میں ان کا کردار جتنا بھرپور ہے، اتنا درد بھرا بھی۔۔ اگر میدانوں کی ہریالی اور زرخیزی ان کی مرہون منت ہے تو تباہی اور بربادی کی داستانیں بھی انہی سے منسوب ہیں۔ دریا کسی ملک کی معاشیات اور تجارت میں اہم کردار ادا کرتے تھے، آج بھی ایسا ہی ہے۔

قدیم بستیاں دریاﺅں کے کنارے ہی آباد تھیں کہ پانی انسان کی اہم ضرروت ہے۔ آج بھی پانی کے ذخیرے انسانی آبادی کے لئے اتنے ہی اہم ہیں جتنے کل تھے۔ بقول ایک گمنام دانشور ”انسانی آبادیوں کی کہانیاں دراصل دریاﺅں کی ہی کہانیاں ہیں۔“ دریا تب بھی انسانی بستیوں کی زندگی تھے اور آج بھی ہیں۔

پچھلی ایک دہائی سے ایک سوچ تیزی سے پروان چڑھی ہے کہ آئندہ کبھی کوئی جنگ لڑی گئی تو وجہ پانی ہی ہو گی۔ پاکستان کی معیشت میں سندھو ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقے اس کی لائی ہوئی مٹی کی بدولت سونا اگلتے ہیں۔ سندھو صدیوں سے اپنے ساتھ دریائی مٹی اور پہاڑوں سے نہایت قیمتی معدنیات پنجاب اور سندھ کے میدانوں سمیت اپنی راہ گزر میں بکھیرتا آ رہا ہے۔ قراقرم کے پہاڑوں سے آنے والی معدنیات پہلے اور ہمالیہ کے پہاڑوں سے لائی جانے والی معدنیات دوسرے نمبر پر ہیں۔

بچپن میں جغرافیہ میرا پسندیدہ مضمون تھا۔ جب بھی اس کا پریڈ آتا، میرے اساتذہ دریاﺅں، پہاڑی سلسلوں اور ان کی چوٹیوں کا ذکر اس انداز میں کرتے کہ مجھے دریائے سندھ، ہمالیہ، قراقرم کے پہاڑی سلسلے اور نانگا پربت کا تذکرہ مسحور کر دیا کرتا تھا۔ جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا، میں ان کے یک طرفہ رومانس میں مبتلا ہوتا چلا گیا۔ میرا دل چاہتا میرے پر لگ جائیں اور میں اڑ کر ان تک پہنچ جاﺅں۔ لیکن کہاں کسی کے پر لگتے ہیں؟ میرے والد گرامی عبدالحمید کی پوسٹنگ کندیاں چشمہ جہلم لنک کنال پراجیکٹ پر ہوئی۔ (تریموں ہیڈ ورکس سے نہر تریموں۔ سدھنائی لنک نکال کر دریائے راوی میں گرائی گئی ہے۔) میرے والد گرامی نے دنیا کی بہت سی قوموں (فرانسیسی، امریکی، کنیڈین، برطانوی، جرمن، اطالوی، آسٹر یلوی وغیرہ) کے ساتھ مختلف پراجیکٹس پر کام کیا۔ بقول ان کے میں نے امریکیوں کو ہر لحاظ سے ان سب سے عمدہ پایا۔وہ کہا کرتے تھے؛ americans are the best nation to work with. میرے بعد کے تجربے نے ان کی کہی بات کو بہت حد تک درست پایا۔

وہ گرمی کا موسم تھا، جب مجھے والد گرامی کے ساتھ کالا باغ جانے کا اتفاق ہوا تو پہلی بار مجھے دریائے سندھ دیکھنے کا موقع ملا۔ میں بے ساختہ چلا اٹھا؛ ”او میرے اللہ! اتنا بڑا، اتنا چوڑا دریا، تا حد نظرپانی ہی پانی۔“ پہلی ہی نظر میں مجھے سندھو سے محبت ہو گئی اور میرا اِس سے جغرافیہ کے مضمون سے شروع ہونے والا رومانس مزید گہرا ہو گیا۔ جوں جوں عمر کے سال بیتے تو سندھو، ہمالیہ، قراقرم اور نانگا پربت سے میری یک طرفہ دوستی بڑھتی گئی۔ عمر کے چونتیسویں (34) برس مجھے محسوس ہونے لگا جیسے یہ سب مل کر مجھے بلا رہے ہوں۔ مجھے ان کی آواز سنائی دیتی۔۔ پھر میں سینکڑوں میل کا سفر طے کر کے اُن کی آواز کے جواب میں اُن کے ہاں جانے لگا۔ ہر سال۔۔ یوں یہ قربتیں اور فاصلے ہمیں قریب لے آئے اور ہم دوست بن گئے۔ سندھو سے تو میری پکی دوستی ہو گئی۔میں جب بھی دوستوں کے ساتھ شمالی علاقہ جات جاتا تو دریاﺅں کے باپ سے ضرور ملاقات ہوتی۔ تھاکوٹ سے آگے یہ میرا ہمسفر ہوتا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے اسے بھی میرا انتظار رہتا ہے۔ملاقات پر ہم خوب باتیں کرتے۔ دکھ کی، سکھ کی، ستاروں کی، چاند کی، برف پوش چوٹیوں کی، میدانوں کی، کھلیانوں کی، تباہ کاریوں کی، غصہ کی، پیار کی، محبت کی، جوش کی، جوانی کی، جولانی کی۔۔

شمالی علاقہ جات میں میری اور اس کی پہلی ملاقات بھی دلچسپ کہانی ہے۔ پیر سر چوٹی کے قریب ریسٹ ہاؤس میں ہم کچھ دیر سستانے کو رکے تھے۔ یہ 1977؁ء تھا۔ مرتضیٰ اور میں اس کے کنارے بیٹھے تھے اور دریا کی لہریں ہمارے پیروں کو گدگداتی گزر رہی تھیں۔ لالہ جی حسب عادت درخت تلے پڑی چارپائی پر آنکھیں موندے لیٹے تھے۔ قاسم، مشتاق اور باس کشتی پر سندھو کی سیر کو نکل گئے تھے۔ ماحول پر پراسرار خاموشی تھی۔ یہاں دریا پہاڑوں کے سائے میں بڑے سکون اور شان سے بہتا ہے۔ میں بانس کی چھڑی دریا کے پانی پہ مار رہا تھا کہ اچانک دریا غرایا اور میرے قدموں سے زمین دریا برد ہو گئی۔ یہ تو بھلا ہو مرتضیٰ کا، جس نے میرا ہاتھ تھام لیا ورنہ دریا مجھے کچا نگل جاتا۔ پھر کہاں کون کس کی کہانی سناتا البتہ سندھو کے کنارے لگے بہت سے کتبوں میں ایک اور کا اضافہ ضرور ہو جاتا، ”میرے نام کی تختی کا“۔(جو میرے انجام کی کہانی صرف چند الفاظ میں بیان کرتی)۔

اُس وقت تک مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ دریا اپنے منبع پر شیر دریا کہلاتا ہے۔ واقعی وہ نام کی طرح ہی غصیلا ہے۔ غصے میں تو یہ انسانوں کو زندہ نگل جاتا ہے، کشتیاں الٹا دیتا ہے، بستیاں اجاڑ دیتا ہے۔ مجھے زندہ چھوڑ کر اس نے مہربانی کی تھی، اپنی کہانی سنانے اور آپ تک پہنچانے کے لئے۔ میں تیز دھڑکتے دل سے وہاں سے پیچھے ہٹا ہی تھا (اُسے میراچھڑی کو اس کے پانی پر مارنا یقیناً پسند نہ آیا تھا) کہ اک لہر دور تک آئی اور ہمارے پیروں کو چھو گئی مجھے لگا جیسے یہ دوستی اور صلح کا پیغام ہو۔ میں نے مڑ کر سندھو پر نظر ڈالی، وہ پھر سے پرسکون تھا، لہریں جیسے کہہ رہی ہوں؛ ”معاف کرو دوست! میرے پاس پھر سے بیٹھو۔“ میں مرتضیٰ کی مرضی کے برعکس پھر سے اس کے کنارے جا بیٹھا۔ دوسرا کنارا بہت دور پہاڑ کے دامن کو چھوتا تھا۔ وہاں تک پہنچی کشتی چھوٹی سی دکھائی دے رہی تھی۔ میں اس سے باتیں کرنے لگا۔۔۔ کیا باتیں کیں۔۔۔ کچھ یاد نہیں۔ باتوں میں کتنا وقت گزر گیا دھیان ہی نہ رہا۔ خانساماں کی آواز سے حقیقت کی دنیا میں چلا آیا؛ ”کھانا چن دیا گیا ہے جناب!“۔ میرے ریسٹ ہاؤس کی جانب بڑھتے قدموں کو سندھو کی آواز سنائی دی؛ ”دوست! میرے پانیوں کی مچھلی بھی تمھارے کھانے میں شامل ہے۔ تمھارے لئے میرا تحفہ ہے۔ ورنہ یہ مچھلی آسانی سے شکاریوں کے ہاتھ کہاں لگتی ہے؟“ میں مسکرا دیا، کھانے کی بھینی بھینی خوشبو نے میرے قدموں کی رفتار مزید تیز کر دی ہے۔

بعد دوپہر پیر سر سے روانگی کا وقت مقرر ہے۔ میں پھر اس کے کنارے چلا آیا ہوں۔ پمان خدا کہنے۔ اکیلا ہی۔۔ موج در موج بہتا اس کا پانی۔۔۔ دھوپ کی کرنوں میں جیسے سنہرے موتی پانی کی سطح پر تیر رہے ہوں۔ اونچے پہاڑوں کے لمبے سائے اس کے پانی سے ٹکرا کر جیسے پانی میں جھوم رہے ہوں اس کی مدح سرائی میں۔ اس کی لہروں سے ٹکرا کر اٹھتی ہوا گرمی میں راحت پہنچا رہی ہے لیکن میرے من میں عجیب سی اداسی اتری ہے۔ ہم برج قوس والوں کی بھی عجیب عادت ہے بیٹھے بیٹھے یونہی اداس ہو جاتے ہیں۔ نہ کسی سے ملنے کی خواہش نہ کوئی کام کرنے میں من لا گے۔ یہ اداسی دور بھی خود بخود ہوتی ہے جیسے کبھی آئی ہی نہ ہو۔ابھی بھلا چنگا تھا اور اب حالت کیسی ہو گئی ہے۔ نین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اس کا برج بھی قوس ہی ہے۔ سندھو میرا اداس چہرہ پہچان گیا ہے۔ دوست جو ٹھہرا۔ مجھے لبھانے کی کوشش کی تو میری اداسی کم ہونے لگی۔ مجھے سندھو اور بھی اچھا لگنے لگا ہے۔ یہ مجھے سمجھنے لگاہے۔ انسانی فطرت جانتا ہے۔ (صدیوں کا تجربہ ہے اس کا) میں بھی اس سے باتیں کرتا ہوں، ویسے ہی جیسے میں اپنے دوست ستاروں اور چندا ماموں سے کرتا ہوں۔ مجھے لگا یہ میری باتیں سن کر ہنسا ہے۔ مجھے اس کی موجوں سے قہقہوں کی آواز سنائی دی ہے۔ میں متوجہ ہوا تو مجھے لگا جیسے کہہ رہا ہو؛”بس اتنی سی بات ہے تم نین کے لئے اداس ہو نا۔ اُسے ساتھ لے آتے۔ تم دونوں کو پیر سر سے تھا کوٹ تک اپنی موجوں پہ جھولا دیتا۔“ میں اس کی معصومیت پہ ہنس دیا۔ میری ہنسی سے اس کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آ گئی ہے۔ مجھے محسوس ہوا جیسے وہ مجھے ہنسا کر خوش ہوا ہے۔ ایک بڑی موج مجھے گھٹنوں تک پانی میں ڈبو گئی ہے۔ میں نے شہادت کی انگلی دریا میں ڈالی اور اس سے دوستی پکی کر لی۔ (بچپن کی معصومیت میں ہم ایسے ہی دوستیاں پکی اور کچی کیا کرتے تھے۔) یہ تھی دریاؤں کے باپ ”اباسین“ سے میری پہلی ملاقات۔۔

(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.



Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close