حرفِ تسلی

آر کے نرائن (مترجم: رومانیہ نور)

لوگ ان کے پاس بیمار کو تبھی لاتے، جب وہ جاں بلب ہوتا۔ ڈاکٹر رمن اکثر غصے سے پھٹ پڑتے ”تم ایک دن پہلے کیوں نہیں آ سکتے تھے“ وجہ صاف ظاہر تھی۔ ایک تو پچیس روپے ڈاکٹر کی ملاقات کی بھاری فیس اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کوئی بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوتا کہ مریض کا آخری وقت آن پہنچا ہے اور اب ڈاکٹر رمن سے رجوع کیا جائے۔

آخری دم اور ڈاکٹر رمن ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہو گئے تھے۔ نتیجتاً جب بھی کوئی مریض ان کے پاس آتا تو فوری طور پر آر یا پار کا فیصلہ کرنا ہوتا تھا۔ تب لگی لپٹی اور حیلے بہانے کی کوئی گنجائش نہ نکلتی تھی۔ طویل مدت کے اس وسیع تجربے نے ڈاکٹر کے رویے میں ایک قسم کی سچائی اور دیانتداری بھر دی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی رائے کو قدر و اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کی حیثیت محض رائے دینے والے ایک ڈاکٹر کی نہیں رہی تھی بلکہ وہ ایک جج بن گئے تھے جو فیصلہ سناتا ہے۔ مریض کی زندگی ان کے لفظوں میں معلق ہوتی تھی۔ اس بات سے ڈاکٹر رمن بلا ضرورت فکر مند نہیں ہوتے تھے۔ ان کا اس بات پر قطعی یقین نہیں تھا کہ خوشنما الفاظ زندگی بچا سکتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ان کا منصب نہیں کہ اُس حقیقت کے متعلق خوامخواہ کی تسلیاں دلاسے دے، جسے قدرت خود چند گھنٹوں میں آشکارا کرنے والی ہے۔ تاہم جب انھیں امید کی ہلکی سی کرن بھی نظر آتی تو وہ کمر کس کے تیار ہو جاتے، آستینیں اوپر چڑھاتے اور میدان میں کود پڑتے، پھر چاہے اس کوشش میں گھنٹے لگتے یا دن بیت جاتے، وہ اس وقت تک ہار نہ مانتے، جب تک مریض کو موت کے منہ سے نکال نہ لیتے۔

آج ایک مریض کے سرہانے کھڑے ڈاکٹر کو شدت سے اس ضرورت کا احساس ہوا کہ کوئی ہو جو جھوٹے لفظوں سے ہی سہی، ان کی ڈھارس بندھائے۔ انہوں نے رومال سے ماتھے پر آیا پسینہ پونچھا اور بستر کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گئے۔ بستر پر اس کا جگری یار گوپال لیٹا ہوا تھا۔ ان کی جان پہچان، جو کہ کنڈر گارٹن کے ایام سے شروع ہوئی تھی، کو اب چالیس برس کا عرصہ بیت گیا تھا۔ اب جی بھر کر ان کی ملاقات نہیں ہوتی تھی۔ ہر کوئی اپنی خانگی اور پیشہ ورانہ زندگی میں الجھا ہوا تھا۔ عموماً اتوار کو گوپال انتظار گاہ میں داخل ہوتا اور ایک کونے میں لگ کر خاموشی سے ڈاکٹر کی فراغت کا انتظار کرتا۔ اور پھر وہ دونوں مل کر کھانا کھاتے، پکچر دیکھتے اور ایک دوسرے کی زندگی اور سرگرمیوں کے متعلق گپ شپ کرتے رہتے۔ زمان و مکان کی وسعتوں اور تبدیلیوں سے مبرا یہ ایک مثالی دوستی تھی۔

اپنی زندگی کے مصروف دائرۂ کار میں ڈاکٹر رمن نے دھیان ہی نہ دیا کہ پچھلے تین مہینوں سے گوپال نے چکر نہیں لگایا۔ انہیں یہ تب یاد آیا جب انہوں نے انتظار گاہ میں گوپال کے بڑے بیٹے کو ایک بینچ پر بیٹھے دیکھا۔ ڈاکٹر رمن کی ایک گھنٹے تک اس سے بات نہ ہو سکی۔ جب وہ آپریشن تھیٹر میں جانے کے لئے اٹھے تو ننھے لڑکے کو مخاطب کیا ”ہاں بھئی جوان تم یہاں کس لئے آئے ہو؟“

لڑکا خاصا مضطرب اور شرمیلا تھا اس نے جھینپ کر جواب دیا ”ماں نے مجھے یہاں بھیجا ہے“

”میں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں؟“

”ابّا بیمار ہیں۔۔۔“

یہ آپریشن کا دن تھا اور وہ سہ پہر تین بجے تک فارغ نہ تھے۔ کلینک سے وہ سیدھے لالی ایکسٹینشن اپنے دوست کے گھر لپکے۔

گوپال غنودگی کے عالم میں بستر پر پڑا تھا۔ ڈاکٹر اس کے سرہانے جا کھڑے ہوئے اور اس کی بیوی سے دریافت کیا
”اسے صاحبِ فراش ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا؟“

”ڈیڑھ مہینہ ہو گیا ڈاکٹر صاحب!“

”اس کا علاج کون کر رہا ہے؟“

”اگلی گلی میں ایک ڈاکٹر رہتا ہے، وہ ہر تیسرے دن آتا ہے اور دوا دے جاتا ہے۔“

”اس کا نام کیا ہے؟“

وہ نام اس نے کبھی نہیں سنا تھا، ”میں اسے نہیں جانتا مگر میری خواہش ہے کہ مجھے دینے کے لئے اس کے پاس کوئی اچھی خبر ہو۔ آپ نے پہلے ہی مجھے پیغام کیوں نہ بھیجا؟“

”ہم نے سوچا آپ بہت مصروف ہوں گے، اس لئے غیر ضروری طور پر آپ کو زحمت دینا مناسب نہ سمجھا۔“ اس نے معذرت خواہانہ اور دکھی لہجے میں کہا

کھونے کے لئے اب کوئی وقت نہیں بچا تھا۔ انہوں نے اپنا کوٹ اتارا، بیگ کھولا ،ایک سرنج نکالی اور چولہے پر سوئی کی جراثیم کُشی کی۔ مریض کی بیوی ایک کونے میں متذبذب کھڑی تھی اور کچھ پوچھنے کی سعی میں ہچکچا رہی تھی۔

”براہِ مہربانی کوئی سوال مت پوچھو“ ڈاکٹر نے کرختگی سے کہا۔ اس نے بچوں پر نظر ڈالی جو جراثیم کُشی کے عمل کو دیکھنے میں محو تھے۔ وہ بولے، ”بڑے لڑکے کے سوا ان سب کو یہاں سے کہیں اور بھیج دو“

انہوں نے ٹیکہ لگایا اور دوبارہ اپنی نشست پر یٹھ گئے اور ایک گھنٹے تک مریض کے چہرے کا جائزہ لیتے رہے۔ مریض تاحال بے سُدھ لیٹا ہوا تھا۔ ڈاکٹر کے چہرے پر پسینہ چمک رہا تھا اور آنکھیں نیند سے مندنے لگی تھیں۔ مریض کی بیوی کونے میں کھڑی خاموشی سے تک رہی تھی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ”آپ کے لئے کافی بناؤں؟“

”نہیں“ حالانکہ دن کا کھانا چھوٹ جانے سے وہ بھوک سے بے حال تھے۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا ”میں کچھ ہی دیر میں لوٹ آؤں گا۔ اسے کسی بھی قیمت پر بے آرام نہ کرنا۔“ انہوں نے اپنا بیگ اٹھایا اور گاڑی میں چلے آئے۔ پندرہ منٹ کے بعد وہ ایک معاون اور نرس کے ساتھ پلٹ آئے۔ ڈاکٹر نے گھر کی مالکن کو بتایا ”مجھے ایک آپریشن کرنا پڑے گا“

”کیوں، کیوں؟ کیوں؟“ اس نے حواس باختہ ہو کر پوچھا

”جلد ہی میں آپ کو سب کچھ بتا دوں گا۔ کیا آپ بڑے لڑکے کو ہماری مدد کے لئے یہاں چھوڑ کر کسی پڑوسی کے گھر چلی جائیں گی، جب تک کہ میں نہ آپ کو بلاؤں؟“

خاتون کو چکر آ گیا۔ وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گرنے لگی۔ نرس نے اسے سنبھالا اور باہر لے جانے میں مدد کی۔

شام کے آٹھ بجے کے قریب مریض نے آنکھیں کھولیں اور بستر پر ہلکی سی کروٹ لی۔ معاون خوش ہو گیا۔ اس نے پر جوش انداز میں کہا ”سر! وہ اب ٹھیک ہو جائیں گے۔“

ڈاکٹر نے اسے سرد مہری سے دیکھا اور سرگوشی کی ”میں اسے خطرے سے باہر لانے کی ہر ممکن کوشش کروں گا مگر یہ دل کا معاملہ۔۔۔۔“

”سر نبض میں بھی بہتری آئی ہے“

”ہاں ہاں“ ڈاکٹر بولا، ”اس پر اعتبار مت کرو۔ یہ صرف ایک دھوکہ ہے اور ایسے معاملات میں یہ معمول کی بات ہے۔“ انہوں نے چند ثانیے غور و فکر کیا اور پھر بات جاری رکھی، ”اگر تو نبض صبح آٹھ بجے تک چلتی رہتی ہے تو یہ آئندہ چالیس سال تک بھی چلتی رہے گی۔ لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ یہ آج رات دو بجے کے بعد بھی چلتی رہے گی۔“

انہوں نے معاون کو رخصت کر دیا اور خود مریض کے پاس بیٹھ گئے۔ گیارہ بجے کے قریب مریض نے آنکھیں کھولیں اور اپنے دوست کو دیکھ کر مسکرایا۔ اس کی حالت میں معمولی بہتری آئی تھی۔ اس نے کھانے کو بھی کچھ مانگا۔ اہلِ خانہ میں خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ اظہارِ تشکر کے لئے ڈاکٹر کے گرد ان کی بِھیڑ جمع ہو گئی۔ مریض کے چہرے کو مسلسل تکتے ہوئے وہ بستر کے پاس اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ ان کے چہرے پر ایسے آثار تھے، جیسے وہ اپنے ارد گرد کی آوازوں کو بالکل نہ سن رہے ہوں۔

دوست کی بیوی نے استفسار کیا، ”کیا اب وہ خطرے سے باہر ہیں؟“

اپنے سر کو جنبش دئیے بنا ڈاکٹر بولے ”ہر چالیس منٹ کے بعد اسے گلوکوز اور برانڈی کے دو دو چمچ پلاؤ۔“

خاتون باورچی خانے کی جانب بڑھ گئی۔ وہ بے چین تھی۔ جو بھی سچ تھا وہ جاننا چاہتی تھی۔ ’یہ ڈاکٹر صاحب اس قدر ٹال مٹول سے کام کیوں لے رہے ہیں۔۔۔‘ تجسس ناقابلِ برداشت ہو گیا تھا۔ ’شاید وہ مریض کے پاس بات نہ کر سکتے ہوں۔۔۔‘
اس نے اشارے سے ڈاکٹر کو باورچی خانے کے دروازے پر بلایا۔ ڈاکٹر اٹھ کر وہاں چلے آئے۔

اس نے پوچھا ”اب ان کی حالت کیسی ہے؟“

ڈاکٹر نے زمین پر نظریں گاڑتے ہوئے اپنے ہونٹ چبائے اور جواب دیا ”زیادہ جذباتی مت ہوں، جب ضرورت ہوئی آپ کو اس کے متعلق آگاہ کر دیا جائے گا۔ اب زیادہ سوال نہ کریں۔“

اس کی آنکھیں دہشت سے پھیل گئیں۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کرتے ہوئے اس نے پوچھا ”مجھے سچ بتائیے“

ڈاکٹر نے جواب دیا ”میں آپ سے مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتا“ وہ رخ پھیر کر چل دئیے اور دوبارہ مریض کے سرہانے آ کر بیٹھ گئے۔

گھر کے سنّاٹے میں سسکیاں گونجنے لگیں۔ مریض نے کروٹ بدلی اور اس وحشت زدہ ماحول کو دیکھا۔ ڈاکٹر پھر سے اٹھے، باورچی خانے کے دروازے پر گئے اور احتیاط سے دروازہ بند کر دیا۔۔ اور یوں واویلے کا شور تھم گیا۔

جب ڈاکٹر اپنی نشست پر پلٹے تو مریض نے نحیف آواز میں پوچھا ”کیا کوئی رو رہا ہے؟“

ڈاکٹر نے اسے ہدایت کی ”اپنے ذہن پر زیادہ زور مت ڈالو۔ تمہیں زیادہ بات نہیں کرنی چاہئے۔“ انہوں نے نبض دیکھی۔ دباؤ سے پہلے ہی فشار بلند ہو گیا تھا۔

مریض نے پوچھا ”کیا میں جا رہا ہوں؟ مجھ سے کچھ مت چھپاؤ“

اس بات پر ڈاکٹر نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور دوبارہ کرسی پر بیٹھ گئے۔ انھیں کبھی بھی ایسی صورت حال کا سامنا نہیں رہا تھا۔ سر نگوں ہونا ان کی فطرت میں نہیں تھا۔ اسی وجہ سے لوگ ان کے الفاظ کی قدر کرتے تھے۔

انہوں نے مریض پر اک نگاہ ڈالی۔ مریض نے انگلی کے اشارے سے انہیں قریب بلایا اور سرگوشی میں کہا ”میں جاننا چاہتا ہوں کہ میں کب تک جی پاؤں گا۔ مجھے وصیت پر دستخط کر دینے چاہئیں یہ بالکل تیار رکھی ہے۔ میری بیوی سے کہئے کہ اسے اٹھا لائے۔ آپ کو بطورِ گواہ دستخط کرنا ہوں گے۔“

”اوہو!“ ڈاکٹر نے کہا ”تم اپنے آپ پر بہت زور ڈال رہے ہو۔ تمہیں پر سکون رہنا چاہئیے۔“ یہ بات دہراتے ہوئے انھوں نے خود کو احمق تصور کیا۔ ’کتنا اچھا ہوتا میں اس سارے قضئیے سے بچ کر ایسی جگہ چلا جاؤں جہاں مجھ سے کوئی سوال و جواب نہ ہو۔‘

اپنی کمزور انگلیوں سے مریض نے ڈاکٹر کی کلائی تھام لی اور بولا ”رامو! میری خوش نصیبی ہے کہ اس سمے تم میرے پاس ہو۔ مجھے تمہاری بات کا یقین ہے۔ میں اپنی جائیداد کو بلا انتظام و انصرام نہیں چھوڑ سکتا۔ ایسا کرنے کا مطلب میرے اہل و عیال کے لئے لا متناہی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ تم سبھیا اور اس کے غنڈوں کے متعلق تو جانتے ہی ہو۔ مجھے دستخط کرنے دو اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے۔“

”ہاں مجھے بہت اچھی طرح معلوم ہے“ ڈاکٹر نے جواباً کہا۔

وہ اپنی گاڑی کی طرف چلے آئے اور عقبی نشست سے ٹیک لگا لی۔ انہوں نے اپنی گھڑی پر نگاہ دوڑائی۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ اگر وصیت پر دستخط کرنا تھے تو آئندہ دو گھنٹوں میں یہ کام ہو جانا چاہئیے تھا، ورنہ پھر کبھی نہ ہو پاتا۔ وہ کسی قسم کی بد نظمی نہیں چاہتے تھے۔ وہ خاندانی معاملات اور ان بھیڑیوں سبھیا اور اس کے گروہ کے متعلق اچھی طرح جانتے تھے۔ لیکن وہ کیا کریں۔ اگر وہ دستخط کے لئے کہتے ہیں تو اس کا مطلب موت کا پروانہ جاری کرنا ہوگا۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں مریض کی بقاء کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔ وہ گاڑی سے اتر آئے اور گھر کے اندر داخل ہو گئے۔ انھوں نے کرسی پر اپنی نشست سنبھال لی۔ مریض ملتجی نظروں سے انھیں دیکھنے لگا۔ انھوں نے خود کلامی کی ’اگر میرے بول اس کی جان بچا سکتے ہیں تو وہ زندہ رہے گا۔ وصیت گئی بھاڑ میں۔۔۔۔‘

وہ مخاطب ہوئے ”سنو گوپال!“ یہ پہلی دفعہ تھا کہ وہ کسی مریض سے ناٹک کر رہے تھے اور جھوٹ بول کر اپنی رائے چھپا رہے تھے۔ وہ مریض کے اوپر جھک گئے اور بھرپور تاکیدی انداز سے کہا ”اب وصیت کی فکر چھوڑ دو۔ تم جیو گے۔۔ تمہارا دل بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔“

جونہی مریض نے یہ سنا، اس کے چہرے پر طمانیت کی لہر دوڑ گئی۔ اس نے مطمئن لہجے میں پوچھا، ”تم نے یہ کیا کہا ہے؟ اگر یہ بات تمہارے منہ سے نکلی ہے تو یہ سچ کے سوا کچھ نہیں..“

ڈاکٹر نے کہا ”بالکل سچ۔ تم لمحہ بہ لمحہ بہتری کی جانب گامزن ہو۔ پُر سکون ہو کر سو جاؤ۔۔ تمہیں بھرپور نیند لینی چاہئیے۔ میں تمہیں صبح ملوں گا۔“

مریض نے ایک ثانیے کو اسے متشکر نظروں سے دیکھا اور آنکھیں موند لیں۔ ڈاکٹر نے اپنے بیگ کو اٹھایا اور احتیاط سے دروازے کو بند کرتے ہوئے وہاں سے چلے آئے۔
گھر جاتے ہوئے راستے میں وہ کچھ دیر ہسپتال میں رکے۔ اپنے معاون کو بلایا اور کچھ ہدایات دیں، ”وہ جو لالی ایکسٹینشن والا معاملہ ہے، کسی بھی لمحے اس کے جانے کی خبر متوقع ہے۔ تم آکسیجن کی نالی لے کر وہاں چلے جاؤ۔ جانکنی کی مشکل زیادہ ہو جائے تو یہ نالی لگا دینا۔“

اگلی صبح دس بجے وہ لالی ایکسٹنشن موجود تھا۔ وہ لمبے ڈگ بھرتے کمرے کی جانب بڑھے۔ مریض بیدار تھا۔ ڈاکٹر نے اسٹیتھو اسکوپ دل پر رکھا، دھڑکن سنی اور مریض کی بیوی سے مخاطب ہوئے ”خاتون یوں ناامیدی سے مت دیکھیں۔ آپ کا شوہر نوے سال تک جئے گا۔“

جب وہ واپس ہسپتال جارہے تھے تو گاڑی میں اس کے ہمراہ بیٹھے معاون نے پوچھا ”سر کیا وہ واقعی زندہ رہے گا؟“

ڈاکٹر نے جواب دیا، ”اب تو میں شرط لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ نوے سال تک جئے گا۔ اس نے حالات کا رخ موڑ دیا ہے۔ وہ اس جان لیوا دورے کو کیسے سہہ گیا یہ زندگی بھر میرے لئے ایک معمہ ہی ہو گا۔“

Original Title: THE DOCTOR’S WORD
Written by: R. K. Narayan

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close