دو دہائیوں بعد مجھے اس کی زندگی پر لکھنے کا شوق پیدا ہوا تو میں پھر اس کے پاس چلا آیا ہوں۔ کئی سالوں کی غیرحاضری کا شکوہ کر کے بولا ”کیسے آئے ہو اتنی مدت کے بعد کہاں تھے تم؟“ میں نے جواب دیا؛ ”دوست! تمھاری کہانی لکھنے کو دل چاہا تو تمھارے پاس چلا آیا ہوں۔ کیا مجھے اپنی کہانی سناؤ گے؟ اپنے سفر کے آغاز سے انتہا تک کی۔۔ اپنی زندگی کی، اپنی جوانی کی، اپنی روانی کی، اپنی ہر اک انمول نشانی کی، اپنی مستیوں کی، اپنی بستیوں کی، اپنی مہربانیوں کی، اپنی شیطانیوں کی، اپنے مچھیروں کی، اپنی مچھلیوں کی، بلائنڈ ڈولفن کی، اپنے جنگلوں کی، اپنے بیابانوں کی، انسانوں کی، بادشاہوں کی، گداؤں کی، درویشوں کی، گزرے زمانوں کی، اپنے سیلابوں کی، اپنے عذابوں کی اور اپنے بڑھاپے کی۔“ وہ مسکرایا اور بولا؛ ”اُف میرے دوست! ایک سانس میں اتنے سوال۔۔ ایسے سوال پہلے کسی نے پوچھے ہی نہیں۔ تم نے پوچھے ہیں تو چلو کیا یاد کرو گے تمھیں جواب دیتا ہوں مگر ایک شرط ہے۔ بڑی لمبی داستان ہے میری، اُکتا تو نہیں جاؤ گے؟ سوچ لو۔“ میں ہنس دیا اور کہا؛ ”دوستوں کی باتوں سے ملاقاتوں سے بھی بھلا اکتاتاہے کوئی۔ یہ تم نے کیسی بات کہی ہے۔ تم سناؤ، بولتے چلے جاؤ۔ نہ میں تھکوں گا نہ بور ہوں گا۔ لو میں ہمہ تن گوش ہوں۔“
”!بہت خوب۔ لو تو پھر سنو۔“ وہ مسکرایا اور بولنے لگا۔ ”بہت سے لوگوں کے لئے یہ بات نئی ہوگی کہ میرا شمار پانی کے بہاؤ کے حوالے سے دنیا کے بڑے دریاؤں میں ہوتا ہے اور مجھ میں بہنے والے پانی کی مقدار دریائے نیل سے بھی زیادہ ہے۔ شاید یہ بات بھی کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ انڈیا کا نام بھی مجھ (انڈس) سے لیا گیا ہے۔ موئن جو دڑو کا شہر جسے ”انڈس تہذیب“ میں مرکزی حیثیت حاصل ہے میرے ہی کنارے آباد تھا۔ اسی نسبت سے ہندوستانی قیادت نے ملک کا سرکاری نام ”انڈیا“ رکھا تو اس وقت کے ہندوستان کے محکمہ آثار قدیمہ کے سربراہ ”سر جان مارشل“ نے حیرت کا اظہار کیا تھا کہ ’سندھو کی تہذیب کے تمام علاقے پاکستان میں آتے ہیں تو پھر ہندوستان کا نام انڈیا کیوں رکھا گیا۔‘ میری لمبائی تین ہزار ایک سو اسی (3180) کلو میٹر ہے جس کا آغاز تبت کے مغربی علاقے سے ہوتا ہے۔ میں لداخ، بلتستان، گلگت، سے بہتا نانگا پربت کے پاؤں چھوتا شاہراہ ریشم کے ساتھ ساتھ بہتا اٹک کے مقام پر دریائے کابل سے ملاپ کرتا کالا باغ کے میدانی علاقے میں داخل ہوتا سندھ کے میدانوں کا رخ کرتا کراچی کے قریب ڈیلٹا بناتا بحیرہ عرب میں اتر جاتا ہوں۔ میں اپنے ساتھ پاکستان کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ یعنی گیارہ لاکھ پنسٹھ ہزار (1165000) مربع کلو میٹر مٹی لاتا ہوں۔ ’میں دریائے سندھ کیوں کہلایا؟‘ اس حوالے سے بہت سی روایات ہیں۔ ایرانی حکومت کا دائرہ گندھارا تک تھا تو وہ مجھے ’ہندو‘ پکارتے تھے۔ میں ہوں رگ وید کا ’سپت سندھو‘، فارس کا ’ہتیا سندھو‘، سنسکرت کا ’سندھو‘، سندھی کا ’مہران‘ ، اردو کا ’سندھ‘ ، پشتو کا ’اباسین‘ (دریاؤں کا باپ) ، یونانیوں کا ’انڈس‘ ، ترکی کا ’نانیلاب‘ اور خود اپنی دھرتی ماں کی زبان میں مجھے ’سنگ کھابب‘ یعنی ”شیر کامنہ“ کہتے ہیں۔ ’اٹک گزئیٹیر‘ میں لکھا ہے، ’اس ضلع میں دریائے سندھ کو دو ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ہزارہ سے اٹک تک یہ ’دریائے اٹک‘ کہلاتا ہے جبکہ اس کے نیلگوں پانی کی وجہ سے اسے ’نانیلاب‘ بھی کہتے ہیں۔ ترکی زبان کے لفظ نانیلاب کا مطلب ہے ’نیلا پانی‘ – ’تاریخ فرشتہ‘ کے مصنف محمد قاسم فرشتہ نے بھی میرا نام نا نیلاب ہی لکھا ہے۔ فرشتہ مزید لکھتے ہیں؛ ’ہندو دھرم کے مطابق اسے پار کرنا منع ہے۔ یہ پابندی اس لئے تھی کہ اس کے کنارے آباد مسلمان اسے پار کرتے تھے اور ہندو مسلمان کو ملیچھ یا ناپاک سمجھتے تھے لہٰذا اگر کوئی ہندو اسے پار کر لیتا تو وہ ہندو دھرم سے باہر سمجھا جاتا اور اُسے واپس اپنے دھرم میں آنے اور ہندو بنانے کے لئے مذہبی رسوم ادا کی جاتی تھیں۔‘ اس عقیدے کی تصدیق دو انگریز سیاحوں ہیوگل اور برنس بھی کرتے ہیں۔ اوپر بیان کئے گئے سبھی میرے ہی نام ہیں۔یونانی مجھے انڈس کہتے اور لفظ ’انڈیا‘ کا ماخذ بھی یونانیوں کا دیا ہوا یہی انڈس ہی ہے۔ میرا منبع ’سنگ کھابب‘ تازہ پانی کا سدا بہار چشمہ ہے۔“
سندھو کی یہ بات سن کے مجھے چند مؤرخین کی باتیں یاد آ گئی ہیں، جو میں نے اپنے دوست کی معلومات کے لئے اسے بتائی ہیں، ”اے دوست! کیا تم جانتے ہو کہ کچھ مؤرخ لفظ ’انڈیا‘ کے بارے کیا خیال کرتے ہیں۔“
اس نے نفی میں سر ہلایا
”چلو بتاتا ہوں تمھیں، کیا یاد کرو گے؟“
معروف مصنف سبط حسن اپنی کتاب ’پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء‘ میں رقم طراز ہیں: ”پاکستان جدید تہذیب کی حامل پرانی ریاست ہے، جس کی ابتداء بلوچستان سے دریافت ہونے والے نو ہزار (9000) سال قبل آباد ’مہر گڑھ‘ سے ہوتی ہے۔ خیبر پختون خوامیں چھ ہزارسال (6000) پہلے ’رحمان ڈھیری‘ ، پنجاب میں پانچ ہزار پانچ سو سال (5500) پہلے ’ہڑپہ‘ اور سندھ میں چار ہزار پانچ سو سال (4500) قبل ’موئن جو دڑو‘ ، یہ سب قدیم شہر اسی قدیم تہذیب کا حصہ تھے۔ پانچ ہزار سال پرانے ’اہرام مصر‘ مصری تاریخ کا حصہ ہیں تو ترک چار ہزار سال (4000) قبل آباد ’ٹرائے‘ شہر کو اپنی تاریخ سمجھتے ہیں۔ ایرانی تین ہزار سال (3000) پرانے ’شہداد کرمان‘ شہر سے اپنی تاریخ کا آغاز کرتے ہیں تو برطانوی پانچ ہزار(5000) سال پرانا ’سٹون ہنج‘ کو اپنی تاریخ بتاتے ہیں۔ ’ریگ وید‘ پندرہ سو (1500) قبل مسیح میں اس خطے میں لکھی گئی جو آج کا پاکستان ہے اور اس خطے کو ’سپت سندھو‘ یعنی ’سات دریاؤں‘ کی سرزمین سے منسوب کیا گیا ہے۔ (پنجاب کے 5 دریاؤں کے علاوہ دریائے سندھ اور دریائے ہاکڑا۔ یوں یہ 7 دریا سپتہ سندھو کہلائے)۔ ہندوؤں کی دیگر افسانوی نما مذہبی کتب ’مہابھارت، براہمندا، دالو’ وغیرہ شامل ہیں ان میں سپتہ سندھو کو ’ملیچھا‘ کہا گیا ہے۔ سنسکرت زبان کے اس لفظ کا مطلب ہے ”غیر ملک“۔ یہ کہنا غیر مناسب نہ ہوگا کہ ’ہزاروں سال سے بھارت کے لئے پاکستان غیر ملک ہے۔‘ انڈس ویلی کا علاقہ ’ہند‘ کہلاتا تھا۔ مشرقی ایران کی زبان میں لفظ ’س‘ نہیں تھا اور وہ اس کی جگہ لفظ ”ہ“ بولتے تھے۔ دریائے سندھ اصل میں دریائے ہند تھا۔ اسی نسبت سے دریائے سندھ کا سارا علاقہ ہند کہلاتا تھا۔ اتفاق کی بات ہے یہی علاقہ بعد میں پاکستان بن گیا۔ پاکستان کی تہذیب دراصل وہی ہے جو وادی سندھ کی تہذیب تھی۔ نو ہزار سال پرانی
”قدیم مشرقی تاریخ و ثقافت“ کے مصنف ”ولیم ایچ سٹیبنگ“ (Wlliam H Stiebing Jr.) اور ”زرتشت کا مذھب اور فلاسفی“ کی مصنفہ”مینا لیئر“ (Meena Lyre) لکھتی ہیں: لفظ ”ہندو“ کا مذھب، رنگ، نسل، قوم سے کو ئی تعلق نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ہندوؤں کی کسی مذہبی کتاب میں یہ لفظ استعمال ہی نہیں ہوا ہے۔ حیران کن طور پر لفظ ”انڈیا“ کو ”انڈس“ سے مستعار لیا گیا ہے اور اس نام کا دریا ہندوستان کی سرزمین سے بہتا ہی نہیں ہے۔ لفظ انڈیا سولہویں/ سترویں صدی عیسوی میں مشہور ہوا۔ اس سے پہلے انڈیا سے مراد تھی ”سندھو کی سرزمین۔ جس پر آج کا پاکستان مشتمل ہے۔
”جان کی“ (John Keay) اپنی کتاب ”انڈیا۔۔ ایک تاریخ“ میں لکھتا ہے: ”انڈیا سے مراد خالصتاً وہ سرزمین ہے جو دریائے سندھ کے ارد گرد واقع تھی۔ یہ یقیناً ہندوستان کی حدود سے باہر اور پاکستان کی حدود میں آتی ہے۔
پروفیسر حسن دانی لکھتے ہیں؛ ”پاکستان دریائے سندھ کا بچہ ہے اسی طرح جیسے مصر دریائے نیل کا۔ سندھو نے اتحاد، زرخیزی، مواصلات، سمتوں کے تعین اور اس ملک کا تمام نقشہ ترتیب دیا ہے۔ یونانی اس خطے کو جو آج کا پاکستان ہے کئی سو سال سے جانتے تھے۔ انڈیا کا لفظ تو سکندر اعظم کی موت کے چھ سو (600) سال بعد وجود پذیر ہوا۔“
میری باتیں ختم ہوئیں تو داستان گو کا قہقہہ میری سماعتوں سے ٹکرایا اور اس نے کہا؛ ”واہ بہت اعلیٰ دوست تم نے بہت اہم معلومات فراہم کی ہیں۔ یقیناً تمھارے پڑھنے والوں کے علم میں اضافہ ہوگا۔ پتہ مجھے بھی نہ تھا۔ بہت سے لوگ اس بارے شاید ہی جانتے ہوں گے۔“
زمانہ قدیم میں چونکہ ذرائع رسد و رسائل محدود تھے اور لوگ ایک دوسرے کے علاقوں کے بارے محدود معلومات رکھتے تھے۔ لہٰذا وہ دریا جس کی لمبائی 3 ہزار کلو میٹر سے زیادہ ہو وہ 3 مختلف ملکوں اور بہت سے خطوں، آباد مختلف قوموں کے علاقوں سے بہتا ہو عین ممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں ہر علاقے میں اسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہو۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کے دامن میں دنیا کی قدیم ترین تہذبیں پروان چڑھیں اور انہی تہذیبوں کی مناسبت سے اسے دریائے سند ھ کہا گیا ہو کہ یہ وادی سندھ کی تہذیب کا سب سے اہم دریا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.